Siraj-ul-Bayan - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
اللہ انصاف اور بھلائی اور اہل قرابت کو کچھ دینے کا حکم کرتا ، اور بےحیائی اور نامعقول بات اور سرکشی سے منع کرتا ہے تمہیں سمجھاتا ہے شاید تم یاد رکھو (ف 2) ۔
روح اخلاق : (ف 2) اس آیت میں اسلام کی اساس تعلیمات کا ذکر ہے یعنی اللہ کے احکام کے خلاصہ ذکر کردیا ہے ، یہ حصہ مکارم اخلاق کا ہے ، بلکہ اسے اگر روح اخلاقی سے تعبیر کیا جائے تو بجا ہے ۔ عدل کے معانی میں اختلاف ہے ، حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں ، اس سے مقصود توحید ہے ، بعض کہتے ہیں دین متوسط یعنی اسلام ہے ، بعض کی رائے میں معاملات ہیں ، مساوات کا حکم ہے ، مگر لفظ عام ہے ، یہ تمام اصناف عدل پر یکساں بولا جاتا ہے ، توحید اس لئے عدل ہے کہ یہی اعتدال و توازن کی راہ ہے ، بت پرستی اپنی تمام جزئیات کے ساتھ مذموم ہے ، اور جہالت میں غلو مغالات ہے دین متوسط اس لئے ہی کہ اس سے قبل کے تمام ادیان میں افراط وتفریط ہے ، یہودیت میں کھراپن اور ظاہر یت زیادہ ہے ، تشدود تصنع کی آمیزش ہے عبادت میں شریعت سے بےنیازی ہے ، صرف اخلاقی نصائح کا ذکر ہے ، کوئی قانون اور قاعدہ نہیں ، مجوسیت نرا الحاد ہے ، آرین مذاہب میں تعین نہیں ، وہاں ہر بات موجود ہے خرافات وادہام کا حصہ بہت زیادہ ہے ، وہ مذہب جس میں ظاہریت بھی ہو اور روحانیت بھی اجمال اور شریعت کی تفصیل بھی ، معارف الہی کا ذکر بھی ہو اور فلسفہ و حکمت بھی ، تو وہ صرف اسلام ہے ، جو اعتدال و توازن میں سمویا ہوا ہے ، کوئی بات زائد نہیں ، ہر حکم فطرت کے ترازو میں تلا ہوا ، اور قدرت کے پیمانہ میں نپا ہوا ہے ۔ عدل کے معنے معاملات میں مساوات کے عام طور پر ہیں عرض یہ ہے کہ مسلمان پیکر انصاف ہو ، معدلت شعار ہو ، احسان مرتبہ اخلاص کا دوسرا نام ہے ، معاملات میں احسان کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم اپنے فرائض منصبی سے زیادہ کچھ کریں ، اس کے بعد اللہ کا حکم یہ بھی ہے کہ اقرباء کی خدمت کی جائے ، ان سے مروت ومراعات کا سلوک کیا جائے ان کو ہر طرح پر ترجیح دی جائے ، برائیوں اور فواحش سے باز رہنے کی بھی تلقین ہے ” فحشآء “ پس ہر وہ برائی مراد ہے جو نمایاں اور ظاہر ہے ہو ، منکر کے معنے اس عیب کے ہیں جسے قلب وضمیر برا سمجھے غرض یہ ہے کہ مسلمان اخلاق کا نہایت بہتر نمونہ ہو ۔
Top