Tafseer-e-Baghwi - Yaseen : 65
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
اَلْيَوْمَ : آج نَخْتِمُ : ہم مہر لگا دیں گے عَلٰٓي : پر اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ وَتُكَلِّمُنَآ : اور ہم سے بولیں گے اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَتَشْهَدُ : اور گواہی دیں گے اَرْجُلُهُمْ : ان کے پاؤں بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : وہ تھے يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے تھے)
آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کردیں گے اور ان کے پاؤں (اس کی) گواہی دیں گے
الیوم نختم علی افواھھم کی تفسیر 65، الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم وتشھد ارجلھم بما کا نوایکسبون ، جب کفار اپنے کفر اور رسولوں کی تکذیب کے بارے میں منکر ہوجائیں گے۔ اس قول سے ، ماکنا مشرکین، تموان کے منہ پر مہرلگادی جائے گی ۔ اس پر ان کے اعضاء وجوارح بولیں گے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں ، لوگوں نے سوال کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت کے دن دیکھیں گے ؟ فرمایا کہ کیا تم ظہر کے وقت سورج کو دیکھتے ہو، جب کوئی بادل وغیرہ نہ ہوں تو تم کو سورج دیکھنے میں کوئی رکاوٹ آتی ہے ، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ، نہیں فرمایا چودھویں رات کو جب کوئی بادل نہ ہو۔ وہ کہنے لگے نہیں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تم کو اپنے ر ب کے دیکھنے پر بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی مگر اتنی جتنی سورج اور چاندکودیکھنے میں ہوتی ہے ۔ پھر اللہ بندے سے فرمائے گا اے فلاں شخص ! کیا میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی ؟ تجھے سردار نہیں بنایا تھا ؟ کیا تجھے تیراجوڑا نہیں دیا تھا ؟ کیا گھوڑوں اور اونٹوں کو تیر افرمانبردار نہیں بنایا تھا ؟ کیا تجھے سیادت نہیں دی تھی ؟ کیا تجھے مال غنیمت کا چوتھائی کا مستحق نہیں بنایا تھا ؟ بندہ عرض کرے گا کیوں نہیں اے میرے رب ! اللہ فرمائے گا کیا تیرایہ گمان تھا کہ مجھ سے آکر ملے گا ؟ بندہ عرض کرے گا نہیں اللہ فرمائے گا جس طرح تو مجھے بھولا رہا اسی طرح میں بھی تجھے آج بھول جاؤں گا۔ پھر دوسرے بندے سے ملاقات فرمائیں گے اور اس بھی یہی کہیں گے (وہ یہی جواب دے گا) کہ کیا میں نے تجھے عزت نہیں دے تھی ، کیا تجھے سردار نہیں بنایا تھا کیا تجھے تیرا جو ڑا نہیں دیا تھا ؟ کیا گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے حکم کاتابع نہیں بنایا تھا ؟ کیا تجھے سرداری نہیں دی تھی ؟ ان کے علاوہ سفیان وغیرہ نے ترأس اور تربع ذکر کیا ہے دونوں جگہوں پر۔ وہ کہے گا کیوں نہیں ، اس سے کہاجائے گا کہ کیا توگمان کرتا تھا کہ تو مجھ سے آکر ملے گا ؟ تو وہ کہے گا نہیں ۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ جس طرح تو مجھے بھولا رہا، آج میں بھی تجھے بھلادوں گا۔ پھر تیسرے شخص سے ملاقات کرے گا ۔ اس کو اسی طرح کہے گا۔ وہ عرض کرے گا میں تجھ پر تیری کتاب پر اور تیرے رسول پر ایمان لایا تھا اور نمازپڑھی تھیں، روزے رکھے تھے، زکوۃ دی تھی، غرض جس قدر کرسکے گا کرے گا، اس سے کہاجائے گا کیا ہم تیرے خلاف گواہ کھڑا کردیں ؟ وہ شخص اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے خلاف کس کو گواہ بنایاجائے گا ؟ پھر اللہ تعالیٰ اس کی منہ پر مہرلگادے گا اور اس کی ران سے فرمائے گا تو بات کر۔ حسب الحکم اس کی ران ، گوشت اور ہدی اس کے اعمال جو کچھ ہوں گے بتائیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، یہ شخص منافق ہوگا جو اپنی طرف سے عذرپیش کرے گا اور اسی پر اللہ کا غضب ہوگا۔ بہزبن حکیم بن معاویہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن تم اس حالت میں آؤگے کہ تمہارے منہ پر کپڑابندھا ہواہوگا اور سب سے پہلے آدمی کی ران اور ہتھیلی بات کرے گی۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے مسکرارہوں ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) ہی بہترجانتے ہیں۔ فرمایا، مجھے اس بات پر مسکراہٹ آئی کہ ایک بندہ اپنے رب سے کہے گا اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے ظلم کرنے سے پناہ نہیں دے رکھی ہے ؟ اللہ فرمائے گا، آج تیرانفس اور کراما کاتبین تیرے خلاف شہادت دینے کے لیے کافی ہیں ۔ پھر اللہ اس کے منہ پر مہرلگادے گا اور اعضاء کو حکم دے گا تم بولوحسب الحکم اعضاء بندہ کے اعمال کے متعلق بولیں گے، اس کے بعد بندے کو گویائی کیا جازت دے دی جائے گی اور وہ اپنے اعضاء سے کہے گا تم مرجاؤ ، مٹ جاؤ تمہاری طرف سے ہی تو میں دفاع کررہا تھا۔
Top