Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يَاْمُرُ
: حکم دیتا ہے
بِالْعَدْلِ
: عدل کا
وَالْاِحْسَانِ
: اور احسان
وَاِيْتَآئِ
: اور دینا
ذِي الْقُرْبٰى
: رشتہ دار
وَيَنْهٰى
: اور منع کرتا ہے
عَنِ
: سے
الْفَحْشَآءِ
: بےحیائی
وَالْمُنْكَرِ
: اور ناشائستہ
وَالْبَغْيِ
: اور سرکشی
يَعِظُكُمْ
: تمہیں نصیحت کرتا ہے
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَذَكَّرُوْنَ
: دھیان کرو
بیشک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کرنے کا احسان کرنے کا ، اور قرابت داروں کو دینے کا ، اور منع کرتا ہے بےحیائی سے ، نامعقول باتوں سے اور سرکشی سے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑ لو ۔
(ربط آیات) گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی گواہی کا ذکر کیا ، قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ کی بارگاہ میں شہادت دیں گے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کا پیغام اپنی اپنی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ کی بارگاہ میں شہادت دیں گے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کا پیغام اپنی اپنی امتوں تک پہنچا دیا ، اور پھر آخر میں حضور ﷺ بھی اپنی آخری امت پر بطور گواہ پیش ہوں گے گذشتہ آیت میں اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کو واضح طور پر بیان کرتی ہے ، نیز فرمایا کہ یہ کتاب فرمانبرداروں کے لیے ہدایت ، رحمت اور بشارت ہے ۔ (جامع ترین آیت) گذشتہ درس میں (آیت) ” تبیانا لکل شیئ “۔ کا ذکر ہوچکا ہے ، کہ قرآن پاک میں ہرچیز کی اساسی تعلیم موجود ہے ، چناچہ آج کی آیت اس دعوے کی دلیل کا ایک عمدہ نمونہ ہے ، اس مختصر سی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے چھ باتوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے تین مثبت ہیں اور تین منفی ، کائنات میں کوئی اچھی یا بری چیز ایسی نہیں ہے جو ان چھ چیزوں سے باہر ہو ، اسی لیے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں ” اجمع ایۃ فی القران “۔ یعنی یہ آیت قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے ، اگر انسان اسی ایک آیت پر عمل کرے تو اس کی فلاح کے لیے یہی آیت کافی ہے ۔ اس آیت کی جامعیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی حضرات صرف یہی آیت کریمہ سن کر ایمان لائے ، حضرت عثمان ابن مظعون ؓ ابتدائی دور میں ہی اسلام لے آئے ، یہ حضور ﷺ کے رضاعی بھائی بھی ہیں ، مدینہ طیبہ پہنچ کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین میں سے سب سے پہلے فوت ہونے والے بھی آپ ہی ہیں ، آپ خود بیان کرتے ہیں کہ ابتداء میں میں اسلام قبول کرنے سے ہچکچاتا تھا ، ایک دفعہ حضور ﷺ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ آپ پر خاص کیفیت طاری ہوئی ، آپ نے دو دفعہ اوپر دیکھا پھر نگاہ مبارک نیچے کی طرف کرلی ، اس کے بعد آپ نے سلسلہ گفتگو پھر شروع کردیا ، کہتے ہیں کہ میں نے اس کیفیت کے متعلق حضور ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے یہی آیت پڑھ دی جو اس کیفیت کے دوران نازل ہوئی تھی ، اتنی جامع کمالات آیت سن کر میں فورا ایمان لے آیا ۔ اکثم بن سیفی ؓ اپنی قوم کے سردار تھے ، حضور ﷺ کے دعوی نبوت کے متعلق سنا تو دو آدمیوں کا ایک وفد حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ آپ کے حالات معلوم کیے جاسکیں ، یہ دونوں بڑے سمجھدار آدمی تھے ، آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سوال کیا ” من انت وما انت “ یعنی آپ کون ہیں اور کیا ہیں ؟ پہلے سوال (آپ کون ہیں) کے جواب میں حضور ﷺ نے فرمایا ” انا محمد ابن عبداللہ “ یعنی میں عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں ، البتہ دوسرے سوال (آپ کیا ہیں) کے جواب میں فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ہوں ، پھر آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی (آیت) ” ان اللہ یامر۔۔۔۔۔۔۔ الایۃ “۔ یہ سن کر وفد بڑا متاثر ہوا اور انہوں نے واپس جا کر اکثم سے کہا کہ ہم نے اس شخص سے دو سوال کیے پہلے سوال کا مقصد آپ کا نسب نامہ معلوم کرنا تھا کیونکہ عرب لوگ نسب پر بڑا فخر کرتے تھے مگر آپ نے اس سوال پر زیادہ توجہ نہیں دی ، بلکہ مختصر جواب دیا کہ میں محمد ابن عبد اللہ ہوں ، البتہ دوسرے سوال کا جواب آپ نے تفصیل کے ساتھ دیا اور یہ آیت بھی پڑھی ، وفد نے سفارش کی کہ آپ اپنے دعوی نبوت میں سچے ہیں ، لہذا آپ کی دعوت قبول کر لینی چاہئے چناچہ آیت متذکرہ کا مضمون سن کر اکثم کہنے لگے کہ میں دیکھتا ہوں کہ پیغمبر اسلام تمام عمدہ باتوں اور اعلی اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور تمام رذیل اخلاق و اعمال سے روکتے ہیں کہنے لگے ، اے لوگو ! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ آپ کے ماننے میں جلدی کرو ” فکونوا فی ھذا الامر رء وسا ولا تکونوا اذنابا “۔ اس معاملے میں سر یعنی سردار بن کر پہل کرو اور پیچھے رہنے والے دم چھلے نہ بنو ، دین کی قبولیت میں جلدی کرنا بڑی سعادت کی بات ہے ابوسفیان ؓ اپنے خاندان سمیت فتح مکہ کے دن اسلام لائے اور دین کے زبردست حامی بن گئے ، آپ نے اسلام کے لیے کارہائے نمایاں انجام دے مگر افسوس کیا کرتے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے میں بڑی دیر کردی ۔ (اسلام کا عالمی پروگرام) درحقیقت یہ آیت کریمہ اسلام کے عالمی پروگرام پر مشتمل ہے ، اسی لیے حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) کے زمانے سے یہ آیت جمعہ کے خطبہ میں پڑھی جاتی ہے مولانا عبید اللہ سندھی (رح) نے بھی قرآن پاک کی بہت زیادہ خدمت کی ہے آپ نے زندگی کا پیشتر حصہ جلاوطنی میں گزارا مگر قرآن پاک کی بہت زیادہ خدمت کی ہے آپ نے زندگی کا پیشتر حصہ جلاوطنی میں گزارا مگر قرآن پاک کو سینے سے لگائے رکھا اور جہاں بھی گئے قرآن پاک پڑھاتے رہے ، تو آپ نے پنتالیس (45) برس تک قرآن کی تعلیم دی اور سات (7000) ہزار علماء نے آپ سے اکتساب فیض کیا ، روس گئے تو وہاں پر دیگر لوگون کے علاوہ موسیٰ جار اللہ جیسے بڑے عالم نے آپ سے قرآن پڑھا ، چار سال تک ترکی میں رہے تو ارباب حکومت کو خبردار کیا تو الحاد کے سیلاب میں بہتے جا رہے ہو۔ آؤ میں تمہیں قرآن پاک کی چالیس سورتوں کا ایسا خلاصہ بتاتا ہوں کہ اس کو اپنے پروگرام میں شامل کرلو گے تو بےدینی سے بچ جاؤ گے ، مگر مصطفے کمال نے آپ کی دعوت کی طرف توجہ نہ دی ترکی سے آپ مکہ مکرمہ آگئے اور بارہ برس تک لوگوں کو قرآن پاک تفسیر پڑھاتے رہے جب وطن واپس آئے تو فرمایا کہ بڑھاپے کی اس عمر میں کوئی شخص حرم شریف کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا مگر میرے سینے میں قرآن کریم کا ایک پروگرام ہے میں چاہتا ہوں کہ یہ پروگرام موت سے پہلے تمہیں بھی بتا دوں ، آپ نے فرمایا کہ سورة النحل کی یہ آیت (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ “۔ اسلام کا عالمی پروگرام ہے مسلمانوں کا یہ فخریہ پروگرام ہے جو کسی دیگر قوم کے پاس نہیں ہے ، اس کو لے کر آگے بڑھو تو فلاح و کامیابی تمہارے قدم چومے گی مگر افسوس کا مقام ہے کہ خود مسلمان اس پروگرام کو پس پشت ڈال چکے ہیں اور اس کی بجائے عیسائیوں ، یہودیوں اور دہریوں کا پروگرام اپنانے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں مشرقی لوگ اب مغربی ممالک کے پروگرام کے مطالعہ کے لیے جاتے ہیں ان کی مشیر یہاں آتے ہیں تو اپنے پروگرام کی روشنی میں یہاں کے لیے سکی میں بناتے ہیں جنہیں ہم خوشی سے قبول کرتے ہیں ، ہم غیر مسلم اقوام کی شاگردی اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اغیار کے پروگرام پر عمل کرکے ہی ترقی یافتہ بن سکتے ہیں ہم نے وہ عالمی پروگرام ترک کردیا ہے جس پر عمل پیرا ہونے پر اللہ نے پہلے بھی اقوام عالم میں سربلند کیا تھا اور آئندہ کے لیے بھی ہماری عزت ووقار کا دارومدار اسی پروگرام پر ہے ۔ (تین مثبت چیزیں (1) عدل) اس پروگرام کے پہلے حصے میں تین مثبت چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل “۔ اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے ، یہ پہلی چیز ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے ایک بزرگ محمد ابن کعب قرظی (رح) سے کہا کہ بھائی ذرا عدل و انصاف کی تعریف تو کرو کیونکہ اس آیت کریمہ میں اللہ نے سب سے پہلا حکم عدل کا دیا ہے ، کہنے لگے آپ نے یہ بڑا مشکل سوال کیا ہے تاہم سن لو ! عدل کا مفہوم یہ ہے ” کن لصغیر ابا “ یعنی چھوٹے شخص کے لیے باپ کی طرح شفیق اور رحمدل بن جاؤ ، اور بڑے شخص کے لیے بیٹے کی مانند مؤدب ہوجاؤ کیونکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے ” من لم یؤقر کبیرنا ولم یرحم صغیرنا فلیس منا “۔ یعنی جو بڑے کا ادب اور چھوٹے پر رحم نہیں کرتا ، وہ ہماری پارٹی کا آدمی نہیں ہے ، فرمایا جو تمہارے برابر ہو ، اسے بھائی کی مانند سمجھو کیونکہ ” المرء اکثر لاخیہ “ عربی لوگ کہتے ہیں کہ انسان کو بھائیوں کے ساتھ اکثریت حاصل ہوتی ہے ، جس شخص کے جتنے بھائی ہوں گے ، اتنے ہی اس کے بازو ہوں گے اور اسے قوت حاصل ہوگی ، روح المعانی والے کہتے ” وکذلک للنسآء “ اور عورتوں کے حق میں بھی ایسے ہی بن جاؤ ان کو بھی نظر انداز نہ کرو ، ان کے حق میں بھی شفقت و مہربانی کا اظہار کرو ، محمد بن کعب قرظی (رح) نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت ! کسی مجرم کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہ دو حتی کہ کسی کے حق میں ایک کوڑا بھی زیادہ نہیں ہونا چاہئے ، فرمایا یہ سب چیزیں عدل و انصاف میں داخل ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) (ہمعات ص 89 وحجۃ اللہ البالغۃ ص 53 ج 1) فرماتے ہیں کہ چار اصول ایسے ہیں جن کی تعلیم تمام انبیاء نے دی ہے ، ہماری شریعت میں بھی یہ اصول رائج ہیں ، غرضیکہ تمام آسمانی شرائع کا لب لباب یہ چار اصول ہیں ، پہلا اصول طہارت یعنی پاکیزگی ہے ، دوسرا اخبات یعنی عجز و انکساری ہے ، تیسرا اصول سماحت یعنی رذیل اخلاق سے پرہیز ، اور چوتھا اصول عدل ہے ، اجتماعی معاملات عدل کے بغیر درست نہیں ہو سکتے ، عدل کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل “۔ (النسآئ) جب تمہیں لوگوں پر حاکم بنایا جائے تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو ، نیز فرمایا (آیت) ” واذا اقلتم فاعدلوا “۔ (الانعام) جب بات کرو تو انصاف کی کرو اللہ نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” اعدلو ، ھو اقرب للتقوی “۔ (المآئدۃ) عدل کیا کرو کہ یہ تقوی سے قریب تر عمل ہے ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ معاملہ اپنوں کا ہو یا بیگانوں کا ہاتھ سے نہ چھوڑو چاہے تمہیں کتنا بھی نقصان اٹھانا پڑے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ عدل کرنے والوں کو قیامت کے دن کستوری کے میزوں پر بٹھایا جائے گا یہ ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے انصاف کرتے وقت اپنے بیگانے کا لحاظ رکھا ، نہ دوست اور دشمن کا فرق کیا حقدار کو حق ادا کرنا ، معاشرے میں عدل اور توازن قائم رکھنا بڑا مشکل کام ہے آج دنیا میں عدل ملتا نہیں بلکہ خریدنا پڑتا ہے ، عدالتیں بڑی مہنگی ہیں ، عدلیہ کی فیس اور وکیلوں کا معاوضہ ادا کرنا کمزور آدمی کے بس کی بات نہیں ، مالدار لوگ سرمائے کے بل بوتے پر اپنا ہر جائز اور ناجائز مقصد حاصل کرلیتے ہیں منصف اور وکیل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ، اس لیے غریب آدمی کو انصاف نہیں ملتا کہاں اسلام کا نظام عدل ہو جو حاکم اور محکوم ، بڑے اور چھوٹے ، آقا اور غلام ، گورے اور کالے ، اپنے اور بیگانے میں کوئی امتیاز روا نہ رکھے ، عدل کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے تمام عقائد ، اعمال ، اخلاق معاملات اور جذبات انصاف کے ترازو میں تلے ہوئے ہوں ، افراط وتفریط کی وجہ سے کوئی پلڑا جھکنے یا اٹھنے نہ پائے ، سخت سے سخت دشمن کے ساتھ بھی معاملہ کرے تو انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ، انسان کے ظاہر و باطن یکساں ہوں ، جو بات اپنے لیے ناپسند کرے وہ بھائی کے لیے بھی پسند نہ کرے ، امام بیضاوی (رح) لکھتے ہیں کہ عدل میں سب سے پہلے توحید کا درجہ ہے کیونکہ توحید تعطیل اور تشریک کے درمیان والا راستہ ہے ایک طرف تعطیل ہے یعنی خدا تعالیٰ کو محض معطل تصور کرلیا جائے کہ وہ کوئی کام کاج نہیں کرتا ، اسکی کوئی صفت نہیں ، وہ کسی کا حاجت روا اور مشکل کشا نہیں ، بس محض نام کا خدا ہے (نعوذ باللہ) اور دوسری طرف عبادت ، ریاضت اور صفات میں غیروں کو شریک بنایا جائے ، ان دونوں خرابیوں کے درمیان توحید ہی نقط عدل ہے اور اسی کو اختیار کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا بھی عین عدل ہے ، اس کے برخلاف عبادت میں اس قدر غرق ہو کہ انسان راہب بن کر دنیا میں ترک کر دے ، یہ افراط ہوگا دوسری صورت یہ ہے کہ انسان خدا کی عبادت سے بالکل ہی منہ موڑ جائے اور بالکل بیکار ہو کر بیٹھ جائے ، یہ تفریط ہوگی تو گویا صحیح طریقے سے عبادت کرنا بھی عدل کے زمرہ میں آتا ہے ، اسی طرح سخاوت یا جود ہے جو بخل اور اسراف کے درمیان عدل کی منزل ہے ، انصاف کی بات یہی ہے کہ انسان بخل اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرے جسے جود کا نام دیا گیا ہے ۔ (2) (احسان) تین مثبت چیزوں میں دوسری چیز فرمایا ” والاحسان “ وہ احسان ہے ، ایک حدیث کی اصطلاح میں اعلی درجے کی عبادت کو احسان سے تعبیر کیا گیا ہے حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے ، کہ احسان اب چیز کا نام ہے تعبیر کیا گیا ہے حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ احسان اس چیز کا نام ہے ” ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یعامک “۔ کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طریقے سے کر کہ گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ صورت حال پیدا نہ ہو سکے تو کم از کم اتنا تو تصور کرلے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے یہ تو احسان کا معنی ہے ، البتہ اس مقام میں احسان سے مراد نیکی ، ہمدردی ، فیاضی ، اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح ، ان کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پر احسان کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ (آیت) ” واللہ یحب الحسنین “۔ (آل عمران) قارون سے بھی لوگوں نے کہا تھا (آیت) ” احسن کما احسن اللہ الیک “۔ (القصص) تم بھی لوگوں پر احسان کرو جیسے اللہ نے تم پر احسان کیا ہے مگر وہ کہنے لگے (آیت) ” انما اوتیتہ علی علم عندی “۔ میں نے یہ دولت اپنے علم وہنر کی بنا پر جمع کی ہے ، اس میں اللہ کے احسان کی کیا بات ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے مال و دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا ۔ احسان کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان خود نیکی اور بھلائی کا پیکر بن کر دوسروں کا بھلا کرے ، اگر خود نیک عمل نہیں کرتا تو دوسروں کو تبلیغ کرنے کا کیا اثر ہوگا ؟ اگرچہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنا بجائے خود اچھی بات ہے اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے مگر حقیقت کے اعتبار سے یہ بڑی کمزور بات ہے کہ خود تو فرائض کا تارک مگر دوسروں کو حکم دیتا ہے ، یا خود سنت پر عمل نہیں کرتا مگر دوسروں کو اس کی تلقین کرتا ہے اچھا نتیجہ اسی وقت نکلے گا جب خود عامل بن کر دنیا کے سامنے آئے گا ، اگر قول وفل میں تضاد پایا گیا تو دنیا ایسی نیکی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی آج بھی یورپ ، امریکہ اور جاپان وغیرہ کے لوگ مبلغ کے کردار کو دیکھتے ہیں ، جس شخص کا کردار درست ہوتا ہے اس کی بات بھی آگے چلتی ہے ۔ بہرحال نیکی کا پیکر بن کر دوسروں کا بھلا چاہنا بہت بڑی بات ہے سورة الرحمن میں موجود ہے (آیت) ” ھل جزآء الاحسان الا الاحسان “ احسان کا بدلہ تو احسان ہی ہے یعنی نیکی کا بدلہ نیکی ہے ، اور یہ نیکی اپنے ، بیگانے دوست اور دشمن سب کے ساتھ ہونی چاہئے یہی احسان کی منزل ہے ۔ (3) (قرابتداروں کا حق) فرمایا تیسری مثبت چیزیہ ہے (آیت) ” وایتآی ذی القربی “۔ قرابت داروں کا حق ادا کرنا ہر شخص کے ساتھ اچھا سلوک کرنا احسان کی منزل ہے جبکہ قرابت داروں کا حق ڈبل ہوتا ہے ۔ ایک دین کا رشتہ ہوتا ہے اور دوسرا قرابت کا لہذا دوسرے لوگوں کی نسبت ان کا حق فائق ہوتا ہے ، اسی لیے اس آیت کریمہ میں احسان کے بعد حق قرابت کو علیحدہ عنوان کے ساتھ بیان کیا ہے کہ قرابت داروں کے حقوق بھی ادا کرو ، رشتہ دار خواہ مخالفت ہوں یا موافق ان کا خیال رکھو ، اگر محتاج ہیں تو ان کی اعانت کرو ، شریعت میں صلہ رحمی کی بڑی تاکید آئی ہے ، لہذا اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آؤ معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ بہت بڑا اصول ہے ۔ (تین منفی چیزیں (1) فحاشی) تین مثبت چیزیں بیان کرنے کے بعد اللہ نے تین منفی چیزوں سے منع فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وینھی عن الفحشآء “۔ اللہ تعالیٰ تمہیں بےحیائی سے روکتا ہے ، حضرت شیخ الاسلام (رح) فرماتے ہیں کہ تین قوتیں ایسی ہیں جو ساری خرابیوں کی جڑ ہیں ، پہلی قوت بہیمیہ شہوانیہ ہے ، دوسری قوت بہیمیہ شیطانیہ ہے ، اور تیسری غضبیہ سبعیہ ہے یہ تینوں قوتیں فحاشی سے تعلق رکھتی ہیں جن کا منشا شہوت اور بہیمیت کی زیادتی ہوتا ہے عریانی ، زنا ، لواطت ، گالی گلوچ ، رقس و سرود ، بداخلاق ڈرامے وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو انسانیت شہوانیت میں اضافہ کرتی ہیں ، فحاشی قول کے ذریعے بھی ہوتی ہے اور عمل کے ذریعے بھی ، اگر انسان کا عقیدہ اور اخلاق خراب ہوجائے تو عرب لوگ اس کو بھی فحاشی سے تعبیر کرتے ہیں ، عربوں کے نزدیک بخل بھی اسی زمرے میں آتا ہے ، مگر آج پوری دنیا عریانی کی لپیٹ میں ہے اور اس سے اجتناب کرنے کی بجائے اس پر فخر کیا جاتا ہے نیم برہنہ تصاویر ، ناچ اور گانا وغیرہ بداخلاقی کی باتیں ہیں جن سے خدا نے منع کیا ہے جو شخص فحاشی کی باتوں میں ملوث ہوگا ، وہ فلاح نہیں پاسکتا۔ (2) (منکر) دوسری منفی بات ” والمنکر “ ہے اس میں وہ تمام بری چیزیں آجاتی ہیں جن سے شریعت بھی منع کرتی ہے اور عقل بھی برا مناتی ہے ہر نامعقول بات جو فطرت سلیمہ اور عقل صحیحہ کے خلاف ہو منکر کی تعریف آتی ہے ، اس کا منشاء قوت بہیمیہ اور قوت شیطانیہ کا غلبہ ہوتا ہے ، اللہ نے ایسی تمام چیزوں سے منع فرمایا ہے ۔ (3) (سرکشی) تیسری ممنوع چیز کے متعلق فرمایا (آیت) ” والبغی “ یہ بغاوت اور سرکشی ہے ۔ جس سے اللہ نے منع فرما دیا ہے ہر قسم کا ظلم ، زیادتی ، تعدی مار پیٹ گالی گلوچ چھینا چھپٹی ، بےعزتی ، قانون شکنی ، چوری ڈاکہ وغیرہ بغی کی تعریف میں آتے ہیں ان سے بچنا چاہئے ۔ الغرض تین کام کرنے اور تین کام نہ کرنے کا بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اہل اسلام کا اجتماعی پروگرام واضح کردیا اور آخر میں فرمایا ” یعظکم اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے اور سمجھاتا ہے (آیت) ” لعلکم تذکروں “ تاکہ تم نصیحت پکڑ لو اور اوامر ونواہی کو سمجھ جاؤ اور پھر ان پر عمل پیرا ہوجاؤ ۔
Top