Mafhoom-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اسمعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو ( بھی یاد کرو) یہ سب صبر کرنے والے تھے۔
مختلف انبیائے کرام کا تذکرہ تشریح : ان تمام واقعات میں بہت سی نصیحتیں ہیں گو کہ مخاطب سیدنا محمد ﷺ کو ہی کیا گیا ہے۔ اسی سلسلہ میں سیدنا اسماعیل کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ ان کو سخت آزمائشوں سے واسطہ پڑا اسی سلسلہ میں خانہ کعبہ کا ظہور ہوا آپ کو مذبوح (ذبح کیے گئے) کا لقب ملا حج پر قربانی انہی کی یاد میں کی جاتی ہے۔ اسی لیے آپ کو نبوت دی گئی آپ کے مکمل حالات سورة مریم میں گزر چکے ہیں۔ سیدنا ادریس (علیہ السلام) بھی نیکی و پارسائی میں کسی سے کم نہ تھے اور پھر ذوالکفل (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ہیں۔ یہ سب اللہ کے مقبول ترین بندے تھے کیونکہ انہوں نے خود کو اللہ کے لیے ہی وقف کر رکھا تھا۔ اسی طرح ذوالنون کا ذکر ہے یہ سیدنا یونس (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ ان کا ذکر تفصیلاً سورة یونس میں ہوچکا ہے۔ آپ اہل نینوا کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے مگر ان کی ہٹ دھرمی سے عاجز آکر ان کو عذاب کی اطلاع دی اور خود اللہ کے حکم سے پہلے ہی وہاں سے چل پڑے۔ اسی جرم کی سزا میں آپ کشتی سے اتار دیے گئے اور مچھلی نے آپ کو نگل لیا جب اس مصیبت میں آپ گرفتار ہوئے تو آپ نے اللہ سے معافی اور نجات کے لیے دعا کی۔ آپ کی دعا نہ صرف قبول ہوئی اور مچھلی نے آپ کو کنارے پر اگل دیا بلکہ آپ کی دعا مقبول ترین دعائوں میں سے ایک دعا کی حیثیت رکھتی ہے۔ ذوالنون کا مطلب ہے مچھلی والا۔ کیونکہ آپ کچھ دیر مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ رب العزت کا وعدہ ہے کہ ” ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔ “ اسی سلسلہ میں سیدنا زکریا (علیہ السلام) کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ کے برگزیدہ صالح بندے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا بھی قبول فرمائی اور ان کو سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) عطا کیے۔ ان کے حالات مفصل سورة مریم میں آیات 16 سے 34 آپ پڑھ چکے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو اللہ کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے اللہ اس کی طرف دس قدم بڑھاتا ہے جو اس کی طرف چل کے جاتا ہے اللہ اس کی طرف دوڑ کرجاتا ہے۔ اللہ اپنی راہ میں جدوجہد کرنے والوں کو ہر صورت ہر قدم پر ہر طرح مدد کرتا ہے۔ ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اور ان کو دنیا و آخرت میں بہترین درجات عطا کرتا ہے۔ پھر سیدنا مریم (علیہا السلام) کا ذکر انتہائی عزت افزائی کے ساتھ کیا۔ یہ بھی سورة مریم میں تفصیلاً گزر چکا ہے۔ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جس قدر انبیاء (علیہم السلام) گزر چکے ہیں وہ سب خاص انسان تھے راہ حق میں قربانیاں دینے والے مگر سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کر آخری نبی محمد ﷺ تک سب کا پیغام ایک ہی تھا۔ یعنی توحید۔ ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی پیغام دیا۔ مگر ہر زمانے میں ہر قسم کے لوگ آئے اور انہوں نے نافرمانی کی اور عذاب کے حق دار ہوئے تو اللہ تعالیٰ یاد کرواتے ہیں کہ ” یہ تمہاری جماعت (امت) ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو۔ “ (الانبیاء آیت 92)
Top