Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 89
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ١ۙ وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ١٘ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آئی كِتَابٌ : کتاب مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس مُصَدِّقٌ : تصدیق کرنے والی لِمَا : اس کی جو مَعَهُمْ : ان کے پاس وَکَانُوْا : اور وہ تھے مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے يَسْتَفْتِحُوْنَ : فتح مانگتے عَلَى الَّذِیْنَ : ان پر جنہوں نے کَفَرُوْا : کفر کیا فَلَمَّا : سو جب جَآءَهُمْ : آیا انکے پاس مَا عَرَفُوْا : جو وہ پہچانتے تھے کَفَرُوْا : منکر ہوگئے بِهٖ : اس کے فَلَعْنَةُ اللہِ : سولعنت اللہ کی عَلَى الْکَافِرِیْنَ : کافروں پر
اور جب ان کے پاس ایک کتاب اللہ کے پاس سے پہنچ گئی تصدیق کرنے والی اس کی جو ان کے پاس (پہلے سے) موجود ہے،308 ۔ اور اس کے قبل یہ (خود ہی) کافروں سے بیان کیا کرتے تھے،309 ۔ پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جس کو (خوب) پہچانتے تھے تو اسی سے کفر کربیٹھے ، 310 ۔ سو اللہ کی لعنت ہو کافروں پر،311 ۔
308 ۔ (کبیر) (آیت) ” کتب من عند اللہ “ یعنی قرآن۔ (آیت) ” لما معھم “ یعنی توریت۔ قرآن مجید نے اپنی یہ صفت جابجا بیان کی ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ بجائے خود صادق ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پچھلی آسمانی کتابوں کا مصدق بھی ہے اور ان پچھلی کتابوں میں سب سے زیادہ مشہور توریت ہے۔ 309 ۔ (کہ عنقریب آخری نبی نجات دہندہ کا ظہور ہونے والا ہے) (آیت) ” الذین کفروا “ سے مراد اس سیاق میں مشرکین عرب ہیں۔ ایک نومسلم انصاری صحابی ؓ سے روایت ہے کہ زمانہ قبل اسلام میں جب ہم یہود کو شکست دیتے تھے تو وہ کہا کرتے کہ اچھا ٹھیر جاؤ عنقریب ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے۔ ہم اس کے ساتھ ہو کر تمہیں قتل کرکے رکھ دیں گے۔ (سیرۃ ابن ہشام باب خبر انذار یہود بر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مسیح ماننے سے تو انکار کردیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے برابر ایک مسیح (نجات دہندہ) کے ظہور کے منتظر رہا کرتے تھے اور اس کا ذکر مشرکین مکہ سے اکثر کرتے رہتے (آیت) ” یستفتحون “ یہاں یفتحون کے مرادف قرار دیا گیا ہے اور فتح کے معنی عربی میں خبر دینے اور بیان کرنے کے ہیں، اے یعرفون المشرکین ان نبیا یبعث منہم (روح) اے یفتحون علیہم ویعرفونھم (کشاف) لیکن (آیت) ” یستفتحون “ اپنے عام اور مشہور معنی کے لحاظ سے مفہوم طلب فتح ونصرت کا رکھتا ہے۔ اس صورت میں مراد یہ ہوگی کہ اس کے قبل یہود اس پیغمبر منجی کا واسطہ دلا دلا کر خدا سے مدد چاہا کرتے تھے اور ائمہ تفسیر کی اکثریت نے یہی مراد لی ہے اسے یستنصرون اللہ ببعثۃ محمد (علیہ السلام) (راغب) یستنصرون بمحمد والقرآن (ابن عباس ؓ ومعنی الاستفتاح الاستنصار (ابن جریر) یسألون الفتح والنصرۃ (کبیر) 310 (اور اسی سے انکار کرنے لگے کہ یہ کلام کلام الہی ہے یا یہ شخص اللہ کا پیغمبر ہے) (آیت) ” ماعرفوا “ سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے، اور ذات رسالت بھی، حاصل دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے۔ کنی عن الکتب ویحتمل ان یرادبہ النبی ﷺ (روح) مقصد یہ ہے کہ یہود اس آخری نبی اور اس کی نبوت کی علامتوں سے اپنے ہی دینی نوشتوں کے ذریعہ سے خوب واقف ہوچکے تھے۔ نبی کا ظہور بالکل اچانک اور ان کے علم وواقفیت سابق کے بغیر نہیں ہوا۔ انجیل یوحنا میں حضرت یحی نبی (علیہ السلام) (انجیلی زبان میں ان کا نام یہی یوحنا ہی ہے) کے ظہور کا حال یوں درج ہے کہ :۔” جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لیوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں۔ کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں، پس انہوں نے اس سے کہا، پھر تو ہے کون ؟ “ (یوحنا۔ 1: 19 ۔ 22) اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہود صدیوں قبل سے ایک جانے بوجھے ہوئے نبی (” وہ نبی “ ) کے انتظار میں تھے۔ 311 ۔ یعنی ان پر جو جان بوجھ کر عناد وتعصب کی راہ سے کفر و انکار کر بیٹھیں۔ لعنت پر ایک حاشیہ ابھی اوپر گزر چکا ہے۔
Top