Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
وہ لوگ جو غیب (کی حقیقت) پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ روزی انہیں دی ہے اسے اللہ کی راہ میں ( خرچ کرتے ہیں
ایمان بالغیب : 5: انسان کے علم و ادراک کا ذریعہ حواس خمسہ ہیں ، یعنی دیکھنے ، سننے ، سونگھنے ، چکھنے اور چھونے کی قوتیں۔ جو کچھ ان کے ذریعہ معلوم ہوسکتا ہے اس کے لئے محسوس ہے جو ان کے ذریعہ معلوم نہیں کرسکتا وہ غیر محسوس ہے ، قرآن کریم نے اس مطلب کے لئے غیب اور شہادت کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ عالم غیب وہ ہے جو غیر محسوسات ہے۔ عالم شہادت یعنی محسوسات ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ توحید الٰہی کی بنیاد یہ ہے کہ ان حقائق پر یقین رکھے جو اس کے لئے غیر محسوس ہیں لیکن وجدان ان کی شہادت دیتا ہے اور وحی الٰہی نے اس کی خبر دی ہے مثلاً اللہ کی ذات وصفات۔ ملائکہ کا وجود۔ وحی و نبوت ، مرنے کے بعد دوبارہ زندگی اور زندگی کے بعد موت کا لزوم ، عذاب وثواب ، دنیا کی ابتدائی پیدائش اور عالم آخرت کے احوال و واردات وغیرہ۔ یعنی جس چیز کو ہمارے ظاہری اور باطنی حواس ادارک نہیں کرسکتے وہ غیب ہے۔ ارباب تقویٰ کی اولین خصوصیت یہ بتائی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے ہر اس چیز کو ماننے کے لئے تیار ہیں جس کو انہوں نے کسی طریق پر بھی محسوس نہیں کیا۔ گویا کہ درمیانی حجاب اٹھادیئے جائیں تو ان کے یقین و اذعان میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا۔ ان کے لئے رسول اللہ ﷺ کا کہنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھنا دونوں برابر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی صحبت وہم نشینی اور قرآن کریم کی تعلیم وتربیت نے ایسے ارباب طہارت پیدا کردیئے ہیں جن کا طغرائے امتیاز یہی تھا کہ وہ بغیر کسی دلیل و حجت کے رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری میں داخل ہوگئے اور اللہ پر ایمان لائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طورِ سینا سے توراۃ لے کر آتے ہیں نبی اسرائیل کو اس پر ایمان لانے کا کہتے ہیں لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً (2 : 25) جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو ظاہر میں نہ دیکھ لیں ہم کسی طرح تمہارا یقین کرنے والے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بہتر اور اشرف مخلوق انسان ہے اور پھر انسانوں میں بہتر اور اشرف انبیاء (علیہم السلام) تھے اور انبیاء (علیہم السلام) میں ارفع و اعلیٰ مقام ہمارے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ بالکل اسی طرح ہمیں تسلیم ہے کہ آپ ﷺ کا دائرہ ادراک بھی تمام انبیاء (علیہم السلام) سے بہت بڑا ہے اور ظاہر ہے کہ جتنا دائرہ ادراک بڑا ہوگا۔ اتنا ہی دائرہ غیب چھوٹا ہوگا تاہم آپ ﷺ مخلوق ہیں اور مخلوق کے لئے غیب کا ہونا ضروری ہے عالم الغیب صرف اور صرف ایک ہی ذات ہے یعنی اللہ۔ اسے جب عالم الغیب کہا جاتا ہے تو اس کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو سب بندوں کے لئے غیب ہی ہوتی ہیں۔ ” غیب “ کی اضافت یہاں صرف بندوں کی جانب ہوتی ہے ورنہ حق تعالیٰ کے لئے تو جس طرح دور و نزدیک ، آسان و دشوار ، بڑا اور چھوٹا سب یکساں ہیں اور ان کے باہمی فرق بےمعنی ہیں اسی طرح غیب و شہود بھی بالکل ایک ہیں۔ کوئی انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ، ایک منزل پر پہنچ کر اس کے علم کی بھی انتہا ہوجاتی ہے اور دائرئہ غیب اس کا شروع ہوجاتا ہے۔ غیب پر ایمان لانا تو زیر نظر آیت اور اس جیسی بیشمار آیات کریمات میں متقیوں کی سب سے پہلی علامت بیان کی گئی ہے۔ اب اگر خدانخواستہ کسی کے لیے غیب ہے ہی نہیں تو وہ ایمان کس چیز پر لائے گا ؟ انبیاء (علیہم السلام) تو متقی ہی نہیں بلکہ متقیوں کے سردار و پیشوا ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان اگر مغیبات اور مخفیات پر نہ ہوگا تو اور کس کا ہوگا ؟ یاد رہے دین کا مغز کہیے یا ایمان کی روح۔ وہ یہی علم غیب کا عقیدہ ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے کوئی چیز غیب و پوشیدہ ہے ہی نہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی توہین کا مرتکب ہے اور آپ ﷺ کی نبوت کا انکاری ہے۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ 00 :ii اقامت صلوٰۃ : 6: لغوی طور پر صلوٰۃ کا لفظ دعا اور رحمت کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن قرآن کریم نے اس کو ایک اصطلاحی معنی کے لئے مخصوص کرلیا ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنے طرز عمل سے اس کی تفسیر بیان فرمادی ہے اور اب اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ وہ نماز ہے۔ یعنی نماز ادا کریں اس طرح کہ فرائض و واجبات ، سنن و مستحبات کا اچھی طرح خیال ہو اوقات کی پابندی ہو اور تعدیل ارکان پیش نظر رہیں اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد سامنے رکھو کہ : (صلوا کما رایتمونی اصلی) یعنی نماز ادا کرو جس طرح کہ تم نے مجھے نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔ آج جس کا خاکہ صحیح احادیث میں موجود ہے۔ پھر اقامت نماز میں نماز کی تکمیل صوری و معنوی ہر طرح کی آگئی۔ کسی شئے کی اقامت کرنے کے معنی عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ اسے اس طرح ادا کیا جائے جو اس کے ادا کرنے کا حق ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق ایک جامع تشریح ” یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ “ کی صاحب جلالین نے اپنے دو مختصر لفظوں میں کردی یعنی ” ای یاتون بھا بحقوقھا “ ان دیکھے رب کے سامنے جھکنے ، سر عبودیت خم کرنے ، اس سے گہرا ربط وتعلق پیدا کرنے اور خود افراد امت میں باہم نظم و ضبط پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے اور سب سے بڑھ کر امام کی متابعت میں قومی زندگی کے لئے وہ سبق رکھا گیا ہے جس کو آج امت مسلمہ نے مکمل طور پر پس پشت ڈال دیا ہے۔ حالانکہ بدنی عبادتوں میں یہی فریضہ سب سے اعلیٰ اور ایمان و توحید کا سب سے بڑا عملی مظہر ہے۔ فرد کے لئے اسلامی نماز باجماعت کے جو اخلاقی ، طبی ، مادی فائدے ہیں نیز ملت اسلامیہ کے لئے جو معاشرتی ، اجتماعی مصلحتیں ہیں ، ان کی جھلک کہیں دور سے دیکھ کر یہود ، مسیح اور منکرین تک اس کے دلدادہ ہوگئے تھے اور ان کے اہل علم اپنی تحریروں میں بار بار اس کا ذکر داد و مدح کے لہجہ میں کرچکے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ جب سورة مزمل نازل ہوئی اور ” قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ002 “ کا حکم ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی مخاطب تھے لیکن صحابہ ؓ بھی آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوگئے۔ تمام شب یا شب کا اکثر حصہ اللہ کے حضور میں کھڑے رہتے اور یہ کھڑا ہونا تدبر و تفکر کا کھڑا ہونا تھا۔ یہ اس وقت کی حالت ہے جب کہ ابھی پانچ نمازیں فرض نہ ہوئی تھیں جس وقت نمازوں کا حکم ہوا یعنی فرضیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام ؓ کی کیفیت یہ تھی کہ اپنے اپنے کاروبار ، کام دھندے میں مصروف ہیں کہ ” حی علی الصلوٰۃ “ کے الفاظ کان میں پڑے اور سب کچھ چھوڑ کر فوراً مسجد میں آگئے۔ چناچہ انہی کے متعلق کہا گیا کہ : رِجَالٌ 1ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ (النور 24 : 37) یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا نام سنتے ہیں تو اس پر قربان ہونے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی ان کو اپنی دلفریبیوں میں محبوبتیوں کا شیفتہ نہیں بناسکتی۔ اب ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ نماز پڑھے تو یہ بات سمجھ لے کہ جس طرح میں اس وقت ” حی علی الصلوٰۃ “ کے الفاظ سنتے ہی مسجد میں آگیا ہوں۔ ایسے ہی جب کبھی اسلام کو میری زندگی کی ضرورت ہو تو میں فوراً اپنے آپ کو پیش کر دوں اور کوئی چیز بھی میرے لیے رکاوٹ کا باعث نہ بن جائے۔ سوتے وقت ہر مسلمان اپنے ایمان و اسلام کو دیکھے کہ اللہ کے ساتھ میں نے جو عہد باندھا ہے اس میں کسی قسم کی کمی تو نہیں پیدا ہوگئی اور کیا میں اس کے نام پر اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوں ؟ اور پھر کم از کم یہ تو یاد رکھے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہے : ” حاسبوا قبل تحا سبوا “ یعنی ہر شخص اپنے لیے خود محتسب ہوجائے اور قبل اسکے کہ دوسرے لوگ اس پر حرف گیری کریں وہ خود ہی اپنے عیوب کو دیکھے اور اصلاح کرنے کی سعی کرے کہ : اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ 1ؕ کا حکم میری نماز سے پورا ہو رہا ہے یا نہیں ؟ iii: انفاق فی سبیل اللہ : 7: رزق کا لفظ کلام عرب میں بڑے وسیع معنی رکھتا ہے اس کے اندر ہر قسم کی نعمتیں آجاتی ہیں خواہ ظاہری و مادی ہوں مثلاً مال و جان اور اولاد یا معنوی اور روحانی ہوں مثلاً علم و حکمت اور فہم و فراست۔ اس جگہ بھی ” رَزَقْنٰهُمْ “ فرما کر ہر رزق کو اپنی جانب منسوب کر کے بتا دیا کہ جو نعمت ، جتنی اور جس قسم کی بھی انسان کو ملتی ہے۔ سب اللہ ہی کے فیض و عطا کا ثمرہ ہوتی ہے۔ انسان کی بنائی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ ” یُنْفِقُوْنَۙ003 “ متقیوں کی تیسری صفت ارشاد ہوئی ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے انہیں جو بھی ظاہری و معنوی نعمتیں عطا ہوئی ہیں ، وہ حق کی راہ میں صرف کرتے ہیں اور اللہ کی مخالفت ، عدوان اور عصیان میں صرف نہیں کرتے۔ متقیوں کی یہ تیسری صفت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ دنیوی اغراض و مقاصد کو پس پشت ڈال کر صرف اللہ کی رضا کے لئے سب کچھ خرچ کرنے کے لئے تیار ہوں جاتے ہیں ، دین کی خاطر جان و مال کی قربانی کرنا معمولی بات نہیں ہے جب تک کہ انسان کا معاشی نقطہ نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہوجائے وہ اس بات پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنے مال بےدریغ صرف کرنے لگے۔ مادہ پرست لوگ جو پیسہ حاصل کرنے کے لئے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان پر ہی جمی رہتی ہو کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لئے کچھ کرسکیں ۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لئے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں تو پہلے اپنی ذات یا اپنی برادری یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں۔ اس ذہنیت کے ساتھ انسان اس دین کی راہ پر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔ جس کا مطالبہ یہ ہے کہ دنیوی فائدے اور نقصان سے بےپرواہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے اپنا وقت ، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کرو۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی نظر وسعت ، حوصلے میں فراخی ، دل میں کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص رضاء الٰہی کی طلب ہی ان کو اس راہ کی طرف لے آتی کے وہ جو کچھ خرچ کرنا چاہتے ہیں صرف اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں اور صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔
Top