Madarik-ut-Tanzil - At-Tahrim : 2
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ : تحقیق فرض کیا اللہ نے لَكُمْ : تمہارے لیے تَحِلَّةَ : کھولنا اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ : اور اللہ تعالیٰ مولا ہے تمہارا وَهُوَ الْعَلِيْمُ : اور وہ علم والا ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کرد یا ہے اور خدا ہی تمہارا کا رساز ہے اور وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
قسم کی نکلنے کی راہ : 2 : قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ (اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کیلئے تمہاری قسموں کے کھولنے (کاطریقہ) مقرر کردیا ہے) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایسی چیز مقرر فرما دی جس سے تم اپنی قسموں سے حلال ہوسکتے ہو اور وہ کفارہ ہے۔ نمبر 2۔ کفارہ سے قسموں کی حلت کو مشروع کیا۔ نمبر 3۔ قسموں میں استثناء کو جائز قرار دیا۔ عرب کہتے ہیں حلل فلان فی یمینہٖ جب کہ وہ اس میں استثناء کرے۔ اور استثناء یہ ہے کہ قسم کے آخر میں انشاء اللہ کہہ دے تو اس کی قسم نہ ٹوٹے۔ عند الا حناف : حلال کو حرام کرلینا قسم ہے۔ بقولِ مقاتل : رسول اللہ ﷺ نے ایک رقبہ تحریم ماریہ میں آزاد فرمایا۔ قولِ حسن (رح) ۔ آپ ﷺ نے کفارہ نہیں دیا کیونکہ آپ کو ماتقدم من ذنبہٖ اور ماتاخر سب معاف تھے۔ اور یہ ایمان والوں کی تعلیم کیلئے فرمایا گیا۔ وَاللّٰہُ مَوْلٰکُمْ (اور اللہ تعالیٰ تمہارا کارساز ہے) تمہارا آقا اور تمہارے کاموں کا ذمہ دار ہے۔ ایک قول یہ ہے : مولا کم تمہارے نفوس سے بڑھ کر حقدار ہے۔ پس اس کی خیر خواہی تمہاری نصیحتوں سے زیادہ نفع بخش ہے۔ وَھُوَ الْعَلِیْمُ (وہی بڑا جاننے والا ہے) جو چیز تمہارے لئے درست ہے پس وہ اسی کو مشروع کرنے والا ہے۔ الْحَکِیْمُ (بڑی حکمت والا ہے) اس میں جو اس نے حلال و حرام قرار دیں ہیں۔
Top