Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم ان اک قصہ آپ کو ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اور ترقی کردی تھی
لغات القرآن آیت نمبر 13 تا 16 نقص ہم بیان کرتے ہیں۔ نبا خبر، حال۔ زدنا ہم نے بڑھا دیا۔ ربطنا ہم نے باندھا، مضبوط کردیا۔ شطط عقل سے ور کوئی بات۔ سلطان مبین کھلی اور واضح دلیل۔ اعتزلتموھم تم ان سے الگ ہوگئے۔ فاو تم ٹھکانا بنا لو۔ ینشر وہ پھیلا دے گا۔ مرفق آرام ، آسائش۔ تشریح : آیت نمبر 13 تا 16 گزشتہ آیات میں اصحاب کہف کا مختصر واقعہ بیان کیا گیا تھا۔ ان ایٓات میں اس واقعہ کے کچھ مزید پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ کچھ نوجوان تھے جنہوں نے بادشاہ وقت (دقیانوس) کے غلط عقیدوں، بت پرستی، غرور وتکبر کے سامنے سر جھکانے اور بت پرستی کے بجائے بےپناہ جرأت، ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بےجان بتوں کے سامنے سجدہ کرنے سے اور غیر اللہ کی عبادت و بندگی کا صاف انکار کردیا تھا اور نہایت دلیری سے اللہ پر ایمان لانے کا اعلان کردیا تھا اور بادشاہ وقت پر اس بات کو واضح کردیا تھا کہ انہوں نے ایمان کے جس راستے پر چلنے کا فیصلہ کرلیا ہے ان کو کسی جابر و ظالم کی دھمکی، ظلم و ستم اس راستے سے ہٹا نہیں سکات۔ انہوں نے بتا دیا کہ ہم نے جس پروردگار کی اطاعت کو قبول کرلیا ہے وہی ساری کائنات کا مالک، رازق اور خالق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ایک اللہ کا انکار کرتے اور اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے پتھر کے بےجان بتوں کو اپنا معبود سمجھتے ہیں وہ ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیں جس کی ان کے پاس کوئی واضح نشانی اور روشن دلیل نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کی دماغی کیفیت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم کو کیا ہوگیا ہے جو بےسند باتوں، توہمات اور جھوٹے معبودوں کو اپنا کار ساز بنائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس معبود حقیقی کو چھوڑ کر کسی انسان یا بتوں کے سامنے اپنا سرجھکائیں۔ یہ چند نوجوان جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شہزادے یا بادشاہ کے خادم تھے ان کی ان باتوں سے بت پرستوں کے ایوانوں میں زلزلے پڑگئے۔ بادشاہ وقت نے جو مسلمانوں کا سخت دشمن اور ان کو جڑ و بنیاد سے کھود ڈالنے میں ہر طرح کے ظلم و ستم کے لئے مشہور تھا اس نے ان نوجوانوں کو اپنے پاس بلایا۔ ان کو اپنے اور اپنے بتوں کے سامنے سجدہ کرنے کے لئے کہا مگر انہوں نے اس سے صاف انکار کردیا۔ بادشاہ نے نوجوانوں کی جذباتی باتیں سمجھ کر ان سے کہا کہ وہ اس انکار کے نتیجے میں سخت سزاؤں اور بدترین انجام پر اچھی طرح غور و فکر کرلیں۔ جب ان نوجوانوں نے اس بات کو اچھی طرح بھانپ لیا کہ ظالم بادشاہ سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے تو و ایک ایک کر کے پہاڑوں کی طرف نکل گئے تاکہ اپنے ایمان کی حفاظت کرسکیں۔ یہ چند نوجوان جو ایک دور سے سے ناواقف تھے حسن اتفاق کہ وہ ایک ہی پہاڑ پر جمع ہوتے گئے۔ جب تھوڑے عرصے کے بعد ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں لیکن اسلام اور ایمان کے جذبے میں یکساں نظر رکھتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور ساتھی بن گئے۔ ان میں سے ایک کے ساتھ ایک کتا بھی تھا جو ان کے ساتھ ساتھ لگا رہا۔ چونکہ ایک چوڑے غار کو ” کہف “ کہا جاتا ہے اور یہ اس جگہ تھا جس کو ” رقیم “ کہا جاتا تھا اس لئے قرآن کریم نے ان کو اصحاب کہف اور اصحاب رقیم فرمایا ہے۔ ان آیات اور واقعہ سے چند باتیں سامنے آتی ہیں جو قابل غور ہیں۔ (1) اصل چیز ایمان اور اس کی طاقت ہے جو انسان کو ایک خاص جرأت ، ہمت اور ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ کیونکہ جو شخص ایک اللہ سے ڈرتا ہے پھر وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ نبی کریم ﷺ کے جان نثاروں کی ایک طویل فہرست ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے کفر و شرک سے توبہ کر کے اپنے دلوں میں ایمان کی شمع کو روشن کرلیا تو وہ اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے ہر ظالم سے ٹکرا گئے اور آخر کار طوفانوں کے رخ کو موڑ کر رکھ دیا۔ ایمان ایک ایسی طاقت ہے کہ جب فرعون جیسے ظالم بادشاہ کے بھرے دربار میں بڑے بڑے جادوگروں نے حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر ایمان قبول کرلیا تب وہ فرعون کی طاقت و قوت اور اس کے ظالمانہ حربوں سے بےنیاز ہوگئے اور انہوں نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ہمیں کتنی ہی بڑی سے بڑی سزا دینے کا فیصلہ کرلے ہم اپنے ایمان سے نہ پھریں گے۔ چناچہ جب فرعون نے اس بات کی دھمکی دی کہ وہ ان کو پھانسی پر چڑھا دے گا۔ مخالف سمتوں سے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دے گا اور در بدر کی ٹھوکریں کھلا دے گا اس وقت ان تمام اہل ایمان نے صرف یہی ایک جواب دیا کہ اے فرعون جو تو کرسکتا ہے کرلے ہم کسی مصلحت کی وجہ سے اپنا ایمان نہ چھوڑیں گے اور ہم غیر اللہ کے سامنے سر نہ جھکائیں گے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح طریقہ پر سامنے آجاتی ہے کہ جو لوگ ایمان رکھنے کے باوجود حکمرانوں اور طاقت وروں کے سامنے جھک جاتے ہیں اور بہت سی مصلحتوں کا سہارا لے لیتے ہیں وہ ایک کمزور ایمان کے مالک ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے نور سے ان کے دل پوری طرح روشن ومنور نہیں ہوئے ہیں۔ (2) دوسری بات یہ سمجھ میں اتٓی ہے کہ ایمان صرف جرأت و ہمت ہی کا نام نہیں ہے بلکہ دو اجنبیوں کو آپس میں جوڑنے والا اور ملانے کا ذریعہ بھی ہے بلکہ دو مختلف خاندانوں اور قبیلوں کو آپس میں شیر و شکر کرنے والی چیز ایمان ہی ہے۔ یہ ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے جو دو اجنبیوں کو ایک کردیتا ہے۔ (3) تیسری بات یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والے توہمات، بےسند باتوں، بےبنیاد خیالات اور بےدلیل جذبات کے بجائے حق و صداقت کے پیکر ہوتے ہیں۔ (4) چوتھی بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص جھوٹے معبودوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے ایمان کی دولت کو گلے لگا لتا ہے تو کائنات کی قوتیں اس کی مددگار بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ ایمان اور عمل صالح پر قائم رکھے اور اپنے سوا ہر ایک کے خوف سے بےنیاز فرما دے۔ (آمین)
Top