Tafseer-e-Saadi - Al-Anbiyaa : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (بھی یاد کرو) یہ سب صبر کرنے والے تھے
آیت 85 یعنی ہمارے چنے ہوئے بندوں، اور انبیاء ومرسلین کو بہترین اسلوب میں یاد کیجئے اور بلیغ ترین پیرائے میں ان کی مدح و ثنا کیجئے، یعنی اسماعیل، ادریس، ذوالکفل اور بنی اسرائیل کے انبیاء (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے۔ (کل) یعنی تمام انبیاء جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے (من الصبرین) صبر کرنے والے تھے۔ صبر سے مراد نفس کو اس کے طبعی میلان کی طرف مائل ہونے سے روکنا ہے اور یہ صبر تین انواع پر مشتمل ہے۔ 1۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر (یعنی اس کے حکموں کی پابندی) کرنا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے صبر کرنا (یعنی اس کے حکموں کی خلاف ورزی نہ کرنا) 3۔ اللہ تعالیٰ کی تکلیف و قضا و قدر پر صبر کرنا۔ بندہ صبر کامل کے نام کا اس وقت تک مستحق نہیں ہوتا جب تک کہ صبر کی مذکورہ تینوں اقسام کا حق ادا نہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان انبیائے کرام کو صبر کی صفت کے ساتھ موصوف کیا ہے، لہٰذا یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے صبر کی ان تینوں اقسام کو پورا کیا اور صبر کا اسی طرح التزام کیا جس طرح کرنا چاہیے تھا، نیز ان کو ” صلاح “ کی صفت سے موصوف فرمایا جو مشتمل ہے ” صلاح قلب “ پر جو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور ہر وقت اس کی طرف انابت سے حاصل ہوتی ہے اور ” صلاح لسان “ پر جس کا مطلب ہر وقت زبان کا اللہ کے ذکر سے تر رہنا ہے اور ” صلاح جوارح “ 160 پر، جس کا مطلب جوارح (اعضاء) کو اللہ کی اطاعت میں لگائے رکھنا اور نافرمانی سے ان کو روکے رکھنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے صبر اور صلاح کی بناء پر اپنی بےپایاں رحمت کے سائے میں سمیٹ لیا، ان کو ان کے دیگر برادر انبیاء ومرسلین میں شامل کیا اور انہیں دنیاوی اور اخروی ثواب عطا کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنا بڑا ثواب عطا نہ بھی کیا ہوتا تب بھی اللہ نے جو دنیا میں ان کا ذکر بلند کیا ہے اور آئندہ لوگوں میں انہیں سچی شہرت عطا کی ہے تو ان کے فضل و شرف کے لئے یہی کافی تھا۔
Top