Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 159
وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر لَيُؤْمِنَنَّ : ضرور ایمان لائے گا بِهٖ : اس پر قَبْلَ : پہلے مَوْتِهٖ : اپنی موت وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور قیامت کے دن يَكُوْنُ : ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : گواہ
اور اہل کتاب میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہے گا جو حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ کی تصدیق نہ کرلے اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ اہل کتاب کے خلاف گواہ ہوں گے ۔2
2 اور اہل کتاب میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے گا جو عیسیٰ کی طبعی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ کی صدیق نہ کرلے اور ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ ان اہل کتاب کے خلاف اور ان منکرین کے انکار پر گواہی دیں گے (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ ابھی زندہ ہیں جب یہود میں دجال پیدا ہوگا تب اس جہان میں آ کر اس کو ماریں گے اور یہود و نصاریٰ سب ان پر ایمان لاویں گے کہ یہ مرے نہ تھے (موضح القرآن) مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے اتریں گے تو اس وقت اہل کتاب میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہ رہے گا جو ان پر ایمان نہ لائے یہود اس امر کی تصدیق کریں گے کہ ان کے قتل کا واقعہ غلط تھا اور یہ مصلوب نہیں ہوئے تھے اور نصاریٰ بھی اس پر ایمان لائیں گے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سرے سے نہ تھے اور حضرت عیسٰی جو حال دیکھیں گے قیامت کے دن اس کی شہادت دیں گے اور فرمائیں گے کہ میں نے ان لوگوں سے یہ نہیں کہا تھا کہ مجھ کو خدا کا بیٹا یا خدا کہو۔ جیسا کہ سورة مائدہ کے آخر میں انشاء اللہ تعالیٰ آجائے گا نزول عیسیٰ ابن مریم کے متعلق اس کثرت سے احادیث مردی ہیں کہ بعض لوگ تو ان احادیث کے متواتر ہونے کے قائل ہیں نبی کریم ﷺ نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوگا وہ ایک منصف فیصلہ کرنے والا ہوگا صلیب کو توڑ دے گا اور سوئر کو قتل کرے گا جزایہ کو ختم کر دے گا اس کے زمانے میں مال کس اس قدر کثرت ہوگی کہ مال کا کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا یہاں تک کہ اس دور میں ایک سجدہ دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوگا۔ دوسری روایتوں میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا حج اور عمرہ کرنا بھی مذکور ہے بعض میں مسیح ابن مریم کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس کے اور میرے درمیان کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔ بعض روایات میں نزول من السمآء کا لفظ بھی سے غرض بیشمار احادیث ہیں جن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری اور ان کی دعوت الی الاسلام اور چالیس سال تک ان کا دنیا میں رہنا پھر وفات پانا دجال کو ختم کرنا وغیرہ ان سب باتوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر سے حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب نے آثار قیامت میں ان روایات کی شرح کی ہے اور نواب صدیق حسن خاں نے بھی اس سلسلے میں کئی رسالے مرتب فرمائے ہیں۔ بہرحلا ! وہ زمانہ بڑی خیر و برکت کا زمانہ ہوگا اور وہی دور ہوگا کہ جب لوگوں کو ملت اسلامیہ کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا بعض حضرات نے آیت زیر بحث کا یوں ترجمہ کیا ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی کتابی ایسا نہیں ہے جو اپنے مرنے سے ذرا پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان نہ لے آتا ہو۔ پھر بعض مفسرین نے تو اہل کتاب کو عام لیا ہے کہ خواہ وہ یہودی ہوں یا نصرانی اور بعض نے صرف یہود مراد لئے ہیں اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت سے لے کر آخر زمانہ تک کوئی یہودی ایسا نہیں ہے جو مرنے سے ذرا پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کی تصدیق نہ کرتا ہو خواہ وہ مرنے والا تلوار سے قتل کیا اجئے خواہ دریا میں غرق ہو کر مرے خواہ کہیں سے گر کر مرے بہرحال مرنے سے پہلے ضرور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کی تصدیق کرتا ہے اگرچہ یہ تصدیق اس کو نافع نہیں ہوتی۔ اس تفسیر کی مئوید حضرت ابی بن کعب کی ایک قرأت بھی ہے ان کی قرأت میں ہے ۔ وان من اھل الکتاب الالیومنن بہ قبل موتھم بہرحال سلف میں سے اکثر لوگ اس معنی کے قائل ہیں کہ اہل کتاب کا ہر فرد یا یہود کا ہر فرد اپنے مرنے سے ذرا پہلے جب وہ عالم نظر آجاتا ہے تو حضرت عیسیٰ کی نبوت کا اعتراف اور ان کے نبی ہونے کی تصدیق کرتا ہے ۔ (واللہ اعلم) ابن جریر نے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی کتابی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے محمد ﷺ پر ایمان نہ لے آتا ہو یہ قول حضرت عکرمہ سے نقل کیا ہے اور آخر میں ابن جریر نے کہا ہے کہ ان سب اقوال میں پہلا قول صحیح ہے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری کے وقت کوئی کتابی ایسا نہ ہوگا جو ان کی تصدیق نہ کرے۔ حضرت خاتم المفسرین مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) کا رجحان طبع یہ ہے کہ وہ درمیانی قول کو راجح سمجھے ہیں اور انہوں نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ ہر کتابی اپنی موت سے ذرا پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لے آتا ہے ۔ اس بحث میں رسالہ التحقیق الصریح فی حیات المسیح بہت جامع ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) اب آگے یہود کی بعض اور سزائوں کا ذکر ہے اوپر جو سزائیں مذکور ہوئیں وہ تکوینی تھیں جو وقتاً فوقتاً ان پر نازل ہوتی رہیں اور اخروی سزا کا ذکر بھی تھا اب آگے جو سزائیں مذکور ہیں وہ تشریعی ہیں اور ان کے ساتھ بھی آخرت کا عذاب مذکور ہے جس قدر شرارتیں ان یہود کی بڑھتی گئیں اسی قدر سزائوں میں اضافہ ہوتا گیا حتیٰ کہ جو چیزیں ان پر حلال تھیں بعض کو ان میں سے ان کی شرارتوں کے باعث حرام کردیا گیا چناچہ آگے کی آیت کا تعلق بھی فما نقضھم کے ساتھ ہے بیچ میں جو یہود کے دعاوی کا رد آگیا تھا اس کو علیحدہ کر کے اصل مضمون کے ساتھ ملا کر مطلب سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو مطلب جلد سمجھ میں آجائے گا اور یہ بات ہم کئی دفعہ عرض کرچکے ہیں کہ قرآن کریم بعض مناسبت سے بعض باتوں پر بحث کرتا چلا جاتا ہے لیکن اصل مقصد اور اصل بحث اس کے پیش نظر رہتی ہے درمیان مباحث سے قطع نظر کرلیا جائے تو مطلب مسلسل ہوتا ہے اسی طرح یہاں بھی ہے کہ اصل یہود کی شرارت اور اس شرارت پر ان کی سزائیں مذکور ہیں اور یہ ایک مسلسل مضمون ہے جو اوپر سے چلا آ رہا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top