Bayan-ul-Quran - Al-Kahf : 36
وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآئِمَةً١ۙ وَّ لَئِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا
وَ : اور ّمَآ اَظُنُّ : میں گمان نہیں کرتا السَّاعَةَ : قیامت قَآئِمَةً : قائم (برپا) وَّلَئِنْ : اور اگر رُّدِدْتُّ : میں لوٹایا گیا اِلٰى : طرف رَبِّيْ : اپنا رب لَاَجِدَنَّ : میں ضرور پاؤں گا خَيْرًا : بہتر مِّنْهَا : اس سے مُنْقَلَبًا : لوٹنے کی جگہ
اور میں یہ گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور اگر مجھے لوٹا ہی دیا گیا اپنے رب کی طرف تو میں لازماً پاؤں گا اس سے بھی بہتر پلٹنے کی جگہ
آیت 36 وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً یہ قیامت وغیرہ کی باتیں سب ڈھکوسلے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کوئی واقعہ حقیقت میں رونما ہونے والا ہے۔ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ لَاَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا قیامت و آخرت کا اول تو میں قائل ہی نہیں لیکن قیامت اگر ہوئی بھی تو میں بہرحال وہاں اس سے بھی بہتر زندگی پاؤں گا۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص اللہ کا منکر نہیں تھا مگر دنیوی مال و دولت اور مادی اسباب و ذرائع پر بھروسا کر کے شرک کا ارتکاب کر رہا تھا۔ یہ شخص یہاں پر جو فلسفہ بیان کر رہا ہے وہ اکثر مادہ پرست لوگوں کے ہاں بہت مقبول ہے۔ یعنی اگر مجھے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے خوشحالی و فارغ البالی سے نواز رکھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ مجھ سے خوش ہے۔ اسی لیے اس نے مجھے خصوصی صلاحیتیں عطا کی ہیں جن کی وجہ سے میں نے یہ اسباب و وسائل اکٹھے کیے ہیں۔ چناچہ وہ آخرت میں بھی ضرور اپنی نعمتوں سے مجھے نوازے گا۔ اور جو لوگ یہاں دنیا میں جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں وہ آخرت میں بھی اسی طرح بےیارو مددگار ہوں گے۔
Top