Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 159
وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر لَيُؤْمِنَنَّ : ضرور ایمان لائے گا بِهٖ : اس پر قَبْلَ : پہلے مَوْتِهٖ : اپنی موت وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور قیامت کے دن يَكُوْنُ : ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : گواہ
اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا196 اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا،197
سورة النِّسَآء 196 اس فقرے کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ میں دونوں کا یکساں احتمال ہے۔ ایک معنی وہ جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ ”اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہ لے آئے“۔ اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ عیسائی بھی ہوں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ مسیح کی طبعی موت جب واقع ہوگی اس وقت جتنے اہل کتاب موجود ہوں گے وہ سب ان پر (یعنی ان کی رسالت پر) ایمان لاچکے ہوں گے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ تمام اہل کتاب پر مرنے سے عین قبل رسالت مسیح کی حقیقت منکشف ہوجاتی ہے اور وہ مسیح پر ایمان لے آتے ہیں، مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ ایمان لانا مفید نہیں ہو سکتا۔ دونوں معنی متعدد صحابہ، تابعین اور اکابر مفسرین سے منقول ہیں اور صحیح مراد صرف اللہ ہی کے علم میں ہے۔ سورة النِّسَآء 197 یعنی یہودیوں اور عیسائیوں نے مسیح ؑ کے ساتھ اور اس پیغام کے ساتھ، جو آپ لائے تھے، جو معاملہ کیا ہے اس پر آپ خداوند تعالیٰ کی عدالت میں گواہی دیں گے۔ اس گواہی کی کچھ تفصیل آگے سورة مائدہ کے آخری رکوع میں آنے والی ہے۔
Top