بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Haaqqa : 1
اَلْحَآقَّةُۙ
اَلْحَآقَّةُ : سچ مچ ہونیوالی (قیامت)
وہ ثابت ہونے والا واقعہ ۔
کوائف سورة : اس سورة کا نام سورة لحاقہ ہے۔ مکی زندگی میں نازل ہوئی ۔ اس کی باون آیات اور دو رکوع ہیں۔ یہ سورة دو سوچھپن کلمات اور ایک ہزار چار سو اسی حروف پر مشتمل ہے۔ سابقہ سورة کے ساتھ : سابقہ سورة میں رسالت کا ذکر تھا۔ اللہ کے بنی اور رسول کو مجنون کہنے والوں کا رد تھا۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو دنیاوی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں۔ یہ محض امتحان کے لیے ہیں کسی کی مقبولیت کی نشانی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ باغ والوں کی مثال بیان فرمائی کہ اللہ نے ان کا بھی امتحان لیا تھا۔ اس کے علاوہ منکرین قیامت کا رد فرمایا۔ اور انکے ساتھ آخرت میں پیش آنے والے حالات کا ذکر فرمایا آخر میں پھر رسالت کے مضمون کو تازہ کیا۔ اور مشرکین کی ایذا کے مقابلے میں صبر کی تلقین کی۔ جلد بازی سے منع فرمایا۔ مچھلی والے رسول کی مثال بیان کی کہ انہوں نے جلد بازی کی تو ابتلا میں مبتلا ہوگئے۔ فرمایا آپ ایسا نہ کریں بلکہ اپنے رب کے حکم کے سامنے صبر کرتے رہیں۔ اور مشرکین کی ایذائوں کو برداشت کریں۔ مضامین سورة ہذا : اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے جزائے عمل کا ذکر فرمایا۔ کہ جزائے عمل یقینا واقع ہوگا۔ اور مجرموں کو سزا مل کر رہے گی۔ یہ بھی اشارہ کردیا کہ سز ادنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ملے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر دو طریقوں سے جزائے عمل دیتے ہیں۔ تو گویا جزائے عمل سے سورة کو شروع کرکے آخر میں پھر رسالت کا ذکر فرمایا۔ پہلی سورة میں مشرکین کے اس الزام کا رد تھا جس میں وہ حضور ﷺ کو شاعر اور کاہن کہتے تھے۔ اور قرآن پاک کو کہانت اور شاعری سے نشیبہ دیتے تھے۔ اس سورة کی ابتدا میں جزائے عمل کا بیان ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی مجرم کو چھوڑتے نہیں۔ اسے دنیا میں سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی ملے گی۔ دنیا کی سزا دینوی اسباب کے دائرے کے اندر ملتی ہے۔ اور دنیا ککا نظام معطل نہیں کیا جاتا ۔ اور آخرت کی سزا مستقل طور پر ملے گی۔ الحافہ کا مفہوم : الحاقہ حق سے مشتق ہے۔ اور حق کے معنی ثابت ہونا ہے حق ثابت شدہ چیز کو کہتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اسم پاک بھی ہے۔ یعنی وہ ثابت اور قائم دائم ہے۔ جیسے حقوق ہیں ، کوئی حق اللہ ہے کوئی حق العباد ہے یعنی اللہ کا حق بھی ہے اور بندوں کا حق بھی ہے۔ تو گویا حق کا معنی ٰ ثابت ہونا اور حاقہ کا معنی وہ حادثہ ہے جو ثابت ہوگا ، یعنی ثابت ہونے والا حادثہ۔ جزائے عمل کا معتین وقت : جزائے عمل کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں تین لفظ استعمال کیے ہیں یعنی اور ان تینوں کا اطلاق قیامت پر کیا ہے جو کہ جزائے عمل کا اصلی وقت ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو اس دن ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ یہاں پہلے صبر کی تلقین کی ، پھر الحاقہ کا ذکر کیا کہ وہ ثابت ہونے والا واقعہ یعنی قیامت ضرور برپا ہوگی مشرکین کہتے تھے یعنی نہ کوئی بعث ہے اور نہ حساب کتاب کے لیے قیامت یہ سب غلط کہتے ہیں کہ قیامت آنے والی ہے۔ وہ توحیدو رسالت کا بھی انکار کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر قیامت کا ذکر فرمایا کہ جزائے عمل کے لیے وہ دن مقرر ہے۔ اس کے علاوہ تھوڑا سا توحید کا ذکر فرمایا اور دوسرے نمبر پر رسلت کا ذکر اور منکرین رسالت کا ر د فرمایا۔ الحاقہ کیا ہے ؟ : فرمایا وہ ثابت ہونے والا حادثہ وہ ثابت ہونے والا واقعہ کیا ہے کسی چیز کی اہمت کو ظاہر کرنے کے لیے یہ ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ اور اے پیغمبر ﷺ آپ کو کس نے بتلایا کہ وہ ثابت ہونے والا واقعہ کیا ہے۔ کسی چیز کی زیادہ تاکید کے لیے یا تفہیم کے لیے اس قسم کا عنوان اختیار کیا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہیں ۔ کیونکہ عام مخاطب ویسے ہی نہیں جانتے مگر جو اصلی مخاطب ہے اسے بھی گویا اس کا علم نہیں ۔ تو اس جگہ چند دینوی حاقے بیان کئے جو دینوی سزا کے طور پر مجرمین پر واقع ہوئے۔ اور اس کے بعد پھر بڑے حادثے یعنی قیامت کا ذکر کیا۔ اور اس کو حاقہ کے لفظ سے تعبیر کیا۔ جو کہ جزائے عمل کی اصل گھڑی ہے۔ یعنی کے واقع ہونے کا ذکر کیا اور پوری تفصیل بیان کی۔ قوم ثمود اور حاد کی سرکشی : الغرض یہاں چند حاقے بیان کئے جو ان مجرمین کو ملے جو جزائے عمل کا انکار کرتے تھے۔ منجلہ ان کے قوم ثمود اور عاد کا ذکر کیا قوم ثمود اور عاد نے قارعہ یعنی کھٹکھٹا دینے والی چیز کو جھٹلا یا۔ قرع کے معنی ٰ کھٹکھٹانا۔ ہلا دینا کہ وہ ہر چیز کو ہلا کر رکھ دے گی کوئی نظام قائم نہیں رہے گا۔ اور اس سے مراد قیامت ہے۔ تو گویا قوم ثمود اور عاد نے قیامت کے واقع ہونے کا انکار کردیا۔ جس کی وجہ سے وہ سزا کے مستوجب قرار پائے۔ سزا کی د وقسمیں : شاہ عبد العزیز محدث (رح) فرماتے ہیں کہ سزا دو قسم کی ہوتی ہے۔ بعض سزائیں صرف تنبیہ کے لیے ہوتی ہیں اور ان کو مسلسل نہیں رکھا جاتا۔ یہ سزا اس لیے دی جاتی ہے تاکہ لوگ سمجھ جائیں ۔ تبنیہ ہوجائے اور اس کے بعد سزا اٹھالی جاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ کہ ہم بندوں کو تکلیف اور خوشحالی دے کر آزماتے ہیں۔ کبھی قحط ، کبھی زلزلہ ، مگر یہ سزا دائمی نہیں ہوتی بلکہ وقتی طور پر ہوتی ہے تاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ دوسری آیت مبارکہ میں ہے بسا اوقات ہم دنیا میں بڑے عذاب سے پہلے سزا دے دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ خبردار ہو کر باز آجائیں۔ بڑا عذا ب تو قیامت کو آئے گا مگر اس سے پہلے بھی ہم سزا دے دیتے ہیں۔ اس کو ابتلاء کہتے ہیں۔ عذاب کی دوسری صورت یہ ہے کہ سزا آئی اور گرفتار ہوگیا۔ اب برزخ کا معاملہ شروع ہوگیا۔ جیسا کہ آگے فرعون ، عاد ، ثمود ، قوم لوط اور اصحاب ایکہ وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔ جب خدا کی گرفت آئی ادھر غرق کیا ، اُدھر برزخ میں آگ پر پیش کردیے گئے۔ اور یہ حالت تا وقیامت مسلسل قائم رہے گی۔ اگرچہ برزخ کی سزا مکمل سزا نہیں ہے۔ تاہم فی الجملہ سزا ہے۔ اصل سزا تو قیامت کو آئے گی جب تمام اعمال کا آخری اور قطعی فیصلہ ہوگا ، مگر برزخ میں بھی سزا شروع ہوجاتی ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ملتی رہتی ہے۔ اور پھر رعایت کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ سزا کی پہلی صورت ابتلا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ آزمائش کے لیے وقتی طور پر سزا دیتے ہیں تاکہ لوگ باز آجائیں۔ پھر اس کو اٹھایا جاتا ہے۔ مکہ والوں پر سات سال تک قحط نازل رہا۔ وہاں بھی یہی فرمایا اس کے بعد جب ہم بڑی پکڑ میں پکڑیں گے پھر مجرموں سے انتقام لیں گے۔ بڑی گرفت وہاں بدر کی لڑائی کو کہا گیا ہے۔ پہلے قحط میں مبتلا کیا پھر بڑی گرفت میں تمام بڑے بڑے اکابرمجرمین ہلاک ہوگئے۔ قوم ثمود اور عاد کی ہلاکت : تو فرمایا یعنی قوم عاد اور قوم ثمود نے کھٹکھٹادینے والی چیز قیمات کو جھٹلا دیا ۔ اس بت کی سزا یوں دی گئی کہ۔ قوم ثمود کو ایک چیخ اور زلزلہ کے ساتھ ہلا ک کیا گیا۔ طاغیہ کا معنی زلزلہ بھی ہوتا ہے۔ اور چیخ بھی یعنی سخت آواز ان دو چیزوں سے قوم ثمود کو ہلاک کیا گیا۔ اور جو قوم عاد تھی انہیں تند ہو ا کے ساتھ ہلا ک کیا گیا۔ جو کہ حد سے بڑھنے والی تھی۔ ہلاکت کے بیان میں تقدیم و تاخیر : اس مقام پر قوم ثمود کی ہلاکت کا پہلا بیان کیا گیا اور قوم عاد کا بعد میں حالانکہ تاریخی اعتبار سے ترتیب اس کے برعکس ہے۔ عاد پہلے گزرے ہیں۔ اور ثمود کا عروج عاد سے دو سال بعد ہوا۔ عاد یمن اور احقاب میں آباد تھے ، جب کہ ثمود وادی القریٰ اور تبوک وغیرہ کے علاقے میں آباد تھے قوم عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) آئے جو انہیں کی قوم کے فرد تھے۔ اور قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے۔ اور یہ بعد میں آئے مگر یہاں سز ا کے ذکر میں قوم ثمود کو پہلے لایا گیا۔ اور قوم عاد کو بعد میں اس کے بعد فرعون اور الٹی بستی والوں کا ذکر ہے اور پھر قوم نوح کا حالانکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پہلے غرق ہوئی ، پھر عاد تباہ ہوئے اور پھر ثمود کی باری آئی۔ اس کے بعد الٹی بستی والے اور قوم شعیب کا نمبرآتا ہے اور اسب سے آخر میں فرعون کی ہلاکت ہے ۔ شاہ عبد العزیز (رح) فرماتے ہیں کہ ہلاکت کے بیان میں تقدیم و تاخیر میں ایک لطیف نکتہ پہناں ہے فرماتے ہیں کہ یہاں پر تاریخی ترتیب کو لمحوظ نہیں رکھا گیا بلکہ بیان میں سزا کی نوعیت کا خیال رکھا گیا ہے یعنی پہلے اس قوم کا ذکر کیا گیا جسے جلدی ہلاک کردیا گیا۔ قوم ثمود پر ایک چیخ آئی۔ ایک زلزلہ آیا اور وہ بتاہ ہوگئی۔ مگر قوم عاد کے متعلق فرمایا انہیں تندہوا کے ساتھ ہلاک کیا گیا ان پر تند ہوا ملسط کردی گئی جو سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی۔ آٹھ دن تک انہوں نے تکلیف اٹھائی اور پھر آخری دن بالکل ہی ہلاک کردیے گئے۔ تو گویا نوعیت کے اعتبار سے یہ سزا لمبی تھی جب کہ قوم ثمود کو یکدم ختم کردیا گیا۔ مزید برآں سزا کی نوعیت کے لحاظ سے قوم ثمود کو ایک چیز سے ہلاک کیا گیا۔ چیخ ہوا کہ کیفیت ہے ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک چیخ ماری جگر پھٹ گئے۔ ہارٹ فیل ہوگئے۔ اور ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ یہ ہوا کی کیفیت ہے۔ برخاف اس سے قوم عاد ہو ا کے جسم سے ہلاک ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو مسلط کیا اس نے اکھاڑ پچھاڑ کیا۔ آدمیوں کو ادھر ادھر گرایا۔ ان کو آپس میں ٹکرایا اور آخر میں ان کو بالکل ہی ہلاک کردیا ۔ ہواسات دن مسلسل چلتی رہی اور آٹھویں دن ان کا کام تمام کردیا۔ تو گویا یہ ہلاکت ہوا کے جسم کے ذریعے ہوئی۔ فرعون اور قوم لوط کی ہلاکت : فرعون کی ہلاکت کے اسباب میں پانی ہے ، دریا ہے ، ساتھ مٹی ہے۔ گویا اس سزا میں کئی چیزیں شامل ہیں ، یہی حال قوم لوط کا ہے۔ وہاں ہوا بھی ہے ، طوفان بھی ہے ، پانی کی موجیں اٹھ رہی ہیں۔ بارش برس رہی ہے مٹی اور آگ بھی ہے۔ پتھر بھی ہیں۔ یہ ساری چیزیں سزا میں شریک ہیں۔ سزا نیچے سے بھی مل رہی ہے۔ اوپر سے بھی نازل ہورہی ہے۔ لہذا قرآن پاک نے اس مقام پر اقوام عالم کی ہلاکت کو تاریخی اعتبار سے نہیں بلکہ سزا کی نوعیت کے لحاظ سے تقدیم و تاخیر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ قوم عاد کا حال : بہرحال قوم عاد کی سزا کی نوعیت یہ بھی تھی کہ ان پر تندہوا سات رات اور آٹھ دن تک مسلسل مسلط رہی تم لوگوں کو اس کے اندر پچھاڑے ہوئے دیکھو گے۔ جیسا کہ کجھور کے تنے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیے گئے ہون۔ یہ لوگ بڑے جسم اور قدآور تھے۔ اس لیے انہیں کجھور کے تنوں سے تشبیہ دی گئی۔ یہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں ، مینار اور حوض بناتے تھے۔ بڑے طاقتور تھے اور اپنے جیسا طاقتور کسی دوسرے کو نہیں مانتے تھے۔ کہتے تھے ہم سے زیادہ کون طاقتور ہے۔ انہوں نے خدا کو بھی فراموش کردیا۔ اس قوم میں تین جرائم خاص طور پر پائے جاتے تھے۔ ایک کفر و شرک دوسرا ظلم اور تیسرا تکبر۔ قوم ثمود کا حال : قریب قریب یہی حال قوم ثمود کا تھا۔ بڑے کاریگر ، صناع اور انجنئیر تھے۔ ان کے سترہ سو شہر اور بستیاں آباد تھیں۔ تبوک سے لے کر وادی القری تک زرخیز زمین ، گھنے باغات اور عالیشان عمارت تھیں۔ آج ان کے کھنڈرات دیکھ کر ہی آدمی حیران ہوجاتے ہیں۔ تبوک میں پہاڑوں کے اندر ان کے مکانات کے کھنڈرات اب بھی موجود ہیں ۔ کما درجے کی عمارت اور دلکش نقش ونگار بناتے تھے۔ کما ل درجے کے کاریگر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة عنکبوت میں ارشاد فرمایا کہ دنیا کے اعتبار سے یہ لوگ بڑی سوجھ بوجھ رکھتے تھے مگر دین کے معاملے میں بالکل نادان اور بڑے بیوقوف تھے۔ دنیا کی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقوام : آج کی دنیا کی ترقی یافتہ اقوام بڑی سوجھ بوجھ کی مالک ہیں ، سائنس ، ٹیکنالوجی ، صنعت و حرفت اور اقتصاد بات کے مالک ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں۔ برخلاف اس کے مشرقی ممالک پس ماندہ ہیں ، غیر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ہیں یعنی ابھی ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رح) کی زبان میں ترقی یافتہ اقوام میں عقل معاش کامل ہے۔ مگر عقل معاد بالکل نہیں۔ یہ لوگ عقل معاد سے بالکل خالی ہیں۔ انہیں عقل معاش مفید نہیں ہوگا۔ جونہی یہ معاش ختم ہوا ، یہ بھی ختم ہوگئے۔ آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ الغرض قوم عاد کے متعلق فرمایا کہ انہیں ایسا پچھاڑ کے رکھ دیا کہ ان کافروں میں سے کسی ایک فرد کو بھی باقی نہیں چھوڑا۔ یہ لوگ ہود (علیہ السلام) کی نبوت اور قیامت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک کو بھی زندہ نہیں رہنے دیا گیا۔ فرعون اور الٹی بستیوں والے : پھر فرعون کی باری آئی اور اس سے پہلے الٹی بستیوں والے جن کو بستیوں کو الٹ دیا گیا تھا۔ ان پر پتھر برسائے گئے اور آگ برسائی گئی ان کے کام ہی الٹے تھے ان لوگوں نے گناہ کئے تھے ، جرائم کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے اپنے رب کے رسولوں کی نافرمانی کی۔ رسول اللہ وحد لاشریک کی عبادت کرو وہ کہتے تھے۔ کیا تیرے جیسے بیوقوف آدمی کی وجہ سے ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کو چھوڑدیں۔ رسول کہتا تھا ظلم نہ کرو ، قیامت آنے والی ہے وہ کہتے تھے کوئی قیامت نہیں ہے۔ ڈھکو نسلے مارتے تھے ، بیہودہ باتیں کرتے تھے۔ رسول کے فرمان کو رد کرتے تھے تو اللہ نے پکڑا ان کو بڑی چڑھی ہوئی گرفت کے ساتھ رابیہ کا معنی چڑھی ہوئی گرف جس سیلاب اوپر چڑھتا ہے۔ یہ ابتلا نہیں تھی بلکہ سزا تھی۔ اس میں گرفتار ہو کر تباہ و برباد ہوگئے اکڑ اور تکبر سارا ختم ہوگیا۔ طوفان نوح : اس کے بعد طوفان نوح کا ذکر فرمایا ۔ جب پانی میں طغیانی آگئی ، پانی چڑھ آیا تو اے موجودہ زمانے کے لوگو ! ہم نے تمہیں چلنے والی کشتی میں لاددیا۔ یہ نوح (علیہ السلام) کا زمانہ تھا۔ آج اس دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے ابائو اجداد نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں سوار نہ ہوئے ہوں ، وہی بچے تھے جو کشتی میں سوار ہوگئے۔ باقی سارے ا س طوفان کی نذر ہوگئے۔ تو گویا ہمارے ابائو اجداد کا کشتی نوح میں سوار ہونا ہماری ہی سوار ہونا ہے اور پھر انہیں میں سے اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کو آگے چلایا۔ حاصل کلام : یہ تمام چیزیں اللہ کی گرفت تھیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے حاقے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بڑا حاقہ یعنی قیامت ضرور واقع ہو کر رہے گا۔ اس میں قیامت صغری ٰ اور قیامت کبریٰ کا مفہوم بھی آگیا۔ جو آدمی مر گیا ا س کی قیامت تو برپا ہوگئی۔ وہ تو عالم برزخ کی جزا و سزا میں مبتلا ہوگیا۔ اسی طرح بڑی قیامت تمام عالم پر یکبارگی آئے گی۔ جس طرح یہ قیامت صغریٰ برحق ہے۔ اسی طرح قیامت کبریٰ بھی برحق ہے ، ضرور برپا ہوگیا۔ یہ ان قوموں کی قیامت تھی جن کا حل ذکر کیا گیا ہے۔ بڑے بڑے مکانوں میں متمکن تھے قوم ثمود کی بڑی بڑی سترہ سولبتیاں تھیں اور ان کی بلڈنگوں کے نشانات آج بھی موجود ہیں اسی طرح غمدان قوم عاد کا مکان چالیس منزملہ تھا ، ہر منزل سے دوری تک چالیس گز کا فاصلہ تھا۔ اس کے کھنڈرات حضور ﷺ کے زمانے تک موجود تھے۔ قوم عاد کی یہ یاد گاریں پانچ ہزار سالہ پرانی تھیں اور ان کی صنعت وحرفت اور کاریگیر کی زندہ مثال تھیں۔ اہرام مصر بنانے والوں کو طاقت کا اندزاہ لگائیں ایک ایک پتھر پچھتر پچھتر من وزنی ایک دوسرے کے اوپر چڑھایا گیا تھا۔ یہ ہر م چار سو فٹ اونچا ہے۔ ان کا اوپر چڑھانا اور آپس میں جوڑنا کتنی اعلیٰ صنعت تھی۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ا س کشتی کو تمہارے لیے یاد گار بنادیا۔ کہ جو لوگ اس کشتی میں سوار ہوئے وہ بچ گئے اور انہیں کی نسل سے آئندہ دنیا کو قائم کیا اس واقعہ کو یاد رکھنے والے کان یاد رکھیں کہ دیکھو جب خدا کی سزا آتی ہے تو لوگ کس طریقے سے ہلاک ہوتے ہیں۔ تباہ و برباد ہوتے ہیں۔ اور صرف وہی بچتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بچانا چاہیں۔ یہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاق بیان کئے اور اس کے بعد بڑے حاقے یعنی قیامت کا ذکر فریاما۔
Top