Al-Qurtubi - At-Taghaabun : 15
اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ : بیشک مال تمہارے وَاَوْلَادُكُمْ : اور اولاد تمہاری فِتْنَةٌ : آزمائش ہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اَجْرٌ عَظِيْمٌ : اجرعظیم ہے
تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے اور خدا کے ہاں بڑا اجر ہے۔
انما اموالک و اولادکم فتنۃ فتنہ سے مراد آزمائش اور امتحان ہے جو تمہیں حرام چیز کے کمانے اور اللہ تعالیٰ کے حق کو روکنے پر برانگیختہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی معصیت کرتے ہوئے ان کی اطاعت نہ کرو۔ حدیث میں ہے یوتی برجل یوم القیامۃ فیقال اکل عیالہ حسناتہ (1) قیامت کے روز ایک آدمی لایا جائے گا اسے کہا جائے گا : اس کے عیال اس کی نیکیاں کھا گئے ہیں۔ بعض سلف صالحین سے مروی ہے : عیال طاعات کے لئے گھن ہے۔ قتیبی نے کہا : فتنہ کا معنی ہے دلدادہ ہونا یہ جملہ بولا جاتا ہے : فتن الرجل بالمرأۃ مرد عورت کی محبت میں مبتلا ہوگیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فتنہ کا معنی امتحان ہے اسی معنی میں شاعر کا قول ہے : لقد فتن الناس بدینھم ” لوگ اپنے دین میں امتحان میں پڑگئے “۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا : تم میں سے کوئی یہ نہ کہے : اے اللہ ! مجھے فتنہ سے محفوظ رکھ کیونکہ تم میں سے کوئی بھی اپنے دین، مال اور اولاد کی طرف نہیں لوٹتا مگر وہ فتنہ پر مشتمل ہوتا ہے بلکہ وہ یہ کہے : اللھم انی اعوذبک من مضلات الفتن، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے فتنوں سے جو گمراہ کرنے والے ہیں۔ حضرت حسن بصری نے کہا : من ازواجکم میں من تبعیض کے لئے ہے کیونکہ وہ سارے کے سارے اعداء نہیں (2) ۔ انما اموالکم و اولاد کم فتنۃ میں من ذکر نہیں کیا کیونکہ یہ دونوں چیزیں فتنہ اور دل کی مشغولیت سے خالی نہیں۔ امام ترمذی وغیرہ نے عبد اللہ بن بریدہ سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا۔ حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسین ؓ آئے جبکہ ان پر سرخ قمیصیں تھیں۔ وہ چل رہے تھے اور لڑکھڑا رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نیچے اترے، ان دونوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا : تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔ میں نے ان دونوں بچوں کو چلتے ہوئے اور لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہ کرسکا یہاں تک کہ میں نے اپنی گفتگو کو قطع کیا اور ان دونوں کو اٹھا لیا “ (3) ۔ پھر آپ خطبہ میں شروع ہوگئے۔ واللہ عندہ اجر عظیم۔ اجر عظیم سے مراد جنت ہے۔ یہ غایت ہے مفسرین کے قول کے مطابق اس سے بڑھ کر کوئی اجر نہیں۔ صحیحین میں حدیث ہے۔ الفاظ بخاری کے ہیں (1) ۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ جنتیوں سے فرمائے گا : اے جنتیو ! وہ عرض کریں گے : لبیک وسعدیک اے ہمارے رب ! اللہ تعالیٰ پوچھے گا : کیا تم راضی ہو ؟ وہ عرض کریں گے : ہم کیوں راضی نہ ہوں جبکہ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا ہے جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا : کیا میں تمہیں اس افضل عطا نہ کروں ؟ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! اس سے افضل کوئی چیز ہے ؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : میں تم پر اپنی رضا نازل کرتا ہوں، اس کے بعد میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا “ (2) ۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رضا آرزوئوں کی غایت ہے۔ صوفیہ نے اس کی تحقیق میں یہ اشعار کہے ہیں : امتحن اللہ بہ خلقہ فالنار والجنۃ فی قبضتہ فھجرہ اعصم من نارہ ووصلہ اطیب من جنتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ اپنی مخلوق کا امحتان لیا آگ اور جنت اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اس کا فراق اس کی آگ سے بڑھ کر تکلیف دہ ہے اور اس کا وصل اس کی جنت سے اچھا ہے۔
Top