Ruh-ul-Quran - An-Noor : 48
وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذَا : اور جب دُعُوْٓا : جب وہ بلائے جاتے ہیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں بَيْنَهُمْ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں اِذَا : ناگہاں فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر لیتا ہے
جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے
وَاِذَا دُعُؤٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِـہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ مُّعْرِضُوْن۔ وَاِنْ یَّـکُنْ لَّـھُمُ الْحَقُّ یَـاْ تُوْٓا اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ ۔ (النور : 48، 49) (جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے۔ اور اگر فیصلہ ان کے حق میں ہونا ہو تو اس کی طرف نہایت فرمانبردانہ آتے ہیں۔ ) نفاق کا ایک پہلو منافق کبھی زبان سے اسلام کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار نہیں کرتا اور نہ کبھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کے دعویٰ ایمان میں کمزوری ہے بلکہ منافق لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر مسلمان کہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے پیش نظر آیت کریمہ میں ان کے نفاق کی دلیل کے طور پر ان کے رویئے کے ایک پہلو کو ذکر فرمایا ہے کہ جب کبھی ان کے درمیان کوئی قضیہ پیدا ہوتا ہے اور انھیں یہ کہا جاتا ہے کہ اس قصیے کے فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف آئو۔ تو یہ لوگ آپ کی طرف آنے سے اعراض کرتے ہیں۔ اس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف آنا، اللہ کے قانون کی طرف آنا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان کیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس کی تشریح، تفصیل اور عملی شکل بیان فرمائی ہے۔ اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول دو مختلف حوالے نہیں بلکہ ایک ہی حوالہ ہے۔ رسول کی طرف آنا، اللہ کی طرف آنا ہے۔ اور اللہ کی طرف آنا، رسول کی طرف آنا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے متعدد جگہ ارشاد فرمایا مَنْ یَّطُعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ” جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ “ گویا دونوں کی اطاعت ایک قانون کی اطاعت ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اسے برپا کرکے دکھایا ہے۔ تو جب اس قانون کی طرف ان منافقین کو بلایا جاتا ہے تاکہ اس قانون کے مطابق ان کے قضایا کا فیصلہ کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے رسول کریں گے۔ لیکن یہ فیصلہ صرف ان کا فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ بھی ہوگا۔ کیونکہ آپ اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ تو ان منافقین کے ہر گروہ کو آپ دیکھیں گے کہ وہ اس فیصلے کی طرف آنے سے پہلوتہی کرے گا یعنی اس کی کوشش یہ ہوگی کہ میں کسی اور عدالت سے اپنے معاملات کا فیصلہ کرائوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے لوگوں نے جن میں یہود پیش پیش تھے اپنی کتابوں کو تحریف اور ترمیم کے ذریعے خواہشات کی تصویر بنا لیا تھا اور مزید یہ بات کہ ان کے فیصلہ کرنے والوں کو رشوت دے کر مفید مطلب فیصلہ کرایا جاسکتا تھا۔ ہمارے آئمہ تفسیر نے ان آیات کا ایک شان نزول بھی بیان کیا ہے، اس کا ذکر کرنے سے پہلے ایک ضروری بات واضح کردینا مفید ہوگا۔ وہ یہ کہ ہمارے یہاں عام طور پر شان نزول کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس واقعہ کی وجہ سے ہوا۔ اور وہ شاید اسی واقعہ کے ساتھ مخصوص بھی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ بات صحیح نہیں۔ جب کسی واقعہ کے پیش آنے کے وقت کوئی آیت کریمہ نازل ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس آیت میں اس واقعہ سے متعلق ہدایت موجود ہے اور اس کے علاوہ اگر اسی طرح کے کچھ اور واقعات پیش آئیں گے یا اس طرح کے حالات پیدا ہوں گے تو اس آیت کریمہ سے رہنمائی حاصل کی جانی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ مختلف واقعات کے بارے میں ایک ہی آیت یا ایک ہی سورت کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس موقع پر نازل ہوئی تھی۔ تو واقعات کے تعدد کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ شاید اس آیت یا اس سورت کا نزول ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا ہے، حالانکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مختلف واقعات یا مختلف حالات کے ضمن میں آنحضرت ﷺ کو اس آیت کی طرف متوجہ فرمایا گیا کہ آپ ﷺ اس موقع پر اس سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ کسی آیت یا سورت کا حکم کسی ایک واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتا۔ اسی کو ہمارے اہل علم اس طرح بیان کرتے ہیں : الاعتبار بعموم اللفظ لابخصوص السبب ” اس وضاحت کی روشنی میں یہ گزارش کی جاسکتی ہے کہ ان آیات میں منافقین کے مجموعی رویہ پر تنقید کی گئی ہے اور یہ تنقید کسی خاص واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ آیات ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئیں، جس کا نام بشر تھا، اس کا ایک یہودی سے تنازعہ ہوگیا۔ اس یہودی نے بشر کو کہا کہ چلو رسول اللہ ﷺ کے پاس فیصلے کے لیے چلتے ہیں۔ بِشر کے دل میں چور تھا وہ یہودی سے ناحق الجھ رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ نبی کریم ﷺ فیصلہ اس کے حق میں دیں گے، کیونکہ وہاں نہ کسی کی رعایت کی جاتی ہے اور نہ سفارش چلتی ہے۔ تو اس نے یہودی سے کہا ان محمدا یحیف علینا ” کہ محمد ﷺ ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ “ چلو کعب بن اشرف کے پاس چلتے ہیں۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور اس آیت میں یہ بات واضح کردی گئی کہ جو شخص آنحضرت ﷺ یا اس مسند پر فائز آپ کے کسی جانشین کے فیصلے کو قبول نہیں کرتا اور وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوسری عدالتوں یا دوسرے قانون کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ ہزار ایمان و اسلام کا دعویٰ کرے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مسلمان نہیں۔ خودغرضی کی اطاعت نفاق ہے وَاِنْ یَّـکُنْ لَّـھُمُ الْحَقُّ یَـاْ تُوْٓا اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ ” اور اگر انھیں یہ خیال ہو کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا تو وہ اللہ کے رسول کے پاس اطاعت کیش بن کر آتے ہیں۔ “ یعنی جب انھیں تنازعات کے فیصلے کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو منافقین کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ بجائے آنحضرت ﷺ کی عدالت میں جانے کے یہودیوں کی کسی عدالت میں جائیں تاکہ وہاں مفید مطلب فیصلہ لے سکیں، لیکن اگر انھیں یہ خیال ہو کہ ہمارے قضیے میں فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا کیونکہ اسلامی شریعت ایسے قضایا میں جو احکام جاری کرتی ہے وہ اس قضیے میں ہمارے حسب حال ہیں تو پھر وہ لپکتے ہوئے فرمانبردارانہ اور اطاعت کیش بن کر آنحضرت ﷺ کی عدالت میں آتے ہیں۔ یہی وہ روش ہے جو ان کے منافق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں آنحضرت ﷺ کے فیصلے یعنی شریعت کے فیصلے کو قبول کرنا اور جہاں سے وہ فیصلہ مل سکتا ہو اس عدالت میں جانا ایمان کا تقاضا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ فیصلہ صاحب قضیہ کی خواہش اور مصلحت کے مطابق ہو یا اس کے خلاف ہو۔ ایک مومن ہر صورت میں شریعت ہی کو ترجیح دیتا ہے بلکہ اس کے مقابلے میں کسی دوسری عدالت یا کسی دوسرے قانون کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ قرآن کریم نے بعض دوسرے مواقع پر اسی کو تحاکم الی الطاغوت سے تعبیر کیا ہے اور اس کو شرک قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ شرک ایمان کی ضد ہے۔ ایمان کا راستہ اور ہے اور شرک کا راستہ اور ہے۔ اور دونوں کا انجام بھی غائت درجہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔
Top