Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ 80   اور ذوالکفلؑ 81 کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے
سورة الْاَنْبِیَآء 80 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم تفسیر سورة مریم، حاشیہ 33۔ سورة الْاَنْبِیَآء 81 ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ہے " صاحب نصیب "، اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب آخرت کے لحاظ سے صاحب نصیب، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے۔ قرآن مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے، نام نہیں لیا گیا۔ مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اور کس زمانے میں گزرے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریا کا دوسرا نام ہے (حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے، کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آرہا ہے۔) کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت الیاس ہیں، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے، کوئی کہتا ہے یہ الیسع ہیں، (حالانکہ یہ بھی غلط ہے، سورة ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے اور ذوالکفل کا الگ) ، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے، اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوئے اور ان کا اصلی نام بِشْر تھا۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ " یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہ حزقیال (حِزْقی ایل) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری (597 ق۔ م) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابور کے کنارے ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے "۔ ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں۔ موجودہ زمانے کے مفسرین نے اپنا میلان جزقی ایک نبی کی طرف ظاہر کیا ہے، لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جاسکے۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابل ترجیح ہو سکتی ہے، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ جزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے، یعنی صابر اور صالح۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے تھے۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے خابور کے کنارے قائم کردی تھی جس کا نام تَل اَبیب تھا۔ اسی مقام پر 594 ق۔ م، میں حضرت حزقی اہل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے، جبکہ ان کی عمر 30 سال تھی، اور مسلسل 22 سال ایک طرف گرفتار بلا اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونکانے کی خدمت انجام دیتے رہے۔ اس کار عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال ان کی بیوی، جنہیں وہ خود " منظور نظر " کہتے ہیں، انتقال کر جاتی ہیں، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اور یہ اپنا دکھڑا چھوڑ کر اپنی ملت کو خدا کے اس عذاب سے ڈرانا شروع کردیتے ہیں جو اس کے سر پر تلا کھڑا تھا (باب 24۔ آیات 15۔ 27)۔ بائیبل کا صحیفہ حزقی ایل ان صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہوگا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے۔
Top