Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 159
وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر لَيُؤْمِنَنَّ : ضرور ایمان لائے گا بِهٖ : اس پر قَبْلَ : پہلے مَوْتِهٖ : اپنی موت وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور قیامت کے دن يَكُوْنُ : ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : گواہ
اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہے جو اس کی موت سے پہلے اس کا یقین نہ کرلے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا
وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا۔ وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ سے مراد یہود و نصاری دونوں ہیں :۔ وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ کا اسلوب بیان تعمیم کو ظاہر کررہا ہے، یعنی یہ یہود و نصاری دونوں گروہوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ اوپر سے ذکر یہود ہی کا چلا آرہا تھا لیکن چونکہ جملہ معترضہ میں، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، نصاری کی حماقت کا بھی ذکر آگیا تھا اس وجہ سے ان کے حوالے کے لیے بھی تقریب پیدا ہوگئی اور یہاں جو بات بیان ہوئی ہے وہ دونوں گروہوں سے بحیثیت گروہ کے متعلق ہے، بحیثیت افراد کے نہیں۔ " ایمان " کا لفظ یقین کرنے کے معنی میں : لیؤمنن میں لام، تاکید اور قسم کا ہے اور ایمان کا لفظ یہاں یقین کرنے کے معنی میں ہے۔ دین میں معتبر ایمان صرف وہ ہے جو یقین، تصدیق اور اقرار تینوں اجزا پر مشتمل ہو۔ اس کے علاوہ ایک وہ ایمان ہے جس کے اندر یقین اور تصدیق کے اجزا تو نہیں پائے جاتے لیکن اظہار و اقرار کا جزو پایا جاتا ہے، یہ منافقین کا ایمان ہے۔ اسی طرح ایک وہ ایمان بھی ہے جس کے اندر یقین تو پایا جاتا ہے لیکن اس کے اندر تصدیق اور اقرار کے اجزا مفقود ہوتے ہیں یہ متکبرین اور متمردین کا ایمان ہے۔ ان پر حق کا حق ہونا تو بالکل واضح ہوجاتا ہے لیکن وہ اپنی رعونت اور شرارت کی وجہ سے اس کی تصدیق و اقرار سے گریز کرتے ہیں اور اپنی اس شرارت کو مختلف بہانوں کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سورة نمل میں اسی گروہ کا ذکر ہوا ہے۔ وجحدو بھا واستیقنتہا انفسہم ظلما وعلوا : اور ان لوگوں نے ظلم اور گھمنڈ کے سبب سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کرلیا تھا۔ اسی کے تحت وہ ایمان بھی ہے جو غرق ہوتے وقت فرعون لایا تھا۔ ہرچند اس کے ایمان میں ایمان کے تمام اجزا موجود تھے لیکن جو ایمان پانی سر سے گزرچکنے کے بعد لایا جائے اس ایمان کا دین میں کوئی درجہ نہیں ہے۔ آیت زیر بحث میں ہمارے نزدیک، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ایمان سے مراد یقین ہے۔ " لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ " میں ضمیر کا مرجع : لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ اور قبل موتہ میں پہلی ضمیر کا مرجع ہمارے نزدیک قرآن مجید ہے اور دوسری کا مرجع آنحضرت ﷺ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آج یہ اہل کتاب قرآن اور نبی کی صداقت تسلیم کرنے کے لیے یہ شرط ٹھہراتے ہیں کہ وہ آسمان سے کتاب اترتی ہوئی دکھائیں تب وہ یقین کریں گے کہ قرآن فی الواقع اللہ کی کتاب ہے اور محمد ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں اور اس حیلے سے وہ ان تمام عقلی، نقلی فطری اور تاریخی دلائل کو نظر انداز کر رہے ہیں جو قرآن اور پیغمبر کی صداقت کے ثبوت میں موجود ہیں لیکن وہ وقت بھی دور نہیں ہے جب یہ یہود اور نصاری قرآن اور پیغمبر کی کہی ہوئی ایک ایک بات کو واقعات کی شکل میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور قرآن ان کے لیے جس رسوائی و نامرادی اور جس ذلت و شکست کی خبر دے رہا ہے وہ پیغمبر کے دنیا سے اٹھنے سے پہلے پہلے اس طرح ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی کہ اس کو جھٹلانا ان کے لیے ممکن نہیں رہے گا اگرچہ ایمان کی سعادت ان کو یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوگی۔ یہ مجرد خبر نہیں بلکہ تہدید ہے : یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ جملہ قسمیہ ہے اس وجہ سے اس کو مجرد خبر یہ جملہ کے مفہوم میں لینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا صرف یہ مفہوم نہیں ہے کہ پیغمبر کے دنیا سے اٹھنے سے پہلے پہلے یہ لوگ قرآن کا یقین کرلیں گے بلکہ اس کے اندر تہدید اور وعید بھی ہے۔ یعنی آج جو باتیں دلیل سے انہیں سمجھائی جا رہی ہیں لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہیں کل واقعات کی شکل میں جب ان کے سامنے آجائیں گی تب یہ کیا کریں گے، اس وقت تو انہیں ماننی ہی پڑیں گی اگرچہ وہ زبانوں سے لاکھ انکار کرتے رہیں۔ عکرمہ کی رائے : یہاں یہ بات یاد رکھنئے کی ہے کہ سلف میں سے عکرمہ پہلی ضمیر کا مرجع آنحضرت ﷺ کو مانتے ہیں لیکن عام طور پر لاگوں نے اس بعد کے سبب سے جو ایک طویل جملہ معترضہ نے پیدا کردیا ہے، اس قول کو اہمیت نہیں دی، حالانکہ جملہ معترضہ سے جو بعد پیدا ہوتا ہے وہ قابل لحاظ نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اس سے صرفِ نظر کر کے سلسلہ کلام کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی شہادت دنیا اور آخرت دونوں میں : وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا، یہ اس شہادت کا ذکر ہے جو نبی ﷺ قیامت کے دن ان تمام لوگوں پر دیں گے جن پر آپ نے اس دنیا میں دین حق کی شہادت دی ہے۔ اس شہادت کا ذکر اسی سورة کی آیت 41 میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم نے وضاحت کے ساتھ اس پر بحث کی ہے۔ یہ شہادت اگرچہ تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں پر دیں گے، چناچہ حضرت مسیح جو شہادت دیں گے اس کا ذکر بھی مائدہ کی آیات 116۔ 17 میں ہوا ہے لیکن آنحضرت ﷺ چونکہ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ نے یہود، نصاری اور اہل عرب سب پر یہ واضح فرمایا ہے کہ اللہ کا اصل دین کیا ہے اس وجہ سے آپ ہی کا یہ منصب ہے کہ آپ قیامت کے دن یہ بتائیں کہ آپ نے لوگوں کو اللہ کی طرف سے کیا بتایا اور آپ کی اسی شہادت سے لوگوں پر حجت قائم ہوگی۔ یہ جملہ بھی ہمارے نزدیک اسی تہدید ووعید کا حامل ہے جس کا حامل پہلا جملہ ہے۔ یعنی پیغمبر ﷺ کی صداقت وحقانیت اس دنیا میں بھی ان اہل کتاب پر اس طرح واضح ہوجائے گی کہ ان کے لیے مجالِ انکار باقی نہ رہے گی اور آخرت میں بھی آپ شہادت دیں گے کہ یہود و نصاری کی ایک ایک ضلالت پر آپ نے ان کو اچھی طرح متنبہ کردیا تھا، ان تنبیہات کے بعد بھی اگر یہ اپنی انہی گمراہیوں میں پڑے رہے تو یہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے، ان پر حجت تمام ہوچکی تھی۔
Top