Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 48
وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذَا : اور جب دُعُوْٓا : جب وہ بلائے جاتے ہیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں بَيْنَهُمْ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں اِذَا : ناگہاں فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر لیتا ہے
اور جب ان کو خدا اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ (رسول خدا) ان کا قضیہ چکا دیں تو ان میں سے ایک فرقہ منہ پھیر لیتا ہے
48۔ 52:۔ تفسیر ابن المنذر ‘ عبداللہ حمید اور ابن ابی حاتم میں حضرت حسن بصری کی روایت 1 ؎ سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے منافقوں کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ آنحضرت ﷺ جو فیصلہ کرتے اور حکم دیتے ہیں بغیر کسی رو رعایت کے وہ فیصلہ اور حکم ہوتا ہے ‘ اس لیے جس معاملے میں وہ منافق لوگ حق پر ہوتے اور گواہی شاہدی بھی ان کے پاس پوری ہوتی ‘ تو ایسے معاملے کو اپنا حق پانے کی خوشی میں دوڑ کر آنحضرت ﷺ کے پاس چلے آتے تھے اور جس معاملے میں یہ لوگ حق پر نہ ہوتے اور گواہی شاہدی بھی ان کے پاس پوری نہ ہوتی اور اس قرینہ سے جان لیتے کہ آنحضرت ﷺ کا فیصلہ ان کی مرضی کے موافق نہ ہوگا ‘ تو آنحضرت ﷺ کے پاس معاملہ لانے پر راضی نہ ہوتے ‘ ان کی مرضی کے موافق اور سردار لوگ منافق جو مدینہ میں تھے ان کے پاس معاملہ پیش کرنے کی آرزو ظاہر کرتے ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ یہ لوگ فقط منہ سے کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ کے رسول کی اطاعت ہم کو قبول ومنظور ہے لیکن حقیقت میں یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ‘ پھر فرمایا کیا ان لوگوں کے دل میں یہ شک کا روگ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے رسول کو سچا رسول نہیں جانتے ‘ یا اپنی حق تلفی کا ان کو خوف ہے ‘ پھر فرمایا ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے بلکہ اللہ کے علم غیب میں یہ لوگ قابل سزا گنہگار ٹھہر چکے ہیں اس لیے ان کو برے کام اچھے نظر آتے ہیں ‘ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی کی حدیث 2 ؎ کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں ‘ ان کو دنیا میں برے کام اچھے نظر آتے ہیں ‘ یہ حدیث بَلْ اُولٰیِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسی دغا بازی کی باتوں سے یہ منافق لوگ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ ایسی دغا بازی کی باتوں سے یہ لوگ اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں جس کا نتیجہ ان کو مرنے کے بعد معلوم ہوجائے گا ‘ آگے عقبیٰ میں مراد کو پہنچنے والے پکے مسلمانوں کی نشانی کا ذکر فرمایا ‘ کہ اللہ اور رسول کا حکم ان کی مرضی کے موافق ہو یا نہ ہو ‘ وہ کسی طرح اللہ اور رسول کی دلی اور زبانی فرمانبرداری میں کوتاہی نہیں کرتے کیونکہ ان کے دل میں اللہ کا خوف ہے اور ان کی عادت پرہیزگاری کی ہے ‘ ہجرت سے پہلے جس قدر حصہ قرآن شریف کا مکہ میں اترا ہے اس میں منافقوں کا ذکر اس واسطے نہیں ہے کہ مکہ میں یا کھلم کھلا مسلمان تھے یا کافر تھے ‘ ہجرت کے بعد جب اہل اسلام کی قوت بڑھی تو اہل مدینہ میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ مسلمانوں کی قوت اور شوکت دیکھ کر جب مسلمانوں سے ملتے تو اوپرے دل سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے اور اپنے ساتھیوں سے ملتے تو اہل اسلام کی مذمت کرتے ‘ یہ لوگ کبھی ادھر مل جاتے اور کبھی ادھر ‘ اسی واسطے عبداللہ بن عمر ؓ کی صحیح مسلم کی روایت 1 ؎ میں ان لوگوں کی مثال اللہ کے رسول ﷺ نے ریوڑ سے بہکی ہوئی بکری کی بیان فرمائی ہے ‘ جس مثال کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح ریوڑ میں جاتی ہے کبھی اس ریوڑ میں ‘ یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر ‘ ان آیتوں میں اور اکثر آیتوں میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 2 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جس شخص کو ایک خوبصورت اور مالدار عورت بدکاری کے لیے بلائے اور وہ شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس عورت کا کہنا نہ مانے تو ایسے شخص کو حشر کے دن کی دھوپ میں اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا ‘ پکے مسلمانوں کے ذکر میں یہ جو فرمایا تھا کہ ان لوگوں کے دل میں اللہ کا خوف ہے اور ان کی عادت پرہیزگاری کی ہے ‘ اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا اور اس کی عادت پرہیزگاری کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے شخص کی بڑی قدر اور منزلت ہے ‘ حسن بصری کی روایت سے جو شان نزول اوپر بیان کی گئی ‘ اس کی سند معتبر ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 298 ج 3 والدر المنثور ص 54 ج 5 ) (2 ؎ مثلا پچھلے صفحہ میں ) (1 ؎ مشکوٰۃ ص 7 ا باب الکبائر و علامات النفاق ) (2 ؎ الترغیب والترہیب 228 ج 4 )
Top