Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 61
وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَعِلْمٌ : البتہ ایک علامت ہے لِّلسَّاعَةِ : قیامت کی فَلَا تَمْتَرُنَّ : تو نہ تم شک کرنا بِهَا : ساتھ اس کے وَاتَّبِعُوْنِ : اور پیروی کرو میری ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ : یہ ہے سیدھا راستہ
اور وہ قیامت کی نشانی ہیں تو (کہہ دو کہ لوگو ! ) اس میں شک نہ کرو اور میرے پیچھے چلو یہی سیدھا راستہ ہے
وانہ لعلم للساعۃ فلاتمترن بھا حضرت حسن بصری، قتادہ اور سعید بن جبیر نے کہا، اس سے مراد قرآن ہے کیونکہ یہ قیامت کے قریب ہونے پر دلالت ہے یا اس کے ذریعے قیامت، اس کی ہولناکیوں اور احوال کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے (3) حضرت ابن عباس، مجاہد، ضحاک، سدی اور قتادہ نے یہی کہا ہے اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ظاہر ہونا ہے یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے وقوع سے تھوڑا پہلے انہیں آسمان سے نازل فرمائے گا جس طرح دجال کا ظاہر ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ، قتادہ، مالک بن دینار اور ضحاک نے اسے وانہ لعلم الساعۃ عین اور لام کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے جس کا معنی نشانی ہے۔ عکرمہ سے دو لاموں کے ساتھ للعلم مروی ہے۔ یہ مصاحف کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے : جس رات رسول اللہ ﷺ کو معراج کرائی گئی تو آپ حضرت ابراہیم اور حضرت عیسیٰ السلام سے ملے تو سب نے قیامت کا ذکر کیا انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے گفتگو کو شروع کیا اور انہوں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اس بارے میں کوئی علم نہ تھا پھر انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا تو ان کے پاس بھی کوئی علم نہ تھا تو گفتگو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹائی گئی تو انہوں نے کہا : مجھ سے وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ وجبہ کے بعد ہے جہاں تک وجبہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا اسے کوئی نہیں جانتا اور دجال کے ظاہر ہونے کا ذکر کیا کہا، میں اتروں گا اور اسے قتل کردوں گا اور حدیث کا ذکر کیا (1) اسے ابن ماجہ نے اپنی میں نقل کیا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے : اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح بن مریم کو مبعوث کرے گا دمشق کے مشرق میں سفید مینارہ کے پسا اتریں گے وہ حلہ زیب تن کئے ہونگے اپنے ہاتھ دو فرشتوں کے سروں پر رکھے ہونگے جب اپنا سر نیچے جھکائیں گے تو اس سے پانی کیق طرے گریں گے اور جب سر اوپر اٹھائیں گے تو اس سے موتی گریں گے جو لو لو کی طرح ہونگے کافر کے لئے حلال نہیں ہوگا کہ وہ آپ کے سانس کی ہوا پائے مگر جو پائے ہوگا وہ مر جائے گا اس کی سانس وہاں تک پہنچے گی جہاں تک نظر پہنچے گی آپ دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ آپ اسے لد کے دروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کردیں گے۔ (2) ثعلبی، زمحشری اور دوسرے مفسرین نے حضرت ابوہریرہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ارض مقدس کے ایک ٹلہ پر آسمان سے اتریں گے جس ٹیلہ کو افیق کہتے ہیں دو پکڑے زیب تن کئے ہونگے جو ہلکے سے زرد ہونگے ان کے سر کے بالوں کو تیل لگا ہوگا، ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا نیزہ ہوگا امام ان کی امامت کروا رہا ہوگا امام پیھچے ہٹے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اسے آگے کریں گے اور اسی امام کے پیچھے حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے مطاق نماز پڑھیں گے پھر آپ خنزیروں کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، کنیسوں اور گرجوں کو برباد کردیں گے، نصاری کو قتل کریں گے مگر جو ایمان لے آیا۔ “ (3) خلاد نے حضرت حسن بصری سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” انبیاء علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں (شریعتیں) مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا سب سے قریبی ہوں اس کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں وہ سب سے پہلے آسمان سے اتریں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور اسلام کے حق میں لوگوں سے جنگ کریں گے۔ “ (4) ماوردی نے کہا، ابن عیسیٰ نے ایک قوم سے یہ بیان کیا انہوں نے کہا، جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اتریں گے تو لوگوں کو مکلف بنانے کا معاملہ اٹھا لیا جائے گا تاکہ وہ اس زمانہ کی طرف رسول نہ ہوں جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دیں اور انہیں روکیں۔ یہ قول تین وجوہ سے مردود ہے، ان میں سے ایک حدیث بھی ہے، دوسری وجہ یہ ہے دنیا کی بقا امور کا مکلف ہونے کا تقاضا کرتی ہے، تیسری وجہ یہ ہے کہ معروف کا حکم دینے والے اور منکر سے روکنے والے کی حیثیت میں اتریں گے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ان کے لئے امر صرف اسلام کی تائید اسلام کا حکم دینے اور اس کی طرف دعوت دینے تک محدود ہو۔ میں کہتا ہوں : صحیح مسلم اور ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم عادل حاکم کی حیثیت سے اتریں گے وہ صلیب کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائیگا اس پر تیز رفتاری سے سفر نہیں کیا جائیگا دشمنی، باہمی بغض اور حسد ختم ہوجائے گا ایک آدمی مال لینے کو دعوت دے گا۔ تو اسے کوئی قبول نہیں کرے گا (1) “ ان سے یہ روایت بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تمہارا کیا حال ہوگا جب حضرت ابن مریم اتریں گے اور تمہارا امام تم سے ہوگا “ ایک روایت میں ہے ” تمہاری امامت تم میں سے ایک آدمی کرے گا (2) “ ابن ابی ذئب نے کہا : تو جانتا ہے امکم منکم سے کیا مراد ہے ؟ میں نے کہا : تو مجھے بتائے گا۔ کہا :” وہ تمہاری امامت تمہارے رب کی کتاب اور تمہارے نبی کی سنت کے مطابق کرائے گا “ ہمارے علماء نے کہا : یہ روایت اس امر میں نص ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے دین کے مجدد کے طور پر اتریں گے جو دین انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سیکھا ہوگا وہ کسی نئی شرع کے ساتھ نہیں اتریں گے جبکہ احکام کے مکلف ہونے کا سلسلہ باقی ہوگا جس طرح ہم نے یہاں اور کتاب ” التذکرہ “ میں ذکر کردیا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مردوں کو زندہ کرنا قیامت اور مردوں کو دوبارہ اٹھانے پر دلیل ہے : یہ ابن اسحاق نے کہا :۔ میں کہتا ہوں : یہ احتمال موجود ہے کہ معنی ہو کہ حضرت محمد ﷺ قیامت کی نشانی ہوں اس کی دلیل حضور ﷺ کا ارشاد ہے :” میں اور قیامت یوں معبوث کئے گئے ہیں (3) “ اور آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملایا اور اسے امام بخاری اور امام مسلم نے نقل کیا ہے حضرت حسن بصری نے کہا : قیامت کی نشانیوں میں سے پہلی نشانی حضرت محمد ﷺ ہیں (4) قیامت میں شک نہ کرو، یہ یحییٰ بن سلام کا قول ہے۔ سدی نے کہا : تم اس کو نہ جھٹلائو اور تم اس میں جھگڑا نہ کرو کیونہ یہ لازماً ہو کر رہنے والی ہے (5) تم توحید کے عقیدہ میں میری اتباع کرو اور جو میں تمہیں تبلیغ کرتا ہوں اس میں میری اتباع کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب جانے والا سیدھا راستہ ہے یعنی اس کی جنت کی طرف جانے والا سیدھا راستہ ہے۔ یعقوب نے واتبعون میں دونوں حالتوں میں یاء کو قائم کر رکھا ہے اسی طرح اطیعون میں قائم رکھا ہے۔ ابو عمرو اور اسماعیل نے نافع سے یہ قول نقل کیا ہے کہ وصل میں قائم رکھا اور وقف میں حذف کردیا باقی قراء نے دونوں حالتوں میں حذف کیا ہے۔
Top