Al-Qurtubi - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
مومنو ! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو۔ اور سر کا مسح کرلیا کرو۔ اور ٹخنوں تک پاؤں (دھولیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہاکر) پاک ہوجایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو، اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مِٹّی لو اور اس منہ اور ہاتھو کا مسح (یعنی تیمم) کرلو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنی چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے۔ تاکہ تم شکر کرو۔
آیت نمبر : 6۔ اس آیت میں بتیس مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر : (1) قشیری اور ابن عطیہ نے ذکر کیا ہے کہ یہ آیت حضرت عائشہ ؓ کے واقعہ میں نازل ہوئی جب غزوہ المریسیع میں آپ کا ہار گم ہوگیا تھا یہ آیت وضو ہے ابن عطیہ (رح) نے کہا : لیکن اس حیثیت سے کہ وضو ان کے نزدیک ثابت تھا اور مستعمل تھا تو اس آیت نے اس میں ان کے لیے کچھ زیادتی نہ کی مگر اس کی تلاوت انہیں تیمم میں رخصت کا فائدہ دیا (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 160 دارالکتب العلمیہ) ہم نے سورة النساء کی آیت میں اس کے خلاف ذکر کیا۔ واللہ اعلم۔ اس آیت کا مضمون داخل ہے جو عہد کی وفا اور احکام شرع کی تابعدار کا حکم دیا گیا ہے اور جو اس میں نعمت کو مکمل کرنے کا ذکر کیا گیا ہے یہ رخصت نعمت کی تکمیل سے ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) (آیت) ” اذا قمتم الی الصلوۃ “۔ کے مراد میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، ایک جماعت نے کہا : یہ لفظ نماز کے ہر قیام کو شامل ہے خواہ وہ قائم پاک ہو یا محدث ہو، پس اس کے لیے مناسب ہے کہ جب نماز کے قیام کے لیے کھڑا ہو تو وضو کرے حضرت علی ؓ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے اور یہ آیت تلاوت کرتے تھے، ابو محمد دارمی نے اپنی مسند میں یہ ذکر کیا ہے، اس کی مثل عکرمہ نے روایت کیا ہے، ابن سیرین نے کہا : خلفاء ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔ میں کہتا ہوں : یہ آیت محکمۃ ہے اس میں نسخ نہیں ہے، ایک طائفہ نے کہا : یہ خطاب نہیں کریم ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ حضرت عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر ؓ نے کہا : نبی مکرم ﷺ کو ہر نماز کے وقت وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا، پس آپ پر یہ شاق گزرا تو آپ کو مسوال کا حکم دیا گیا وضو کا حکم اٹھالیا گیا مگر حدث کی صورت میں، حضرت علقمہ بن فغواء نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے وہ صحابہ میں سے تھے اور یہ تبوک کی طرف دلیل (راہنما) تھے یہ آیت رسول اللہ ﷺ کی رخصت کے لیے نازل ہوئی کیونکہ آپ کوئی عمل نہیں کرتے تھے مگر باوضو ہو کر، نہ کسی سے بغیر وضو کے کلام کرتے تھے نہ کسی کو بغیر وضو کے سلام کا جواب دیتے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے آگاہ فرمایا کہ وضو صرف نماز کے قیام کے لیے ہے دوسرے اعمال کے لیے وضو نہیں ہے۔ ایک جماعت نے کہا : اس آیت سے مراد فضیلت طلب کرنے کے لیے ہر نماز کے لیے وضو ہے، نبی مکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے حتی کہ فتح مکہ کے روز ایک وضو کے ساتھ پانچوں نمازوں کو جمع کیا تاکہ امت کے لیے مسئلہ بیان ہوجائے کہ ایک وضو کے ساتھ کئی نمازیں پڑھنا جائز ہے۔ میں کہتا ہوں : اس قول کا ظاہر یہ ہے کہ نسخ کے ورود سے پہلے ہر نماز کے لیے وضو مستحب تھا واجب نہ تھا حالانکہ مسئلہ ایسا نہیں ہے جب کوئی امر وارد ہوتا ہے تو اس کا مقتضا وجوب ہوتا ہے۔ خصوصا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک جیسا کہ ان کی سیرت سے معروف ہے، دوسرے علماء نے کہا : پہلے ہر نماز کے لیے وضو فرض تھا پھر فتح مکہ کے موقع پر منسوخ ہوگیا، یہ حضرت انس ؓ کی حدیث کی وجہ سے انہوں نے فرمایا : نبی مکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے اور آپ ﷺ کی امت کا حکم اس سے مختلف تھا، یہ حدیث آگے آئے گی، اور حضرت سوید بن نعمان ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبہاء کے مقام پر ایک وضو کے ساتھ عصر اور مغرب کی نماز پڑھیں، اور یہ عزوہ خبیر میں تھا اور یہ 6 ھجری تھا، بعض نے کہا : سات ہجری تھا اور فتح مکہ آٹھ ہجری میں تھا، یہ حدیث صحیح ہے جسے امام مالک نے مؤطا میں روایت کیا تھا، اس کو بخاری اور مسلم نے بھی تخریج کیا ہے، اس دونوں حدیثوں سے ظاہر ہوگیا کہ فتح مکہ سے پہلے ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے جب فتح مکہ کا دن تھا تو آپ نے ایک وضو کے ساتھ (پانچ) نمازیں پڑھیں اور خفین پر مسح کیا، حضرت عمر نے کہا ! آج آپ نے ایسا کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اے عمر ! یہ میں نے جان بوجھ کر کیا ہے (1) (صحیح مسلم کتاب الطہارات، جلد 1، صفحہ 135) حضرت عمر ؓ نے یہ سوال کیوں کیا تھا اور یہ استفار کیوں تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے یہ سوال اس لیے کیا کہ خیبر کی نماز سے لے کر آج تک جو نماز پڑھتے تھے اس کی عادۃ مخالفت تھی، ترمذی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے خواہ آپ طاہر ہوتے یا غیر طاہر ہوتے، حمید نے کہا : میں نے حضرت انس ؓ سے پوچھا تم کیسے کرتے تھے ؟ حضرت انس نے کہا : ہم ایک وضو کرتے تھے (1) (جامع ترمذی کتاب الطھارات جلد 1 صفحہ 10) ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : ” وضو پر وضو نور ہے۔ (2) (اتحاف السادۃ المتقین، اسرار الطھارۃ جلد 2 صفحہ 595) نبی مکرم ﷺ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے۔ ایک شخص نے آپ پر سلام کیا جب کہ آپ پیشاب کر رہے تھے آپ نے اسے جواب نہ دیا حتی کہ تیمم کیا پھر سلام کا جواب دیا اور فرمایا ” میں ناپسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کا ذکر کروں مگر طہارت پر “۔ اس حدیث کو دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ سدی اور زید بن اسلم نے کہا : (آیت) ” اذا قمتم الی الصلوۃ “ کا معنی یہ ہے کہ جب تم بستروں سے اٹھ کر نماز کا ارادہ کرو، اس تاویل سے مقصود تمام احداث کو شامل کرنا ہے خصوصا نیند جس کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ فی نفسہ حدث ہے یا نہیں، اس تاویل پر آیت میں تقدیم وتاخیر ہے، تقدیر عبارت اس طرح ہے، یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ من النوم او جاء احد منکم من الغائط اولا مستم النساء فاغسلوا۔ اے ایمان والو جب تم نیند سے نماز کی طرف کھڑے ہو یا تم میں سے کوئی پائخانہ سے آئے یا عورتوں کو چھوئے، تو غسل کرو، محدث جسے حدث اصغر لاحق ہوتا ہے اس کے احکام مکمل ہوئے پھر فرمایا : (آیت) ” وان کنتم جنبا فاطھروا “۔ یہ ایک دوسرا حکم ہے پھر دونوں نوعوں کے لیے اکٹھا فرمایا (آیت) ” وان کنتم مرضی او علی سفر او جآء احد منکم من الغآئط اولمستم النساء فلم تجدوا مآء فتیمموا صعیدا طیبا “۔ یہ تاویل محمد بن مسلمہ نے کی ہے جو امام مالک (رح) کے ساتھیوں میں سے ہیں، اور جمہور علماء نے فرمایا : آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم نماز کی طرف کھڑے ہو جب کہ تم حدث کی حالت میں ہو، آیت میں اس بنا پر تقدیم وتاخیر نہیں ہے بلکہ آیت میں پانی پانے والے پر حکم مرتب ہوا ہے (آیت) ” فاطھروا “۔ کے قول تک ملامست صغری محدثین (حدث والے) میں داخل ہے پھر (آیت) ” وان کنتم جنبا فاطھروا “۔ کے قول کے بعد دونوں قسموں میں سے پانی نہ پانے والے کا حکم ذکر کیا، ملامست سے مراد جماع ہے ایسا جنبی جو پانی کو نہ پانے والا ہو جس طرح اس کا ذکر ضروری ہے اسی طرح پانی پانے والے کا ذکر بھی ضروری ہے، یہ تاویل امام شافعی وغیرہ کی ہے اس کے مطابق صحابہ کے اقوال ہیں جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ وغیرہم (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 160 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : یہ دونوں تاویلیں ان تمام تاویلات سے بہتر ہیں جو اس آیت کے متعلق کی گئی ہیں، واللہ اعلم۔ (آیت) ” اذا قمتم “ کا معنی ہے جب تم ارادہ کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فاذا قرات القران فاستعذ “۔ (النحل : 98) یعنی جب تم ارادہ کرے، کیونکہ نماز کی طرف قیام کی حالت میں وضو کرنا ممکن نہیں۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاغسلوا وجوھکم “۔ اللہ تعالیٰ نے چار اعضاء کا ذکر فرمایا : چہرہ اس کا فرض دھونا ہے اور اسی طرح دونوں ہاتھوں کا حکم ہے، سر، اس کا فرض مسح ہے، اس پر اتفاق ہے، پاؤں کے بارے اختلاف ہے جیسا کہ آگے آئے گا، اس کے علاوہ کچھ ذکر نہیں کیا۔ یہ دلیل ہے کہ اس کے علاوہ سب آداب اور سنن ہیں، واللہ اعلم۔ چہرے کے دھونے میں چہرے کی طرف پانی کا نقل کرنا ضروری ہے اور چہرے پر ہاتھوں کا گزارنا ضروری ہے ہمارے نزدیک یہی غسل کی حقیقت ہے۔ ہم نے سورة النساء میں اس کو بیان کیا ہے، ہمارے علاوہ دوسرے علماء نے کہا : اس پر پانی کا بہانا واجب ہے اور ہاتھ سے ملنا واجب نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جب کوئی شخص پانی میں غوطہ لگائے چہرہ اور ہاتھ ڈوب جائیں اور وہ اسے ملے نہیں، تو کہا جائے گا ؛ اس نے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا، معلوم ہے کہ اسم کے حصول کے علاوہ کا اس میں اعتبار نہیں، جب وہ حاصل ہوجائے تو کافی ہوتا ہے۔ لغت میں الوجہ، المواجھۃ سے ماخوذ ہے یہ ایک عضو ہے جو کئی اعضاء پر مشتمل ہے اس کا طول اور عرض ہے طول میں اس کی حد پیشانی کی سطح کی ابتدا سے جبڑوں کی انتہا تک ہے اور عرضا ایک کان سے دوسرے کان تک ہے، یہ تو امرد (بےریش) کے لیے ہے، رہا داڑھی والا جب اس کی ٹھوڑی پر بال ہوں تو وہ یا تو خفیف ہوں گے یا کثیف ہوں گے اگر داڑھی خفیف ہو جس سے جلد ظاہر ہوتی ہو تو جلد تک پانی پہنچانا واجب ہے اور اگر داڑھی گھنی ہو تو فرض اس کی طرف منتقل ہوگا جیسے سر کے بال ہیں پھر وہ بال جو ٹھوڑی سے زائد ہیں اور داڑھی سے لٹکے ہوئے ہیں، سمنون نے ابن القاسم سے روایت کیا کہ میں نے امام مالک سے نا ان سے پوچھا گیا : کیا آپ نے کسی اہل علم سے سنا ہے کہ داڑھی چہرے سے ہے اس پر پانی گزارنا چاہیے ؟ امام مالک (رح) نے کہا : ہاں اور وضو میں اس کا خلال کرنا لوگوں کے امر سے نہیں ہے اس پر عیب لگایا جس نے ایسا کیا، ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے یہ بھی روایت کیا ہے فرمایا : وضو کرنے والا پانی داڑھی کے ظاہر کو حرکت دے اس میں ہاتھ داخل کیے بغیر، فرمایا : یہ پاؤں کی انگلیوں کی مثل ہے، ابن عبدالحکم نے کہا : داڑھی کا خلال کرنا وضو اور غسل میں واجب ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے داڑھی کا وضو میں خلال کیا۔ اس حدیث کے تمام طرق ضعیف ہیں، ابن خویز منداد نے ذکر کیا ہے کہ علماء کا اتفاق ہے یہ وضو میں داڑھی کا خلال کرنا واجب نہیں ہے مگر ایک روایت سعید بن جبیر سے مروی ہے ان کا قول ہے : کیا وجہ ہے کہ داڑھی اگنے سے پہلے داڑھی کو دھوتا ہے اور جب داڑھی اگ آتی ہے تو اسے نہیں دھوتا ؟ کیا وجہ ہے کہ مراد اپنی ٹھوڑی کو دھوتا ہے اور داڑھی والا نہیں دھوتا ؟ امام طحاوی نے فرمایا : تیمم واجب ہے اس میں جلد کا مسح کرنا ہے چہرے میں بال اگنے سے پہلے، پھر تمام علماء کے نزدیک داڑھی اگنے کے بعد جلد کا مسح ساقط ہوجاتا ہے، اسی طرح وضو کا حکم ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : جس نے تمام داڑھی کا دھونا واجب قرار دیا ہے اس نے اسے چہرے میں شمار کیا ہے، کیونکہ وجہ، المواجہہ سے ماخوذ ہے اور اللہ تعالیٰ نے مطلقا وجہ (چہرہ) دھونے کا حکم دیا ہے اس سے مرد سے داڑھی والے کو خاص نہیں کیا پس ظاہر قرآن کے مطابق اس کا دھونا واجب ہے، کیونکہ وہ جلد کا بدل ہے۔ میں کہتا ہوں : اس قول کو ابن عربی نے اختیار کیا ہے، انہوں نے کہا : اور میں بھی یہی کہتا ہوں کیونکہ روایت ہے کہ نبی مکرم ﷺ داڑھی مبارک کو دھوتے تھے (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 563) اس کو ترمذی وغیرہ نے تخریج کیا ہے فعل کے ساتھ محتمل متعین ہوگیا، ابن المنذر ؓ نے اسحاق سے روایت کیا ہے کہ جس نے داڑھی کا خلال جان بوجھ کر ترک کیا وہ اعادہ کرے، ترمذی نے حضرت عثمان بن عفان سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ داڑھی مبارک کا خلال کرتے تھے، امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (2) (جامع ترمذی، کتاب الطہارات، جلد 1 صفحہ 6) ابو عمر نے کہا : اور جنہوں نے داڑھی کے لٹکے ہوئے بالوں کا دھونا واجب قرار نہیں دیا ان کا نظریہ یہ ہے کہ اصل جس کا حکم دیا وہ ہے جلد کا دھونا، پس جلد کے اوپر جو طاہر ہے اس کا دھونا بھی واجب ہے اور داڑھی سے جو لٹکے ہوئے بال ہیں اس کے نیچے والے حصہ کا دھونا واجب نہیں ہے، پس داڑھی کا دھونا اس کا بدل ہے، ان کے سامنے رخسار پر جو کان تک بال ہیں ان کے دھونے میں اختلاف ہے، ابن وہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا : جو کان پٹی سے پیچھے جو داڑھی کے بالوں کے پیچھے بال ہیں وہ چہرے سے نہیں ہیں، ابو عمر ؓ نے کہا : میں کسی فقیہ کو نہیں جانتا جس نے ایسا قول کیا ہو جو ابن وہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا : کان اور اس کے مقابل رخسار کے بالوں کے درمیان جو سفیدی ہے وہ چہرے سے ہے اس کا دھونا واجب ہے، اسی طرح امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کا قول ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس سفیدی کا دھونا مستحب ہے، ابن عربی نے کہا : میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس کا دھونا واجب نہیں مگر امرد کے لیے نہ کہ داڑھی والے کے لیے (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 563) میں کہتا ہوں : یہ قاضی عبدالوہاب کا مختار قول ہے اختلاف کا سبب یہ ہے کہ کیا اس پر مواجہۃ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں ؟ واللہ اعلم، اس احتمال کے سبب علماء کا اختلاف ہے کی چہرہ دھونے کا امر ناک اور منہ کے اندر کو دھونے کو شامل ہے یا نہیں ؟ امام احمد بن حنبل اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم وغیرہما کا نظریہ یہ ہے کہ وضو اور غسل میں منہ اور ناک کے اندر کا دھونا واجب ہے مگر امام احمد نے کہا : جو وضو میں ناک میں پانی ڈالنے کو ترک کردے وہ اعادہ کرے اور جس نے کلی کو ترک کیا وہ اعادہ نہ کرے، عامۃ الفقہاء کا نظریہ یہ ہے۔ کہ وضو اور غسل میں یہ دونوں سنت ہیں، کیونکہ دھونے کا حکم ظاہر کو شامل ہے باطن کو شامل نہیں اور عرب وجہ اس کو کہتے ہیں جو سامنے ہو پھر اللہ تعالیٰ نے ناک میں پانی ڈالنے اور کلی کرنے کو اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا اور نہ مسلمانوں سے ان کو واجب کہا ہے اور اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے اور فرائض صرف ان صورتوں میں ثابت ہوتے ہیں، یہ معنی سورة النساء میں گزر چکا ہے۔ اور رہی آنکھیں تو ان پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ آنکھوں کے اندر کا حصہ کا دھونا لازم نہیں مگر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں میں پانی چھڑکتے تھے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 161 دارالکتب العلمیہ) ان کا دھونا ساقط ہے تکلیف کی وجہ سے اور حرج کی وجہ سے (3) (احکام القرآن لابن لاعربی جلد 2، صفحہ 563) ابن عربی (رح) نے کہا : اسی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب نابینا ہوگئے تھے تو وہ اپنی آنکھوں کو دھوتے تھے، کیونکہ اس سے ان کو تکلیف نہیں ہوتی تھی، جب چہرہ کے حکم سے یہ ثابت ہوگیا تو سر میں سے کچھ حصہ بھی چہرہ کے ساتھ دھونا ضروری ہے جس طرح سر کے عموم کے وجوب کے قول پر چہرے میں سے سر کے ساتھ کسی جز کا مسح کرنے سے مقدر نہیں ہوتا، اصول فقہ میں سے ایک اصل پر مبنی ہے وہ یہ کہ جس چیز کو بغیر واجب مکمل نہ ہوتا ہو اس کا حکم بھی واجب ہوتا ہے واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (4) جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ وضو میں نیت کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ” انما الاعمال بالنیات “۔ (4) (صحیح بخاری (کتاب الایمان، جلد 1 صفحہ 2) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، امام بخاری (رح) نے فرمایا : اس میں ایمان، وضو، نماز، زکوۃ حج، روزہ اور احکام داخل ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمای : (آیت) ” قل کل علی شاکلتہ “۔ (بنی اسرائیل : 84) یعنی ہر شخص اپنی نیت پر عمل کرتا ہے نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” لیکن جہاد اور نیت باقی ہے “ (5) (صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر، حدیث نمبر 2575، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ، اکثر شوافع نے فرمایا : نیت کی ضرورت نہیں۔ یہ احناف کا قول ہے انہوں نے کہا : نیت واجب نہیں ہے مگر ان فروض میں جو مقصود بالذات ہیں اور غیر کا سبب نہیں، پس رہی وہ چیزیں جو کسی دوسرے فعل کی صحت کے لیے شرط ہیں پس وہ امر کے دو ود سے واجب نہیں مگر اس دلالت سے جو اس سے متصل ہے، طہارت شرط ہے، کیونکہ جس پر نماز فرض نہیں اس پر طہارت کا فرض بھی واجب نہیں جیسے حیض اور نفاس والی عورتیں، ہمارے علماء اور بعض شوافع نے اس ارشاد : (آیت) ” اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم “۔ سے دلیل پکڑی ہے پس جب غسل کا فعل واجب ہوا تو نیت فعل کی صحت میں شرط تھی، کیونکہ اللہ کی طرف سے فرض تھا پس جس کا اللہ نے حکم دیا ہے، اس فعل کا واجب ہونا مناسب ہے، جب ہم کہتے ہیں : اس پر نیت واجب نہیں اس پر اس فعل کا قصد واجب نہیں جس کا اللہ نے اسے حکم دیا ہے اور یہ معلوم ہے کہ جو ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرے کسی اور غرض کے لیے غسل کرے اس نے واجب کی ادائیگی کا قصد کیا، حدیث میں صحیح ہے کہ وضو گناہوں کو مٹاتا ہے اگر یہ بغیر نیت کے صحیح ہوتا تو گناہوں کو نہ مٹاتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین “۔ (البینہ : 5) نہیں حکم دیا گیا انہیں مگر یہ کہ عبادت کریں اللہ تعالیٰ کے دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ مسئلہ نمبر : (5) ابن عربی نے کہا : بعض علماء نے کہا : جو شخص غسل کی نیت سے نہر کی طرف نکلا تو یہ نیت اس کے لیے کافی ہوگی اگر راستے میں اس کی نیت جدا ہوگئی، اگر حمام کی طرف نکلا اور راستہ میں اس کی نیت جدا ہوگئی تو اس کی نیت باطل ہوگئی، قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : کم سمجھ مفتیوں نے اس پر یہ قائم کیا کہ نماز کی نیت ہم دو قولوں پر نکالتے ہیں اور انہوں نے اس میں ایک نص ان سے ذکر کی ہے جو ظن اور یقین میں فرق نہیں کرتا اس نے کہا : تکبیر پر نیت کو مقدم کرنا جائز ہے، تعجب ہے اس گروہ پر جس نے مفتی اور مجتہد ہونے کا ارادہ کیا اللہ تعالیٰ نے اسے نہ توفیق دی اور نہ درست سمت لگایا، جان لو اللہ تعالیٰ پر رحم فرمائے، وضو میں نیت کے وجوب میں علماء کا اختلاف ہے، اس میں امام مالک (رح) کا قول مختلف ہے جب یہ اتفاق کے مرتبہ سے گرئی تو بعض مواقع میں اس کی تقدیم کو چھوڑا گیا ہے رہی نماز تو اس میں ائمہ میں سے کسی کا اختلاف نہیں، یہ اصل مقصود ہے پس اصل مقصود متفق علیہ کو فرع تابع مختلف فیہ پر کیسے محمول کیا جائے گا یہ تو انتہائی عبادت ہے اور رہا روزہ شرع نے اس میں حرج کو اٹھادیا ہے جب اس کی ابتدا نیت کی تقدیم سے غفلت کے وقت میں ہو (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2 صفحہ 567) مسئلہ نمبر : (6) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وایدیکم الی المرافق “۔ علماء کا مرافق کے تحدید میں داخل ہونے میں اختلاف ہے ایک قوم نے کہا : مرافق (کہنیاں) داخل ہیں، کیونکہ (الی) کا مابعد جب ماقبل کی جنس سے ہو تو وہ اس میں داخل ہوتا ہے یہ سیبویہ وغیرہ نے کہا : ہے، سورة البقرہ میں واضح طور پر گزر چکا ہے، بعض علماء نے فرمایا : دھونے میں کہنیاں داخل نہیں ہیں۔ دونوں روایتیں امام مالک (رح) سے مروی ہیں، دوسری روایت اشہب کی ہے، پہلی روایت اکثر علماء کا نظریہ ہے اور وہ صحیح ہے کیونکہ دارقطنی نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ جب وضو کرتے تو اپنی کہنیوں پر پانی پھیرتے تھے، بعض علماء نے فرمایا : الی بمعنی مع ہے جیسے عربوں کا قول ہے، الذود الی الذودابل۔ اس میں الی بمعنی مع ہے۔ یہ اس کا محتاج نہیں جیسا کہ ہم نے سورة النساء میں بیان کیا ہے ہاتھ عربوں کے نزدیک انگلیوں سے لے کر کندھے تک ہے، اسی طرح پاؤں انگلیوں سے لے کر ران تک ہے اور کہنی الید (ہاتھ) کے اہم کے تحت داخل ہے اگر مع المرافق کا معنی ہو تو مفید نہیں جب الی فرمایا : کہنی قطعی طور پر غسل میں داخل ہوگئی اور کہنی ناخنوں تک مغسولۃ رہی، یہ کلام صحیح ہے لغت اور معنی اصول پر جاری ہوتی ہے، ابن عربی نے کہا : مسئلہ کو قاضی ابو محمد نے علیحدہ سمجھا ہے کہ انہوں نے کہا : الی المرافق ہاتھوں میں سے متروک کی حد ہے نہ کہ مغسول کے لیے حد سے اسی وجہ سے کہنیاں غسل میں داخل ہیں۔ میں کہتا ہوں : جب ہاتھ اور پاؤں کا اطلاق لغت میں اس پر ہوتا ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، حضرت ابوہریرہ بغلوں تک ہاتھ اور پنڈلیوں تک پاؤں دھوتے تھے، فرماتے ہیں : میں نے اپنے خلیل ﷺ کو یہ کہتے سنا ” مومن کا زیور وہاں تک ہوگا جہاں تک وضو پہنچتا ہے ‘’(1) (صحیح مسلم، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 127) قاضی عیاض (رح) نے کہا : لوگوں کو اس کے خلاف پر اجماع ہے کہ وضو میں اس کی حدود سے تجاوز نہ کرے، کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ” جس نے زیادہ کیا اس نے تعدی اور ظلم کیا “ (2) (سنن ابن ماجہ کتاب الطھارت جلد 1، صفحہ 34، ایضا سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 415، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ دوسرے علماء نے کہا : یہ حضرت ابوہریرہ ؓ کا فعل ان کا مذہب تھا اور وہ اس کے ساتھ مفرد تھے انہوں نے یہ نبی مکرم ﷺ سے حکایت نہیں کیا ہے۔ انہوں نے نبی مکرم ﷺ کے ارشاد انتم الغرالمحجلون “۔ اور تبلغ الحلیۃ سے استنباط کیا ہے جیسا کہ پہلے گزر گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وامسحوا برء وسکم “۔ سورة النساء میں گزر چکا ہے کہ مسح لفظ مشترک ہے، رہا سر اس عضو سے عبارت ہے جس کو لوگ ضرورۃ جانتے ہیں اس میں سے چہرہ ہے جب اللہ تعالیٰ نے وضو میں اس کا ذکر فرمایا اور چہرہ کو غسل کے لیے متعین فرمایا تو باقی حصہ مسح کے لیے بچ گیا اگر غسل کا ذکر نہ ہوتا تو سر اور چہرہ سب کا مسح کرنا لازم ہوتا یعنی سر کے با، آنکھیں، ناک، منہ سب کا مسح لازم ہوتا۔ امام مالک (رح) نے سر کے مسح کے وجوب میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو وضو میں سر کا بعض حصہ ترک کردیتا ہے، امام مالک نے فرمایا : اگر کوئی چہرہ کا بعض حصہ دھونے سے چھوڑ دے تو کیا جائز ہوگا ؟ اسی سے واضح ہوا جو ہم نے ذکر کیا کہ دونوں کان سر سے ہیں اور ان کا حکم، سر کا حکم ہے، زہری کا قول اس کے خلاف ہے انہوں نے کہا : یہ دونوں چہرہ سے ہیں چہرہ کے ساتھ ان کا دھویا جائے گا، امام شعبی کا قول اس کے خلاف ہے اس کے کہا : کانوں کا جو آگے والا حصہ ہے وہ چہرہ سے ہے اور کانوں کا ظاہر سر سے ہے، الراس (سر) کو راس اس کے علو کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور اس میں بالوں کے اگنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ اسی سے راس الجبل (پہاڑ کی چوٹی) ہے ہم نے کہا کہ سر جملہ اعضاء کا نام ہے کیونکہ شاعر کا قول ہے : اذا احتملوا راسی وفی الراس اکثری : وغودر عند الملتقی ثم سائری : مسئلہ نمبر : (8) سر کے مسح کی تقدیر میں علماء کے گیارہ اقوال ہیں، تین اقوال امام ابوحنیفہ (رح) کے ہیں، دو قول امام شافعی (رح) کے ہیں اور چھ اقول ہمارے علماء کے ہیں، ان سے صحیح ایک ہے اور وہ پورے سر کے مسح کو وجود ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے علماء کا اجماع ہے کہ پورے سر کا مسح کرنا بہتر ہے اور جس نے ایسا کیا اس نے وہ کیا جو اس پر لازم تھا، بامؤکدہ زائدہ ہے تبیعض کے لیے نہیں ہے اس کا معنی ہے (آیت) ” وامسحوا رء وسکم “۔ بعض علماء نے فرمایا ؛ اس کا دخول یہاں تیمم میں اس کے دخول کی طرح ہے فرمایا : (آیت) ” وامسحوا بوجوھکم “۔ اگر اس کا معنی تبیعض ہوتا تو اس جگہ بھی تبیعض کا فائدہ دیتی۔ یہ قطعی بات ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : باداخل ہوئی ہے تاکہ بدیع معنی کا فائدہ دے، غسل لغۃ مغسول بہ کا تقاضا کرتا ہے اور مسح لغۃ ممسوح بہ کا تقاضا نہیں کرتا اگر (آیت) ” وامسحوا رء وسکم “۔ ہوتا تو سر پر کسی چیز کے بغیر ہاتھ کو گزارتے ہوئے مسح کرنا جائز ہوتا پس با داخل ہوئی تاکہ ممسوح بہ کا فائدہ دے اور وہ پانی سے گویا فرمایا (آیت) ” وامسحوا رء وسکم “۔ الماء اور یہ لغت دو اعتبار سے فصیح ہے، یہ تو قلب کے اعتبار سے جیسا کہ سیبویہ نے کہا ہے : کنواح ریش حمامۃ نجدیۃ ومسحت باللثتین عصف الاثمد : اثمد کے عصف کے ساتھ ممسوحۃ اللثۃ ہے پھر قلب کیا گیا، یا فعل میں اشتراک کی بنا پر اور اس کی نسبت تساوی کی بنا پر جیسے شاعر کا قول ہے : مثل القنافذ ھدا جون قد بلغت نجران او بلغت سوء اتھم ھجر : یہ ہمارے علماء کی با کے معنی کے بارے گفتگو ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے قول : (آیت) ” وامسحوا رء وسکم “۔ میں بعض سر اور تمام سر کا احتمال ہے اور سنت دلالت کرتی ہے کہ بعض سر کا مسح کافی ہے، نبی مکرم ﷺ نے اپنی پیشانی پر مسح کیا (1) (صحیح مسلم کتاب الطھارت جلد 1 صفحہ 134) دوسری جگہ فرمایا : اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فامسحوا بوجوھکم “۔ تیمم میں کیا بعض چہرہ پر مسح کرنا کافی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تیمم میں چہرے کا مسح غسل کا بدل ہے، پس غسل کی پوری جگہ پر مسح کرنا ضروری ہے، سرکا مسح اصل ہے، یہ ان دونوں کے درمیان فرق ہے، ہمارے علماء نے حدیث کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے شاید یہ کسی عذر کی وجہ سے کیا ہو خصوصا آپ ﷺ نے یہ فعل سفر میں کیا تھا اور یہ اعذار کی جگہ ہے اور جلدی اور اختصار کا مقام ہے اور اکثر فرائض مشقت اور خطرے کی وجہ سے حذف ہوجاتے ہیں، پھر آپ نے پیشانی پر اکتفا نہیں کیا حتی کہ عمامہ پر مسح کیا، مسلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کی حدیث سے نقل کیا ہے (2) (صحیح مسلم کتاب الطھارت جلد 1 صفحہ 134) اگر پورے سر کا مسح واجب نہ ہوتا تو عمامہ پر مسح نہ کرتے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (9) جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پورے سر کا مسح کرنا کافی ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : اپنے سر کا تین مرتبہ مسح کرے، حضرت انس ؓ ، سعید بن جبیر ؓ اور عطا ؓ سے مروی ہے ابن سیرین دو مرتبہ مسح کرتے تھے، ابو داؤد نے کہا : حضرت عثمان ؓ کی تمام احادیث جو صحیح ہیں دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہے۔ انہوں نے تین مرتبہ وضو کا ذکر کیا انہوں نے کہا : سر کا مسح کیا اور عدد کا ذکر نہیں کیا (3) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 15، ایضا صحیح بخاری حدیث نمبر 15، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (10) علماء کا اختلاف ہے کہ مسیح کا آغاز کہاں سے کرے ؟ امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے کہا : سر کے اگلے حصہ سے شروع کرے، پھر اپنے ہاتھوں کو پیچھے کی طرف لے جائے پھر آگے کی طرف لے آئے، یہ حضرت عبداللہ بن زید کی حدیث کے مطابق ہے جس کو مسلم نے تخریج کیا ہے، امام شافعی (رح) اور احمد بن حنبل (رح) نے بھی یہی کہا ہے۔ حسن بن حی (رح) فرماتے تھے : سر کے پیچھے حصہ سے شروع کرے، انہوں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء کی حدیث کی بنا پر یہ کہا ہے، اس حدیث کے الفاظ مختلف ہیں اس کا دارو مدار عبداللہ بن محمد بن عقیل (رح) پر ہے اور محدثین کے نزدیک یہ حافظ نہیں ہے۔ ابوداؤد نے بشر بن مفضل عن عبداللہ عن الربیع کی روایت سے تخریج کیا ہے ابن عجلان نے عنہ عن الربیع کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے پاس وضو کیا اور سارے سر کا مسح کیا بالوں کی چوٹی سے ہر طرف سے آپ ﷺ بالوں کو اپنی ہئیت سے حرکت نہیں دیتے تھے (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 17، ایضا صحیح بخاری کتاب الوضوء حدیث نمبر 179، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ صفت حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے وہ سر کے درمیان سے مسح شروع کرتے تھے اور اس باب میں اصح ترین حدیث حضرت عبداللہ بن زید کی حدیث ہے، اور جو بعض سر کے مسح کو جائز قرار دیتے ہیں وہ آگے والے بعض حصہ کا نظریہ رکھتے ہیں، ابراہیم اور شعبی سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : اپنے سر کی دونوں اطراف میں جس طرف کا بھی مسح کرے جائز ہوگا، حضرت ابن عمر ؓ نے صرف الیافوخ کا مسح کیا اور اجماع منعقد ہے کہ دونوں ہاتھوں کے ساتھ اکٹھا مسح کرنا بہتر ہے اور اجزاء پر مسح جائز ہے اگر ایک ہاتھ سے مسح کرے، اور اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جس نے ایک انگلی سے مسح کیا حتی کہ اس کا نظریہ ہے سر کے کسی حصہ پر مسح جائز ہے۔ یہ سفیان ثوری کا قول ہے سفیان نے کہا : اگر ایک انگلی کے ساتھ سر کا مسح کیا تو جائز ہے بعض نے فرمایا : جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ مسح کی سنت سے خروج ہے گویا وہ کھیلنے والا ہے مگر یہ کہ مرض کی وجہ سے ضرورت ہو، پس مناسب ہے کہ اجزاء میں مختلف نہ ہو امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : تین انگلیوں سے کم انگلیوں کے ساتھ سر کا مسح کرنا جائز نہیں۔ پھر سر کے بالوں پر ہاتھوں کو لوٹانے میں اختلاف ہے کیا یہ فرض ہے یا سنت ہے۔ ؟ اس بات پر اجماع ہونے کے بعد کہ پہلا مسح فرض ہے اور جمہور کے نزدیک یہ سنت ہے بعض علماء نے فرمایا : یہ فرض ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) اگر متوضی مسح کی جگہ سر کو دھودے تو ابن عربی نے کہا : ہم اس میں کوئی اختلاف نہیں جانتے کہ یہ جائز ہے مگر ہمیں امام فخر الاسلام الشاشی نے اپنے درس میں ابوالعباس بن القاص سے روایت کر کے بتایا کہ یہ جائز نہیں ہے، یہ داؤد کے مذہب میں غلو ہے ظاہر کی اتباع کی وجہ سے فاسد ہے اور شریعت کو باطل کرنے والا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے فرمایا (آیت) ” یعملون ظاھرا من الحیوۃ (الروم : 7) اور فرمایا : ام بظاھر من القول : (الرعد : 33) حالانکہ یہ غسل کرنے والا وہ بھی کرنے والا ہے جس کا اسے حکم دیا گیا تھا اور زیادتی بھی اس نے کی، اگر کہا جائے کہ یہ زیادتی اس لفظ سے خارج ہے جس کا مکلف کیا گیا تھا، ہم کہیں گے : فعل کو محل تک پہنچانے کے معنی سے خارج نہیں، اسی طرح اگر سر کا مسح کیا پھر حلق کرا لیا تو اس پر مسح کا اعادہ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (12) دونوں کان امام مالک (رح)، امام احمد، ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم کے نزدیک سر سے ہیں پھر نئے پانی سے ان کے مسح میں اختلاف ہے، امام مالک، اور احمد (رح) نے کہا : نئے پانی کے ساتھ کانوں کا مسح کرے، اس پانی کے سوا جس کے ساتھ سر کا مسح کیا تھا۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا تھا : اسی طرح امام شافعی (رح) نے نئے پانی کا کہا ہے انہوں نے فرمایا : ان کا مسح کرنا سنت ہے نہ یہ چہرہ سے ہیں اور نہ سر سے ہیں۔ کیونکہ علماء کا اتفاق ہے کہ کانوں پر جو بال ہیں حج میں ان کا حلق نہیں ہے۔ ابو ثور (رح) کا قول اس مسئلہ میں امام شافعی (رح) کے قول کی طرح ہے، ثوری (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : سر کے ساتھ ایک پانی کے ساتھ کانوں کا مسح کیا جائے گا، سلف صالحین کی جماعت سے صحابہ اور تابعین سے اس قول کی مثل مروی ہے، داؤد نے کہا : اگر کانوں کا مسح کیا تو بہتر ہے ورنہ اس پر کچھ واجب نہیں کیونکہ قرآن میں دونوں کا ذکر نہیں، اسے کہا جائے گا، راس کا اسم ان دونوں کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، نسائی اور ابو داؤد وغیرہما کی کتابوں میں احادیث صحیحہ وارد ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے کانوں کے ظاہر اور باطن کا مسح کیا اور اپنی انگلیوں کو کانوں کے سوراخوں میں داخل کیا، (ا) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارت، حدیث نمبر 105۔ 106، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور کتاب اللہ میں ان کا عدم ذکر دلالت کرتا ہے کہ یہ فرض نہیں ہے جیسا کہ چہرے اور ہاتھوں کا ذکر ہے اور کانوں کے مسح کی سنت حدیث سے ثابت ہے اہل علم متوضی کے لیے اپنے کانوں کے مسح کے ترک کو ناپسند کرتے ہیں کانوں کو ترک کے سنت کا ترک بناتے ہیں اور اس پر اعادہ کو واجب نہیں کرتے مگر اسحاق نے کہا : اگر کانوں کا مسح ترک کرے تو جائز نہیں، احمد نے کہا : اگر کانوں کا مسح جان بوجھ کر ترک کرے تو میں اعادہ پسند کرتا ہوں، علی بن زیاد مالکی سے مروی ہے انہوں نے کہا : جس نے وضو یا نماز کی سنت میں کسی سنت کو جان بوجھ کر ترک کیا تو وہ اعادہ کرے۔ یہ فقہاء کے نزدیک ضعیف ہے، سلف میں سے اس کا کوئی قائل نہیں اور نظر اس کا تقاضا کرتی ہے اگر اس طرح ہوتا تو اس کے علاوہ فرض واجب معروف نہ ہوتا، جس نے کہا : کان چہرے سے ہیں انہوں نے اس حدیث سے حجت پکڑی جو نبی مکرم ﷺ سے ثابت ہے آپ ﷺ اپنے سجدہ میں یہ کہتے تھے۔ سجد وجھی للذی خلقہ وصورہ وشق سمعہ وبصرہ (1) (جامع الترمذی کتاب الدعوات جلد 2، صفحہ 179، ایضا حدیث نمبر 529 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کے لیے جس نے اسے پیدا کیا اور اس کی تصویر بنائی اور اس کی سمع وبصر کو بنایا سمع کی نسبت چہر کی طرف کی پس ثابت ہوا کہ ان کے لیے چہرہ کا حکم ہے، مصنف ابی داؤد میں حضرت عثمان ؓ کی حدیث میں ہے کہ یکبارگی کانوں کے ظاہر و باطن کو دھویا پھر اپنے پاؤں کو دھویا پھر فرمایا : وضو کے متعلق سوال کرنے والے کہاں ہیں ؟ میں نے اس طرح رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے دیکھا ہے (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 15، ) جنہوں نے کہا : کانوں کو چہرہ کے ساتھ دھویا جائے گا اور ان کے باطن کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے گا انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ اللہ تعالیٰ چہرہ کو دھونے کا حکم دیا اور سر کے مسح کا حکم دیا جو کانوں میں سے سامنے ہے اس کا دھونا واجب ہے، کیونکہ وہ چہرہ سے ہے اور جو سامنے نہیں ہے اس کا مسح واجب ہے، کیونکہ وہ سر سے ہے، اس قول کا آثار رد کرتے ہیں کیونکہ نبی مکرم ﷺ اپنے کانوں کے ظاہر اور کانوں کے باطن کا مسح کرتے تھے، یہ حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت ابن عباس اور حضرت ربع رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہم کی حدیث سے ثابت ہے اور جنہوں نے کہا : وہ دونوں سر سے ہیں انہوں نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے جو صنابحی سے مروی ہے : ” جب سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر سے خطائیں نکل جاتی ہیں حتی کہ کانوں سے خطائیں نکل جاتی ہیں “۔ (1) (مؤطا امام مالک، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 31) اس حدیث کو امام مالک (رح) نے تخریج کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (13) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وارجلکم “۔ نافع، ابن عامر اور کسائی نے (آیت) ” ارجلکم “۔ کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے ولید بن مسلم نے نافع سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے (آیت) ” ارجلکم “۔ کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے، یہ حسن اعمش سلیمان کی قرات ہے، ابن کثیر، ابو عمرو اور حمزہ نے وارجلکم کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے ان قراتوں کی وہ صحابہ اور تابعین کا اختلاف ہے، جس نے نصب کے ساتھ پڑھا انہوں نے (آیت) ” فاغسلوا “ کو عامل بنایا، انہوں نے پاؤں میں دھونا فرض کیا ہے نہ کہ مسح یہ جمہور علماء کا مذہب ہے اور یہ نبی مکرم ﷺ کے فعل سے ثابت ہے، اس کے علاوہ آپ کے قول سے بطور لازم ثابت ہوتا ہے آپ ﷺ نے ایک قوم کو وضو کرتے دیکھا جب کہ ان کی ایڑیاں (خشکی کی وجہ سے) چمک رہی تھی تو آپ نے بلند آواز سے فرمایا : ” خشک ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے مکمل وضو کرو “۔ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 13، ایضا صحیح بخاری حدیث نمبر 58، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی حد بیان فرمائی فرمایا : (آیت) ” الی الکعبین “۔ ٹخنوں تک، جیسا کہ ہاتھوں کے بارے میں فرمایا : (آیت) ” الی المرافق “۔ یہ ٹخنوں کے دھونے کے وجوب پر دلیل ہے۔ واللہ اعلم “۔ اور جنہوں نے جر کے ساتھ پڑھا ہے انہوں نے با کو عامل بنایا ہے، ابن عربی نے کہا : پاؤں کے دھونے کے وجوب پر علماء کا اتفاق ہے اور مجھے معلوم نہیں کسی نے اس کو رد کیا ہو، سوائے طبری کے جو مسلمانوں کے فقہاء سے ہیں اور رافضیوں اور طبری نے جر کی قرات سے استدلال کیا ہے۔ میں نے کہا : حضرت ابن عباس سے مروی ہے انہوں نے کہا : وضو میں دو چیزیں دھوئی جاتی ہیں اور دو پر مسح کیا جاتا ہے روایت ہے کہ حجاج نے الاہواز میں خطبہ دیا اور وضو کا ذکر کیا، اس نے کہا : اپنے چہروں اور ہاتھوں کو دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کر اور اور اپنے پاؤں کو دھوؤ کیونکہ کوئی چیز ابن آدم سے اس کے قدموں کی نسبت خبث کے قریب نہیں ہے پس تم اس کے بطون، ظہور ایڑھی کے اوپر کے حصہ کو دھوو، یہ حضرت انس بن مالک نے سنا اور کہا : اللہ نے سچ فرمایا اور حجاج نے غلط کہا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وامسحوا برء وسکم وارجلکم “۔ فرمایا : جب وہ پیروں کا مسح کرتے تھے تو انہوں پانی سے تر کرتے تھے حضرت انس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : قرآن مسح کے ساتھ نازل ہوا اور سنت غسل کے ساتھ وارد ہوئی، عکرمہ ؓ اپنے پاؤں پر مسح کرتے تھے، انہوں نے کہا : پاؤں میں غسل نہیں ان کے بارے میں مسح نازل ہوا، عامر شعبی (رح) نے کہا : جبریل مسح کے ساتھ نازل ہوئے، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ تیمم میں اس کا مسح کیا جاتا ہے جن کو دھویا جاتا ہے اور جن پر مسح کیا جاتا ہے انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے، قتادہ ؓ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے دو غسل اور دو مسحے فرض کیے، ابن جریر طبری کا نظریہ یہ ہے کہ پاؤں میں فرض غسل اور مسح کے درمیان اختیار ہے اور انہوں نے دونوں قراتوں کو دو روایتوں کی طرح بنایا ہے، نحاس نے کہا : جو کچھ اس مسئلہ میں کہا گیا ہے اس میں سے بہتر یہ ہے کہ مسح اور غسل دونوں واجب ہیں، مسح جر کی قرات کرنے والے کی قرات پر واجب ہے اور غسل نصب کی قرات کرنے والے کی قرات پر واجب ہے دونوں قراتیں دو آیتوں کی طرح ہیں، ابن عطیہ (رح) نے کہا : ایک قوم جنہوں نے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے ان کا نظریہ ہے کہ پاؤں میں مسح سے مراد دھونا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 163 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : یہ صحیح ہے، کیونکہ مسح کا لفظ مشترک ہے مسح اور دھونے پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، ہر وی نے کہا : ہمیں زہری نے بتایا انہوں نے کہا : ہمیں ابوبکر محمد بن عثمان بن سعید دارمی نے بتایا انہوں نے ابو حاتم سے انہوں نے زید انصاری سے روایت کیا ہے فرمایا : مسح کلام عرب میں کبھی غسل کے لیے اور کبھی مسح کے لیے ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے جب آدمی وضو کرے اور اعضاء کو دھوئے قد تمسح اس نے مسح کیا، کہا جاتا ہے۔ مسح اللہ مالک، جب اللہ تعالیٰ نے تجھے گناہوں سے پاک کیا۔ جب عربوں سے نقل کے ساتھ ثابت ہے کہ مسح، غسل کے معنی میں ہوتا ہے پس اس کا قول راجح ہوا جس نے کہا : جر کی قرات سے مراد غسل ہے نصب کی قرات جس میں کوئی احتمال نہیں ہے اس سے مراد بھی غسل ہے اور کثرت احادیث سے ثابت بھی غسل ہے اور ان کے دھونے کے ترک پر وعید اخبار صحیحہ میں وارد ہے جن کی کثرت کو شمار نہیں کیا جاسکتا، ان احادیث کو ائمۃ نے تخریج کیا ہے اور ان کے دھونے کے ترک پر وعید اخبار صحیحہ میں وارد ہے جن کی کثرت کو شمار نہیں کیا جاسکتا، اور ان احادیث کو ائمۃ نے تخریج کیا ہے پھر سر میں مسح ان کے درمیان داخل ہے جو چیزیں دھوئی جاتی ہیں ترتیب کے بیان کے لیے اس بنا پر کہ رجلین سے پہلے مفعول ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ” فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی المرافق وارجلکم الی الکعبین وامسحوا برؤسکم “۔ جب الراس (سر) الرجلین (پاؤں) سے پہلے مفعول تھا تلاوت میں ان پر مقدم کیا گیا، واللہ اعلم، نہ یہ کہ دونوں سر کے ساتھ مشترک ہیں، کیونکہ تطہیر کی صفت میں ان پر اس کو مقدم کیا۔ عاصم بن کلیب نے ابو عبدالرحمن سلمی ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : حسن اور حسین ؓ نے مجھ پر وارجلکم پڑھا حضرت علی نے یہ سنا جب کہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کررہے تھے فرمایا : (آیت) ” وارجلکم “ یہ کلام میں مقدم اور مؤخر میں سے ہے۔ ابو اسحاق نے حارث سے انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : اغسلوا الاقدام الی الکعبین “۔ اپنے قدموں کو ٹخنوں تک دھوو، اسی طرح حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے انہوں نے ارجلکم نصب کے ساتھ پڑھا، بعض علماء نے فرمایا : الرجلین، میں جر ان کے مسح کی قید کے لیے آئی ہے لیکن جب کہ ان پر خفین ہوں اور یہ قید ہم نے رسول اللہ ﷺ سے حاصل کی کیونکہ آپ ﷺ سے مسح کرنا صحیح ثابت نہیں مگر جب ان پر خفین تھے۔ نبی مکرم ﷺ نے اپنے فعل سے اس حالت کو بیان کیا جس میں پاؤں دھوئے جاتے ہیں اور اس حالت کو بیان کیا جس میں مسح کیا جاتا ہے، یہ بہتر قول ہے، اگر کہا جائے کہ خفین پر مسح سورة المائدہ کے ساتھ منسوخ ہے (2) (جامع ترمذی، کتاب الطہارت، جلد 1، صفحہ 14) یہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : مسح کو حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ نے رد کیا اور امام مالک نے بھی اس کا ایک روایت میں انکار کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس نے کسی چیز کی نفی کی اور دوسرے نے اس کا اثبات کیا تو نافی کے لیے حجت نہیں، خفین پر مسح کو بہت سے صحابہ اور تابعین نے ثابت کیا، حضرت حسن بصری نے کہا : مجھے ستر صحابہ نے بتایا کہ وہ خفین پر مسح کرتے تھے اور نقل صحیح کے ساتھ ہمام سے ثابت ہے فرمایا : جریر نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور خفین پر مسح کیا، ابراہیم نخعی (رح) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور خفین پر مسح کی، ابراہیم نخعی (رح) نے فرمایا : اس حدیث کو وہ پسند کرتے تھے، کیونکہ جریر کا اسلام سورة مائدہ کے نزول کے بعد تھا (1) (صحیح مسلم کتاب الطھارت جلد 1، صفحہ 133۔ 132) یہ نص ہے اس کو رد کرتی ہے جو انہوں نے ذکر کیا اور انہوں نے جس روایت سے حجت پکڑی ہے وہ یہ ہے واقدی عن عبدالحمید بن جعفر عن ابیہ جریر نے سولہ رمضان کو اسلام قبول کیا اور المائدہ ذی الحجہ میں یوم عرفات کو نازل ہوئی، یہ حدیث اپنے ضعف کی وجہ سے ثابت نہیں، اس سورة میں سے عرفہ کے دن (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم “۔ نازل ہوا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا : میں مسح علی الخفین میں جریر کی حدیث کو بہتر سمجھتا ہوں، کیونکہ ان کا اسلما سورة مائدہ کے نزول کے بعد ہے اور جو حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے وہ صحیح نہیں ہے اور حضرت عائشہ ؓ کے پاس اس کا علم نہیں تھا، اسی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ نے سائل کو حضرت علی ؓ کی طرف لوٹایا تھا اور ان کی طرف سائل کو پھیرا تھا حضرت عائشہ ؓ نے سائل کو فرمایا : حضرت علی ؓ سے پوچھو وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ الحدیث : (2) (صحیح مسلم، کتاب الطھارت جلد 1 صفحہ 135) اور رہے امام مالک (رح) جو ان سے انکار مروی ہے وہ منکر ہے صحیح نہیں ہے صحیح وہ ہے جو انہوں نے اپنی موت کے وقت ابن نافع کو کہا : میں اپنے لیے طہارت کو پسند کرتا ہوں اور جس نے مسح پر اکتفا کیا اس میں حرج نہیں دیکھتا اسی پر محمول کیا امام احمد بن حنبل (رح) نے جو ابن وہب ؓ نے ان سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : میں سفر وحضر میں مسح نہیں کرتا، امام احمد (رح) نے کہا جس طرح حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو خفین پر مسح کرنے کا حکم دیا اور خود خفین اتار کر وضو کیا اور فرمایا : مجھے وضو محبوب ہے، اسی طرح حضرت ابو ایوب ؓ سے مروی ہے، احمد ؓ نے فرمایا : جس نے اس بنا پر مسح کو ترک کیا جس بنا پر حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت ابوایوب ؓ اور امام مالک (رح) نے ترک کیا تو میں اس پر انکار نہیں کروں گا، ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور اس پر عیب نہیں لگائیں گے مگر یہ کہ وہ اس کو ترک کر دے اور وہ اس طرح اس کو نہ دیکھے جس طرح اہل بدعت نے کیا ہے، پس اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی، واللہ اعلم، بعض علماء نے کہا : ارجلکم لفظ پر معطوف ہے معنی پر معطوف نہیں یہ غسل پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ معنی کی رعایت ہوتی ہے نہ لفظ کی، جر، جوار کی وجہ سے ہے جس طرح عربوں نے کہا اور قرآن میں اور دوسری عرب کلام میں یہ پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” یرسل علیکما شواظ من نار، ونحاس “۔ (الرحمن : 35) جر کے ساتھ ہے (٭) (یعنی ایک قرات میں نحاس جر کے ساتھ ہے) کہا : نحاس دھواں ہے اور فرمایا : (آیت) ” ھو قران مجید، فی لوح محفوظ “۔ (البروج) امراء القیس نے کہا : کبراناس فی بجاد مزمل : مزمل کو جر، جوار کی وجہ سے ہے مزمل مرد ہے اس کا اعراب رفع ہے۔ زہیر نے کہا : لعب الزمان بھا وغیرھا بعدی سوا فی المور والقطر : ابو حاتم نے کہا : القطر پر رفع تھا لیکن المور کے جوار کی وجہ سے اس کو جر دی گئی ہے جس طرح عربوں نے کہا ہے ھذا جحر ضب خرب۔ انہوں نے اس (خرب) کو جر دی ہے حقیقتۃ اس کا اعراب رفع ہے یہ اخفش، ابو عبیدہ کا مذہب ہے، نحاس نے اس کو رد کیا ہے فرمایا : یہ قول غلط ہے، کلام میں جوار نہیں ہوتا کہ اس پر قیاس کیا جائے یہ غلط ہے اس کی مثال الاقواء ہے۔ میں نے کہا : اس میں قطعی باب یہ ہے کہ پاؤں میں فرض غسل ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، جو حضور ﷺ سے ثابت ہے ” خشک ایڑیوں کے لیے ہلاکت ہے اور قدموں کے پیٹ آگ سے ہیں “۔ اللہ تعالیٰ کی مراد کی مخالفت پر ہمیں ڈرایا گیا ہے اور یہ معلوم کہ آگ کا عذاب نہیں دیا جاتا مگر واجب کے ترک پر اور یہ معلوم ہے کہ مسح میں استیعاب (گھراؤاحاط) نہیں ہوتا اور مسح کے قائلین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مسح ظاہر پر ہوتا ہے بطون پر نہیں ہوتا، اس حدیث سے اس شخص کا بطلان واضح ہوگیا جس نے مسح کا قول کیا، کیونکہ ان کے نزدیک پاؤں کے بطون میں مسح کا دخل نہیں اور غسل کے ساتھ پاؤں کے بطن کو دھویا جاتا ہے مسح باطن کا نہیں ہوتا، اور دوسری دلیل اجماع کی جہت سے ہے علماء کا اتفاق ہے جس نے اپنے قدموں کو دھویا اس نے واجب کو ادا کیا اور قدموں کا مسح کرنے والے کے بارے علماء ایک دوسرے سے روایت کرتے آئے ہیں اور انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ وضو میں ایک مرتب دو مرتب اور تین مرتبہ اپنے پاؤں دھوتے تھے حتی کہ انہوں صاف کرتے تھے، تیرے لیے پاؤں دھونے میں یہ حجت کافی ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے پس وضح ہوگیا کہ جر کی قرات میں غسل ہے نہ کہ مسح جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور) (آیت) ” وارجلکم “ میں عامل “۔ فاغسلوا “ ، اور عرب ایک شے کا دوسری شے پر ایک فعل کے ساتھ عطف کرتے ہیں جس کے ساتھ ایک شے منفرد ہوتی ہے تو کہتا ہے : اکلت الخبزواللبن، یعنی میں نے دودھ پیا یعنی اللبن سے پہلے فعل محذوف ہے۔ اسی سے شاعر کا قول ہے : علفتھا تبنا وماء باردا : ایک اور نے کہا : ورایت زوجک فی الوغی متقلدا سیفا ورمحا : ایک اور نے کہا : واطفلت بالجلھتین ظباء ھا ونعامھا : ایک اور نے کہا : شراب البان وتمر واقط (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 578) ان اشعار میں تقدیر یہ ہے : علفتھا تبناوسقیتھاماء متقلدا سیفا وحاملا رمحا، اطفلت بالجھلھتین، ظباء ھا وفرخت نعامھا (النعام لایطفل انما یفرخ) اطفلت اس کے بچے تھے اور الجلھتان سے مراد واردی کے کنارے ہیں، شراب البان واکل تمرپس (آیت) ’ وامسحوا برء وسکم وارجلکم “۔ غسل کا عطف مسح پر ہے معنی پر محمول کرتے ہوئے مراد غسل ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (14) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الی الکعبین “۔ بخاری نے روایت کیا ہے مجھے موسیٰ نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں وہب نے بتایا انہوں نے عمرو سے روایت کیا ہے یہ ابن یحی ہے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا فرمایا عمرو بن ابی حسن کے پاس گیا انہوں نے حضرت عبداللہ بن زید سے نبی مکرم ﷺ کے وضو کے متعلق پوچھا تو انہوں نے پانی کا ایک برتن منگوایا پھر نبی مکرم ﷺ کے وضو کی طرح وضو کیا، پہلے اس برتن سے ہاتھوں پر پانی انڈیلا، پھر اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ دیھا، پھر اپنے ہاتھوں کو برتن میں داخل کیا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر ناک سے پانی جھاڑا یہ عمل تین چلوؤں سے کیا پھر اپنے ہاتھ کو پانی میں داخل کیا اور تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھویا، پھر اپنے ہاتھوں کو داخل کیا اور تین مرتبہ کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر اپنے ہاتھوں کو پانی میں داخل کیا اور اپنے سر کا مسح کی، پھر اپنے ہاتھوں کو آگے سے پیچھے لے گئے پھر پیچھے سے آگے لے آئے یہ عمل ایک مرتبہ کی، پھر اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھوئے (1) (صحیح بخاری، کتاب الوضو، جلد 1، صفحہ 31، ایضا حدیث نمبر 180، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ یہ حدیث دلیل ہے۔ کہ (آیت) ” امسحوا برء وسکم “۔ میں با زائدہ ہے۔ کیونکہ مسح راسہ فرمایا اور براسہ نہیں فرمایا، سر کا مسح ایک مرتبہ ہے مسلم کی کتاب میں حضرت عبداللہ بن زید ؓ کی حدیث میں واضح طور پر اس کی تفسیر آئی ہے کہ پہلے آپ ہاتھوں کو آگے سے پیچھے لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے لے آئے سر کے اگلے حصہ سے مسح شروع کیا، پھر انہیں پیچھے گدی کی طرف لے گئے، اور پھر پیچھے سے آگے لے آئے، سر کے اگلے حصہ سے مسح شروع کیا، پھر انہیں پیچھے گدی کی طرف لے گئے پھر انہیں لوٹایا حتی کہ اس تک واپس لے آئے جس سے آغاز کیا تھا۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب الطھارت جلد 1، صفحہ 123) علماء کا کعبین کے بارے میں اختلاف ہے، جمہور علماء کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ دو ہڈیاں ہیں جوپاؤں کے پہلو میں اٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 164 دارالکتب العلمیہ) اصمعی نے علماء کے قول کا انکار کیا ہے کہ کعب، قدم کی پیٹھ پر ہے۔ یہ اس نے ” الصحاح “ میں کہا ہے، اور ابن القاسم روایت کرتے ہیں محمد بن حسن نے بھی یہی کہا ہے۔ ابن عطیہ (رح) نے کہا : میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے وضو کی حد یہاں تک مقرر کی ہو لیکن عبدالوہاب نے ” التلقین “ اس کے بارے ایسے الفاظ لکھے ہیں جن میں تخلیط اور ابہام ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : میں اس کی مخالفت کرنے والا نہیں جانتا کہ کعبین پنڈلی کے جوڑ کی دو ہڈیاں ہیں جو اٹھی ہوئی ہیں، طبری نے یونس سے انہوں نے اشہب سے انہوں نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا : الکعبان وہ حد ہے جس تک دھوناواجب ہے یہ دو ہڈیاں ہیں جو پنڈلی کے ساتھ ملی ہوئی ہیں ایڑی کے سامنے ہیں اور کعب قدم کے اوپر ظاہر نہیں۔ میں کہتا ہوں : لغت اور سنت میں نہیں صحیح ہے، کعب عرب کلام میں العلو سے ماخوذ ہے، اسی وجہ سے کعبہ کہا جاتا ہے کعبت المراۃ کہا جاتا ہے جب عورت کے پستان گول ہوجائیں اور ابھر جائیں، کعب القناۃ “ نیزہ کی گرہ پر دو جوڑوں کے درمیان کی جگہ کو کعب کہتے ہیں، کبھی یہ شرف اور مجد کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی سے حدیث ہے واللہ لا یزال کعبک عالیا اللہ کی قسم تیری بزرگی ہمیشہ بلند رہے گی۔ سنت میں نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے جس کو ابو داؤد نے نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا ہے اللہ کی قسم ! اپنی صفوں کو درست کرو ورنہ تمہارے دلوں کے درمیان مخالفت پیدا کر دے گا، فرمایا : میں نے ایک شخص کو دیکھا وہ اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے، اپنا گھٹنا اپنے ساتھی کے گھٹنے سے، اپنا ٹخنہ اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ملائے ہوئے تھا (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 96، ایضا صحیح بخاری حدیث نمبر 566، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) العقب، ایڑی کے ہڈی کے نیچے پاؤں کا پچھلا حصہ ہے، اور العرقوب پنڈلی اور پاؤں کا جوڑ ہے، اسی سے حدیث ہے ” خشک عراقیب (ایڑیوں) کے لیے آگ سے ہلاکت ہے “ (2) (صحیح مسلم، کتاب الطہارت جلد 1، صفحہ 125) یعنی جب ایڑیوں کو دھویا نہ گیا ہو جیسا کہ ارشاد ہے ”(خشک) ایڑیوں اور قدموں کے لیے آگ کا عذاب ہے “ (3) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 8، ایضا صحیح بخاری حدیث نمبر 39، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (15) ابن وہب نے مالک سے روایت کیا ہے کسی پر وضو میں اور غسل میں پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا نہیں ہے، جفاء اور علق میں خیر نہیں ہے۔ ابن وہب نے کہا : پاؤں کی انگلیوں کے خلال کرنے کی رغبت دی گئی ہے، ہاتھوں کی انگلیوں میں خلال ضروری ہے، ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ جس نے اپنے پاؤں کی انگلیوں کا خلال نہیں کیا اس پر کچھ نہیں ہے، محمد بن خالد نے ابن القاسم سے انہوں نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے : جس نے نہر پر وضو کیا اور اپنے پاؤں کو پانی میں حرکت دی تو جائز نہ ہوگا حتی کہ پاؤں کو ہاتھوں سے دھوئے، ابن القاسم (رح) نے کہا : اگر ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں سے دھونے پر قادر ہو تو جائز ہے۔ میں کہتا ہوں : صحیح یہ ہے کہ انگلیوں کے درمیان کی جگہ کو دھویا جائے گا، کیونکہ وہ بھی پاؤں سے ہیں جیسا کہ ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان کی جگہ ہاتھ سے ہے، ہاتھوں کی انگلیوں کے کھلا ہونے اور پاؤں کی انگلیوں کا ملا ہوا ہونے کا کوئی اعتبار نہیں، انسان کو پورے پاؤں دھونے کا حکم دیا گیا ہے جس طرح پورے ہاتھوں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ جب وضو فرماتے تو اپنی انگلیوں کو اپنی چھوٹی انگلی سے ملتے تھے۔ (4) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 7، ایضا صحیح بخاری حدیث نمبر 39، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نیز یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ اپنے پاؤں دھوتے تھے، یہ عموم کا تقاضا کرتا ہے، امام مالک (رح) آخری عمر میں اپنے پاؤں کی تمام انگلیوں کو یا بعض انگلیوں کو اپنی چھوٹی انگلی سے ملتے تھے اس حدیث کی بنا پر جو انہیں ابن وہب نے بیان کی انہوں نے ابن لہیعہ اور لیث بن سعد سے روایت کی انہوں نے یزید بن عمر وغفاری سے روایت کی انہوں نے ابو عبدالرحمن حنبلی سے روایت کی انہوں نے مستوردبن شداد قرشی سے روایت کی ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے دیکھا اپنے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان کی جگہ کا اپنی چھوٹی انگلی سے خلال کرتے تھے ابن وہب نے کہا : مجھے امام مالک (رح) نے فرمایا : یہ اچھا ہے، میں نے ان سے یہ صرف اس گھڑی سنا، ابن وہب نے کہا : میں نے ان سے سنا اس کے بعد وضو میں انگلیوں کے خلال کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا حکم دیا، حضرت حذیفہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : خللوا بین الاصابع لا تخللھا النار (5) احکام القرآن لابن العربی، ، جلد 2 صفحہ 580) انگلیوں کا خلال کرو تاکہ آگ ان کا خلال نہ کرے، یہ خلال کے ترک پر وعید ہے پس جو ہم نے کہا وہ ثابت ہوگیا۔ مسئلہ نمبر : (16) آیت کے الفاظ متواتر وضو کرنے کا تقاضا کرتے ہیں یعنی اعضاء کو لگا تار دھوئے، درمیان میں وقفہ نہ کرے اور درمیان میں کوئی فعل نہ کرے جو وضو سے نہ ہو، علماء کا اس کے متعلق اختلاف ہے، ابن ابی سلمہ اور ابن وہب نے کہا : پے درپے وضو کرنا، ذکر ونسیان میں وضو کے فرائض سے ہے جس نے اپنے وضو کے اعضا کے درمیان جان بوجھ کر یا بھول کر وقفہ کیا تو جائز نہ ہوگا۔ ابن عبدالحکم نے کہا : بھول کر وقفہ کرے یا جان بوجھ کر کرے وضو جائز ہوگا، امام مالک (رح) اور ابن القاسم نے کہا : اگر جان بوجھ کو فرق کیا تو پھر جائز نہ ہوگا بھول کر کیا تو جائز ہوگا۔ ابن حبیب کی روایت میں امام مالک (رح) نے فرمایا نے فرمایا : مغسول میں وقفہ جائز ہے ممسوح میں جائز نہیں، یہ پانچ اقوال ہیں جو دو اصلوں پر قائم ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ نے مطلق حکم دیا ہے متواتر وضو کرے یا وقفہ کرے (تیری مرضی مقصود تمام اعضاء میں نماز کے لیے کھڑے ہونے کے وقت غسل کا وجود ہے۔ (2) یہ عبادات ہیں جو مختلف ارکان والی ہیں پس اس میں تو الی اور تواتر واجب ہے جس طرح نماز ہے، یہ اصح ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (17) آیت کے الفاظ ترتیب کو بھی اپنے ضمن میں رکھتے ہیں، ترتیب کے بارے میں اختلاف ہے ابہری نے کہا : ترتیب سنت ہے سنت ہے ظاہر مذہب یہ ہے کہ بھولنے والے کے لیے ترتیب کا نہ ہونا جائز ہے اور جان بوجھ کر ترتیب چھوڑنے والے کے بارے اختلاف ہے، بعض علماء نے فرمایا : جائز ہے اور مستقبل میں ترتیب کو قائم رکھے، ابوبکر القاضی وغیرہ نے کہا : یہ جائز نہیں، کیونکہ یہ کھیلنے والا ہے۔ امام شافعی (رح) اور ان کے تمام اصحاب کا نظریہ یہ ہے۔ امام احمد بن حنبل (رح) اور ابو عبید قاسم بن سلام، اسحاق، ابو ثور کا یہی قول ہے ابو مصعب مالکی کا بھی یہ نظریہ ہے، اس نے اس کو اپنی مختصر میں ذکر کیا ہے، اس کو اس نے اہل مدینہ سے حکایت کیا ہے اور امام مالک (رح) ان کے ساتھ ہیں کہ جس نے وضو میں ہاتھوں کو دھونے میں شہر سے مقدم کیا اور آیت کی ترتیب کے وضو نہ کیا تو جس نے اس وضو کے ساتھ نماز پڑھی اس کا اعادہ لازم ہے، امام مالک (رح) سے اکثر روایات یہ ہیں کہ واؤ نہ تعقیب کا موجب ہے اور نہ ترتیب کا موجب ہے، یہی قول امام مالک (رح) کے اصحاب کا ہے اور یہی قول امام ابوحنیفہ اور اسکے اصحاب کا ہے، اور یہی ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد، مزنی اور داؤد بن علی کا نظریہ ہے الکیاطبری نے کہا : اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” فامسحوا بوجوھکم وایدیکم “ کا ظاہر اجزاء کا تقاضا کرتا ہے وہ علیحدہ علیحدہ وقفہ سے اعضاء کو دھوئے یا متواتر وضو کرے جیسا کہ صحیح مذہب شافعی سے ہے اور یہ اکثر علماء کا مذہب ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : مگر امام مالک (رح) فرماتے ہیں : آئندہ نماز کے لیے ترتیب سے نیا وضو کرنا مستحب ہے یہ اس پر وہ واجب خیال نہیں کرتے تھے، یہ ان کے مذہب کا ماحاصل ہے، محلی بن زیاد نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا : جس نے اپنے بازوؤں کو دھویا، پھر اپنے چہرے کو دھویا، پھر اسے اسی جگہ یاد آگیا تو وہ بازؤں کو دھونے کا اعادہ کرے اور اگر اسے یاد نہ آئے حتی کہ اس نے نماز پڑھ لی تو وہ وضو اور نماز کا اعادہ کرے، علی نے کہا پھر اس کے بعد امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے کہا : نماز کا اعادہ نہ کرے اور آئندہ نماز کے لیے وضو کا اعادہ کرے، اختلاف کا سبب وہ ہے جو بعض علماء نے کہا کہ فا فاغسلوا “ میں تعقیب کا موجب ہے، کیونکہ جب یہ جواب شرط ہے تو اس نے مشروط مربوط کردیا پس یہ تمام میں ترتیب کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ چہرے سے آغاز کرنے کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ یہ شرط کی جزا اور جواب ہے یہ تمام میں ترتیب کا تقاضا کرتی ہے اگر جواب شرط ایک معنی ہوتا جب جواب شرط تمام جملے ہیں تو پھر کوئی پروا نہیں جس سے آغاز کیا جائے، کیونکہ مطلوب حاصل ہوجاتا ہے، بعض علماء نے فرمایا : ترتیب واؤ کی وجہ سے آتی ہے لیکن حقیقۃ ایسا نہیں کیونکہ تو کہتا ہے : تقاتل زید وعمرو، تخاصم بکر وخالد پس باب مفاعلہ میں اس کا دخول اسے ترتیب سے خارج کردیتا ہے یہ کہنا صحیح ہے، ترتیب چار وجوہ سے ہے۔ (1) اس سے آغاز کیا جائے جس سے اللہ تعالیٰ نے آغاز فرمایا جیسا کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا جب آپ نے حج فرمایا : ہم اس سے شروع کریں جس سے اللہ تعالیٰ نے آغاز فرمایا۔ (2) سلف کا اجماع ہے وہ ترتیب سے وضو کرتے تھے۔ (3) وضو کو نماز کی تشبیہ کی وجہ سے۔ (4) اس ترتیب پر رسول اللہ ﷺ نے مواظبت اختیار فرمائی۔ اور جنہوں نے اجازت دی انہوں نے اس پر حجت پکڑی ہے کہ جنابت کے اعضاء کے دھونے میں ترتیب کے نہ ہونے پر اجماع ہے اسی طرح وضو کے اعضاء کے دھونے میں ترتیب نہیں ہے، کیونکہ اس سے مراد غسل ہے نہ کہ آغاز کرنا، حضرت علی ؓ سے مروی ہے فرمایا : مجھے کوئی پرواہ نہیں، جب مکمل وضو کروں، اپنے جس عضو سے آغاز کروں، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے فرمایا : اپنے ہاتھوں کو دھونے سے پہلے اپنے پاؤں سے آغاز کرنے میں کوئی حرج نہیں، دارقطنی نے کہا : یہ روایت مرسل ہے ثابت نہیں ہے، اولی ترتیب کا وجوب ہے، واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (18) جب وضو میں مشغولیت سے نماز کا وقت فوت ہوجائے تو اکثر علماء کے نزدیک تیمم نہیں کرسکتا امام مالک (رح) ایسی صورت میں تیمم کو جائز کہتے ہیں، کیونکہ تیمم اصل میں نماز کے وقت کی حفاظت کے لیے ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو نماز کو پانی ملنے تک مؤخر کرنا واجب ہوتا۔ جمہور علماء نے اس ارشاد (آیت) ” فلم تجدوا مآء فتیمموا “۔ سے حجت پکڑی ہے اور یہ پانی پانے والا ہے تیمم کی صحت کی شرط نہیں پائی جاتی پس تیمم نہیں کرے گا۔ مسئلہ نمبر : (19) بعض علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نجاست کا زائل کرنا واجب نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اذا قمتم الی الصلوۃ “۔ استنجا کا ذکر نہیں فرمایا اور وضو کا ذکر نہیں فرمایا، اگر نجاست کا زائل کرنا واجب ہوتا تو پہلے اس کا ذکر کیا جاتا۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) کے اصحاب کا قول ہے اور امام مالک (رح) سے اشہب کی روایت بھی یہی ہے، ابن القاسم نے کہا : یاد ہوتے ہوئے نجاست کا ازلہ ضروری ہے اور نسیان کی صورت میں اس کا زائل کرنا ساقط ہوجاتا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : نجاست کا زائل کرنا ہے جب وہ بغلی درہم کی مقدار سے زائد ہو، مراد بڑا درہم ہے جو مثقال کی ہیئت پر ہوتا ہے یہ مخرج معتاد کے منہ پر قیاس کیا ہے جو معاف ہے، صحیح ابن وہب کی روایت ہے کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے دو قبروں والوں کے متعلق فرمایا : انہیں عذاب ہو رہا ہے اور (تمہارے نزدیک) کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا ایک چغلی کھاتا تھا اور دوسرا پیشاب سے نہیں بچتا تھا (1) (صحیح مسلم کتاب الطہارت، جلد 1، صفحہ 141) اور عذاب ہمیشہ واجب کے ترک پر ہوتا ہے ظاہر قرآن میں کوئی حجت نہیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت وضو میں خاص وضوکا طریقہ بیان فرمایا ہے، نجاست کے ازالہ وغیرہ سے تعرض نہیں فرمایا : مسئلہ نمبر : (20) آیت کریمہ خفین پر مسح پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، اس مسئلہ میں امام مالک (رح) کی تین روایات ہیں۔ (1) مطلقا انکار جیسا کہ خوارج کہتے ہیں یہ روایت منکرہ ہے صحیح نہیں ہے یہ پہلے گزر چکی ہے۔ (2) سفر میں مسح کرے حضر میں نہ کرے، کیونکہ مسح کی اکثر روایات سفر میں ہیں اور سباطۃ (کوڑے کا ڈھیر) والی حدیث حضر میں مسح کے جواز پر دلالت کرتی ہے اس حدیث کو مسلم نے حضرت حذیفہ ؓ کی حدیث سے تخریج کیا ہے فرمایا : میں اور رسول اللہ ﷺ چل رہے تھے آپ ﷺ ایک قوم کے کوڑے کے ڈھیر پر آئے دیوار کے پیچھے آپ کھڑے ہوئے جس طرح تم میں سے کوئی کھڑا ہوتا ہے پس آپ نے پیشاب کیا، میں آپ سے تھورا دور ہوگیا پھر آپ ﷺ نے میری طرف اشارہ فرمایا، میں آیا، آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا حتی کہ آپ پیشاب سے فارغ ہوگئے ایک روایت میں یہ زائد ہے کہ آپ نے وضو فرمایا اور خفین پر مسح کیا، اسی کی مثل شریح بن ہانی کی حدیث ہے فرمایا : میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس آیا میں نے ان سے خفین پر مسح کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : تم حضرت ابن ابی طالب کے پاس جاؤ اور ان پوچھو وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے ہم نے حضرت علی ؓ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : مسافر کے لیے تین دن تک مسح ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات تک مسح ہے۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الطہارت، جلد 1، صفحہ 135) یہ تیسری روایت ہے، سفر وحضر میں مسح کرے، اس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (21) امام مالک (رح) کے نزدیک مسافر خفین پر مسح بغیر کسی وقت کی قید کرسکتا ہے، یہ لیث بن سعد کا قول ہے، ابن وہب نے کہا : میں نے امام مالک (رح) کو یہ فرماتے سنا ہمارے شہر والوں کے نزدیک اس میں کوئی وقت کی تعیین نہیں۔ ابو داؤد نے حضرت ابی بن عمارہ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ میں خفین پر مسح کروں، آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں “ اس نے عرض کی : ایک دن آپ ﷺ نے فرمایا : ایک دن، اس نے پوچھا : دو دن۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” دو دن “ اس نے پوچھا : تین دن۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’ ہاں “ اور جتنا چاہے “۔ ایک روایت میں ہے ” ہاں جو تیرے لیے ظاہر ہو “۔ ابو داؤد نے کہا : اس کی سند میں اختلاف ہے یہ قوی نہیں ہے۔ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الطہارت، جلد 1، صفحہ 21) امام شافعی (رح)، امام احمد بن حنبل (رح)، نعمان (رح) اور طبری (رح) نے کہا : مقیم ایک دن اور ایک رات مسح کرے اور مسافر تین دن مسح کرے، یہ انہوں نے شریح کی حدیث اور اس کی مثل احادیث کی بنا پر کہا ہے : امام مالک (رح) سے ہارون اور بعض خلفاء کی طرف آپ کے خطوط میں یہ روایت کیا گیا ہے ان کے اصحاب نے انکا انکار کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (22) تمام علماء کے نزدیک مسح کرنا اس کے لیے جس نے طہارت پر خفین کو پہنا ہو، کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی حدیث ہے فرمایا : میں ایک رات ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، الحدیث، اس حدیث میں ہے میں جھکا تاکہ آپ کے جوڑے اتاردوں آپ ﷺ نے فرمایا : ان کو رہنے دو میں نے طہارت کی حالت میں پہنے تھے (3) (صحیح مسلم، کتاب الطہارت، جلد 1، صفحہ 134) آپ نے دونوں پر مسح فرمایا، اصبغ کا خیال ہے کہ یہ تیمم کی طہارت ہے، یہ بنا ہے کی تیمم حدث کو اٹھا دیتا ہے داؤد اس مسئلہ میں منفرد ہے، اس نے کہا : ہاں طہارت سے مراد صرف نجات سے طہارت ہے جب پاؤں نجاست سے پاک ہوں تو خفین پر مسح کرنا جائز ہے۔ اختلاف کا سبب طہارت کے اسم میں اشتراک ہے۔ مسئلہ نمبر : (23) امام مالک کے نزدیک خفین پر مسح جائز ہے جب ان میں تھوڑی سی پھٹن ہو، ابن خویز منداد نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پھٹن انتفاع اور پہننے سے مانع نہ ہو، اس میں چلنا ممکن ہو، امام مالک کے قول کی طرح لیث، ثوری، امام شافعی، اور طبری، کا قول ہے، ثوری اور طبری سے پھٹی ہوئی خف پر مسح کی اجازت مروی ہے، اوزاعی نے کہا : خف پر اور قدم کا جو حصہ ظاہر ہے اس پر مسح کرے، یہ طبری کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : اگر پاؤں کا جو حصہ ظاہر ہو وہ تین انگلیوں سے کم ہو تو مسح کرے اور جب تین انگلیوں کی مقدار پاؤں ظاہر ہو تو اس پر مسح نہ کرے یہ تحدید ہے تو توقیف کی محتاج ہے، یہ معلوم ہے کہ صحابہ اور تابعین کے موزے تھوڑی پھٹن سے سلامت نہیں ہوتے تھے جمہور کے نزدیک یہ معاف ہے امام شافعی (رح) سے مروی ہے جب پاؤں کے اگلے حصہ میں پھٹن ہو تو اس پر مسح جائز نہیں، حسن بن حی نے کہا : خف پر مسح کرے جب جو حصہ ظاہر ہو جو راب نے اسے ڈھانپ رکھا ہو اگر قدم کا کوئی حصہ ظاہر ہو تو مسح نہ کرے، ابو عمر نے کہا : یہ ان کے مذہب پر ہے کہ مسح جو رابوں پر جائز ہے جب وہ موٹی ہوں، یہ ثوری، امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (24) امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کی نزدیک جو رابوں پر مسح جائز نہیں مگر جب کہ وہ چمڑے کی ہوں، یہ امام مالک کا ایک ہے، ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ جو رابوں پر مسح جائز نہیں، اگرچہ وہ مجلد ہوں، ابو داؤد کی کتاب میں حضرت مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور جو رابین اور نعلین پر مسح کیا، ابو داؤد نے کہا : عبدالرحمن بن مہدی اس حدیث کو بیان نہیں کرتے تھے کیونکہ حضرت مغیرہ سے معروف ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے خفین پر مسح کیا، اس حدیث کو حضرت ابوموسی سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے یہ قوی نہیں اور نہ متصل ہے، ابو داؤد نے کہا : حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابو مسعود، حضرت براء بن عازب حضرت انس بن مالک، حضرت ابو امامہ، حضرت سہل بن سعد، حضرت عمرو بن حریث رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے جو رابوں پر مسح کیا، یہ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارت، جلد 1، صفحہ 21، ایضا صحیح بخاری حدیث نمبر 37، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں کہتا ہوں : رہا نعلین پر مسح تو ابو محمد داری نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے کہ ہمیں ابو نعیم نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں یونس نے بتایا انہوں نے ابو اسحاق سے انہوں نے عبد خیر سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے حضرت علی ؓ کو دیکھا انہوں نے وضو کیا اور نعلین پر مسح کیا، پھر وسعت فرمائی اور فرمایا اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا جیسے تم نے مجھے دیکھا تو میرے خیال میں قدموں کا باطن مسح کا ظاہر سے زیادہ حقدار ہے، ابو محمد دارمی (رح) نے کہا : یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” وامسحوا ربرء وسکم وارجلکم الی الکعبین “۔ سے منسوخ ہے، (1) (سنن دارمی، کتاب الطہارت، جلد 1، صفحہ 147) میں کہتا ہوں : حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے کہ ” میرے خیال میں قدموں کا باطن مسح کا ظاہر سے زیادہ حقدار ہے “۔ اس کو ابو داؤد نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : اگر دین رائے کے ساتھ ہوتا تو خف کا باطن مسح کا اوپر والے حصہ سے زیادہ حق دار تھا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے خفین کے ظاہر پر مسح کرتے دیکھا، امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے فرمایا : جس نے خفین کے ظاہر پر مسح کیا اور باطن پر مسح نہ کیا تو یہ جائز ہے مگر امام مالک (رح) نے فرمایا : جس نے ایسا کیا وہ وقت میں اعادہ کرے اور جس نے خفین کے باطن پر مسح کیا، ظاہر پر مسح نہ کیا تو یہ جائز ہے اس پر وقت کے اندر اور وقت کے بعد اعادہ ہے اسی طرح اصحاب امام مالک (رح) نے فرمایا : مگر ایک چیز اشہب مالکی (رح) سے مروی ہے فرمایا : خفین ظاہر و باطن میں برابر ہے جس نے باطن کا مسح کیا ظاہر کا نہ کیا تو اس پر صرف وقت میں اعادہ ہے۔ امام شافعی (رح) سے مروی ہے فرمایا : باطن کا مسح جائز ہے، بغیر ظاہر کے مسح کے، امام شافعی (رح) کا مشہور مذہب یہ ہے کہ جس نے صرف باطن کا مسح کیا تو جائز نہ ہوگا اور وہ مسح کرنے والا شمار نہ ہوگا امام ابوحنیفہ (رح) اور ثوری (رح) نے کہا : خفین کے ظاہر پر مسح کرے باطن پر نہیں، یہی امام احمد بن حنبل (رح) اسحاق اور ایک جماعت کا قول ہے امام مالک، امام شافعی (رح) اور ان کے اصحاب کا مختار مذہب یہ ہے کہ اعلی واسفل کا مسح کرے، حضرت ابن عمر ؓ ابن شہاب کا یہی قول ہے، کیونکہ ابو داؤد، دارقطنی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو غزوہ تبوک میں وضو کرایا آپ ﷺ نے خف کے اوپر، سے مسح کیا، ابو داؤد نے کہا : روایت ہے کہ یہ حدیث ثور نے رجاء بن حیوہ سے نہیں سنی (1) بقیہ تفسیر اگلی آیت میں
Top