Tafseer-e-Baghwi - At-Tahrim : 2
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ : تحقیق فرض کیا اللہ نے لَكُمْ : تمہارے لیے تَحِلَّةَ : کھولنا اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ : اور اللہ تعالیٰ مولا ہے تمہارا وَهُوَ الْعَلِيْمُ : اور وہ علم والا ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو ؟ کیا اس سے اپنی بیبیوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
شہد کو حرام کرنے کا واقعہ 1 ۔” یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیم “ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شیرینی اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔ آپ ﷺ کی عادت تھی کہ عصر کی نماز کے بعد بیبیوں کے گھر جایا کرتے تھے۔ ایک روز (عصر کے بعد) حضرت حفصہ ؓ کے پاس گئے تو وہاں ہر روز کے معمول کے خلاف زیادہ دیر توقف کیا۔ میں نے جب پوچھ پاچھ کی تو معلوم ہوا کہ حفصہ ؓ کے خاندان کی کسی عورت نے حفصہ کو بطور ہدیہ شہد کی ایک کپی بھیجی تھی۔ انہوں نے اس شہد کا شربت بنا کر رسول اللہ ﷺ کو پلایا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا : میں نے یہ بات سن کر کہا : خدا کی قسم ! ہم کوئی تدبیر کریں گے (کہ رسول اللہ ﷺ وہاں شربت نہ پئیں) چناچہ میں نے سودہ ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس آئیں تو تم کہنا یارسول اللہ ! ( ﷺ ) آپ ﷺ نے مغافیر کھایا ہے ؟ حضور ﷺ جواب دیں گے نہیں (میں نے مغافیر نہیں کھایا) اس پر تم کہنا پھر یہ بو کیسی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ کو بہت ناگوار تھا کہ آپ ﷺ کی طرف سے کسی کو یہ بو محسوس ہو۔ حضرت رسول اللہ ﷺ ضرور فرمائیں گے کہ حفصہ ؓ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ اس کے جواب میں تم یہ کہنا کہ اس شہد کی مکھیوں نے عرفظہ کا عرق چوسا ہوگا۔ میرے پاس جب حضور ﷺ تشریف لائیں گے تو میں بھی یہی کہوں گی اور صفیہ ؓ جب تمہارے پاس تشریف لے آئیں تو تم بھی یہی کہنا۔ جب رسول اللہ ﷺ حضرت سودہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور قریب آئے تو انہوں نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ! آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : نہیں۔ حضرت سودہ ؓ نے کہا پھر یہ بو کیسی ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ حضرت سودہ ؓ نے کہا : تو اس کی مکھیوں نے عرفظہ کا عرق چوسا ہوگا۔ حضرت سودہ ؓ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے کہا : رسول اللہ ﷺ دروازہ میں ہی تھے کہ خدا کی قسم میں نے تمہارے خوف سے پکار کر وہ بات اسی وقت کہنا چاہی تھی (لیکن توقف کیا اور جب حضور ﷺ میرے پاس پہنچ گئے تو میں نے وہ بات کہی) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے وہی (طے شدہ) بات عرض کی۔ پھر صفیہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی وہی بات عرض کی۔ بالآخر جب آپ ﷺ حفصہ ؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! ( ﷺ ) کیا میں اسی شہد کا شربت پلائوں، فرمایا، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ اس کے بعد سودہ ؓ نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کو شربت سے محروم کردیا، میں نے کہا : خاموش رہو۔ صحیحین میں بروایت عطاء بیان کیا گیا کہ عبیدبن عمیر نے کہا : میں نے خود سنا، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرمارہی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ (ام المومنین) زینب بنت جحش کے پاس ٹھہر کر شہد کا شربت پیا کرتے تھے ۔ میں نے اور ام المومنین حفصہ ؓ نے باہم مشوروہ کرکے طے کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کسی کے پاس تشریف لائیں تو وہ کہے کہ مجھے کچھ آپ کی طرف سے مغافیر کی بو محسوس ہورہی ہے۔ چناچہ جب حضور والا ہم دونوں میں سے ایک کے پاس تشریف لائے تو اس بی بی نے (حسب مشاورت) وہی بات کہہ دی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اور تو کوئی بات نہیں ہے بس زینت بنت جحش کے پاس میں نے شہد کا شربت پیا تھا، دوبارہ ایسا ہرگز نہیں کروں گا یعنی زینب کے گھر شہد کا شربت ہرگز نہ پیوں گا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ ” ان تتوبا الی اللہ “ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ؓ ” واذ اسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثا “ بلکہ آپ نے شہد پیا تھا۔ اس سند کے ساتھ ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں لیکن میں نے زینت بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے میں دوبارہ نہ پیوں گا اور میں نے قسم اٹھالی ہے۔ پس تو اس کی خبر کسی کو نہ دینا۔ آپ (علیہ السلام) اس کے ذریعے اپنی بیویوں کی رضا تلاش کرتے تھے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ آیت مذکورہ کا نزول حضرت ماریہ ؓ کے سلسلے میں ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیبیوں کی باریاں بانٹ دیا کرتے (ایک بار) جب حضرت حفصہ ؓ کی باری تھی تو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے میکے جانے اور اپنے والد کو دیکھنے کی اجازت کی درخواست کی۔ حضور ﷺ نے اجازت دے دی ۔ حضرت حفصہ ؓ جب چلی گئیں تو حضور ﷺ نے اپنی باندی حضرت ماریہ قبطیہ کو حضرت حفصہ ؓ کے گھر میں ہی طلب فرمایا، ماریہ آگئیں۔ حضور ﷺ نے ان سے قربت کی۔ حضرت حفصہ لوٹ کر آئیں تو دروازہ کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ برآمد ہوئے تو اس وقت آپ ﷺ کی پیشانی سے پسینہ چمک رہا تھا۔ حضرت حفصہ بیٹھی رو رہی تھیں، فرمایا : کیوں رورہی ہو ؟ حضرت حفصہ ؓ نے جواب دیا : آپ ﷺ نے اسی غرض سے مجھے اجازت دی تھی، آپ ﷺ نے میرے گھر میں اپنی باندی کو بلایا اور میری باری کے دن میرے بستر پر اس سے قربت کی۔ آپ ﷺ نے میرا اتنا پاس لحاظ بھی نہیں کیا جتنا دوسری کسی بی بی کا کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا وہ میری باندی نہیں ہے جو اللہ نے میرے لئے حلال کردی ہے (خیر) اب تم خاموش ہوجائو تمہاری خوشنودی کی خاطر میں نے اس ک واپنے اوپر حرام کرلیا۔ کسی بی بی کو اس کی اطلاع نہ دینا اس کے بعد آپ ﷺ تشریف لے آئے، جونہی حضور ﷺ واپس ہوگئے حضرت حفصہ ؓ نے وہ دیوار کھٹکھٹائی جو ان کے اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے مکان کے درمیان تھی اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے کہا : میں تم کو ایک خوشخبری سناتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی باندی ماریہ کو اپنے لئے حرام کرلیا، اب ہم کو اللہ نے اس کی طرف سے سکھ دے دیا۔ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ باہم گہری دوست تھیں اور دوسری بیبیوں کے مقابلہ میں آپس میں ایک دوسری کی مددگار ۔ اسی لئے حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ساری سرگزشت بیان کردی۔ یہ بات سن کر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو غصہ آیا اور رسو ل اللہ ﷺ اپنے عہد پر اس وقت تک قائم رہے جب تک یہ آیت نازل ہوئی۔ ” یایھا النبی لم تحرم مااحل اللہ لک “ یعنی شہد اور ماریہ ” تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفوررحیم “ اور حکم دیا گیا کہ آپ (علیہ السلام) اپنی قسم کا کفارہ دیں اور اپنی لونڈی سے رجوع کریں۔ پس فرمایا :
Top