Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (بھی یاد کرو) یہ سب صبر کرنے والے تھے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واسمعیل وادریس ادریس، اخنوح تھے یہ پہلے گزر چکا ہے۔ وذالکفل یعنی اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل کو یاد کرو۔ ترمذی الحکیم نے نوادر الاصول میں حضرت ابن عمر کی حدیث نقل کی ہے جو نہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے فرمایا : بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس کو ذوالکفل کہا جاتا تھا وہ کسی گناہ سے بچتا نہیں تھا اس نے ایک عورت کا پیچھا کیا اس سے بدکاری کرنے کے لیے اسے ساٹھ دینار دیے جب وہ اس کے قریب بیٹھا تو وہ کا نپنے لگی اور رونے لگی ذوالکفل نے کہا : کیا میں نے تجھے مجبور کیا ہے ؟ اس عورت نے کہا : نہیں لیکن مجھے حاجت نے مجبور کیا ہے۔ ذوالکفل نے کہا : تو چلی جا وہ رقم بھی تیری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ! میں اس کے بعد کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کروں گا پھر وہ رات کو فوت ہوگیا لوگوں نے اس کے دروازے پر یہ لکھا ہوا پایا : ان اللہ قد غفر لذی الکفل اللہ تعالیٰ نے ذوالکفل کی بخشش کردی ہے۔ اس کو ابو عیسیٰ ترمذی نے بھی تخریج کیا ہے۔ اس کے لفظ حضرت ابن عمر سے مروی ہیں فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا : ” اگر میں نے اس کو نہ سنا مگر ایک یا دو مرتبہ حتیٰ کہ سات مرتبہ کو شمار کیا۔ تو میں اسے بیان نہ کرتا لیکن میں نے اس سے زیادہ مرتبہ سنا ہے۔ میں نے نبی پاک ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ” ذوالکفل بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے نہیں بچتا تھا جس کو وہ کرنا چاہتا تھا۔ ایک عورت اس کے پیچھے آئی اس نے اسے ساٹھ دینار دیے اس شرط پر کہ وہ اس کے ساتھ وطی کرے گا جب وہ اس کے قریب بیٹھا تو وہ کا نپنے لگی اور رونے لگی۔ ذوالکفل نے پوچھا : تو کیوں رو رہی ہے ؟ کیا میں نے تجھے مجبور کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں لیکن یہ ایسا گناہ ہے جو میں نے کبھی نہیں کیا ہے اور مجھے اس پر حاجت نے ابھارا ہے۔ ذوالکفل نے کہا : تو ایسا کرتی ہے اور میں نے ایسا نہیں کیا تو چلی جا اور پیسے بھی تیرے ہیں۔ ذوالکفل نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اس کے بعد کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کروں گا وہ اسی رات فوت ہوگیا۔ صبح اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا : اللہ تعالیٰ نے ذوالکفل کو بخش دیا ہے۔ “ فرمایا : یہ حدیث حسن ہے (1) ۔ بعض نے کہا : الیسع جب وہ بوڑھا ہوگیا تو کہا : اگر میں لوگوں پر کسی کو خلیفہ بنائوں حتیٰ کہ میں دیکھوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے آپ نے فرمایا : تین دن کی کون مجھے ضمانت دے گا دن کو روزہ رکھے، رات کو قیام کرے اور فیصلہ کرتے وقت غصہ میں نہ آئے۔ عیص کی اولاد میں سے ایک شخص نے کہا : میں۔ آپ نے اسے رد کردیا۔ پھر دوسرے دن بھی اسی طرح فرمایا تو اسی شخص نے کہا : میں نے اسے خلیفہ بنایا۔ پس اس نے وعدہ وفا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف فرمائی اور اس کا نام ذوالکفل رکھا کیونکہ اس نے ایک امر کی ضمانت دی تھی، یہ حضرت ابو موسیٰ ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے۔ عمربن عبدالرحمن بن حرث نے کہا : حضرت ابو موسیٰ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ ” ذوالکفل نبی نہیں تھا لیکن وہ عبد صالح تھا اپنی موت کے وقت ایک نیک شخص کے عمل کی ضمانت لی تھی۔ وہ ہر روز اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سو رکعت نماز پڑھتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی تعریف فرمائی “ ( 2) ۔ کعب نے کہا : بنی اسرائیل میں ایک کافر بادشاہ تھا اس کے شہر سے ایک نیک شخص گزرا تو اس نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر میں اس شہر سے نکلوں گا تو اس بادشاہ پر اسلام پیش کروں گا۔ اس نے اس بادشاہ پر اسلام پیش کیا اس بادشاہ نے پوچھا : میری کیا جزا ہوگی ؟ اس نے کہا : جنت۔ اور اس کے لیے جنت کی صفت بیان کی۔ بادشاہ نے کہا : مجھے اس کی کون ضمانت دے گا ؟ اس شخص نے کہا : میں۔ پس وہ بادشاہ اسلام لایا اور اپنی مملکت سے علیحدہ ہوگیا اور اپنے رب کی طاعت کی طرف متوجہ ہوا حتیٰ کہ وہ فوت ہوگیا۔ وہ دفن کیا گیا صبح ہوئی تو لوگوں نے اس کا ہاتھ قبر سے باہر دیکھا اس کے ہاتھ میں سبز رقعہ تھا جس میں سفید نور کے ساتھ یہ لکھا ہوا تھا : ان اللہ قد غفرلی وأدخلنی الجنۃ ووفی عن کفالۃ فلان۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کردیا ہے اور مجھے جنت میں داخل کیا ہے اور فلاں کی کفالت کو پورا کیا ہے۔ لوگ اس شخص کی طرف دوڑ کر گئے تاکہ وہ ان پر ایمان کا عہد لے اور ان کے لیے کفیل بن جائے، جس طرح بادشاہ کے لیے کفیل بنا تھا۔ اس نے ایسا ہی کیا وہ تمام لوگ ایمان لے آئے اور اس کا نام ذوالکفل رکھا گیا۔ بعض نے کہا : وہ پاکدامن شخص تھا ہر انسان کا کفیل بن جاتا تھا جو کسی مصیبت یا تہمت یا مطالبہ میں گرفتار ہوتا تھا پس اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں گرفتار شخص کو نجات دیتا تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : ذوالکفل نام اس لیے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل وسعی کی کفالت دی تھی باوجود اس کے کہ اس کے زمانہ کے دوسرے انبیاء کی بنسبت اس کا عمل کمزور تھا۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ نبی نہیں تھا۔ حسن نے کہا : حضرت الیاس سے پہلے وہ نبی تھا۔ بعض نے کہا کہ یہ حضرت زکریا (علیہ السلام) تھے انہوں نے حضرت مریم کی کفالت کی تھی۔ کل من الصبرین۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم، طاعت کے قیام اور گناہوں سے اجتناب پر صبر کرنے والے تھے۔ وادخلنھم فی رحمتنا ہم نے انہیں جنت میں داخل کیا
Top