Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 159
وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر لَيُؤْمِنَنَّ : ضرور ایمان لائے گا بِهٖ : اس پر قَبْلَ : پہلے مَوْتِهٖ : اپنی موت وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور قیامت کے دن يَكُوْنُ : ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : گواہ
اور دیکھو اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے اس پر یقین نہ لے آئے ایسا ہونا ضروری ہے اور قیامت کے دن وہ ان پر شہادت دینے والا ہو گا
اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے اس پر یقین نہ لے آئے : 250: اس آیت کے معنی ایک سے زیادہ سے کئے گئے ہیں اور جس طریقہ پر سمجھ لئے جائیں صحیح اور درست ہیں اگرچہ بعض میں ابہام زیادہ ہے۔ 1 ۔ اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہوگا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا۔ 2 ۔ اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح (علیہ السلام) پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا۔ 3 ۔ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے نبی اعظم و آخر ﷺ کی صداقت پر ایمان لے آئے گا اور نبی کریم ﷺ قیامت کے دن شہادت دیں گے کہ اے اللہ ! میں نے انہیں پیغام حق پہنچا دیا تھا لیکن انہوں نے نہیں مانا۔ ” قبل موتہ ــ“ کی ضمیر کا مرجع کون ؟ بعض نے کہا ہے کہ اس کا مرجع کتابی ہے۔ یعنی ہر اہل کتاب پر مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مقام نبوت و عبدیت منکشف ہوجاتا ہے اور اس پر ایمان لے آتا ہے کہ آپ اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ پھر اس کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے کہ یہ ایمان ان کے لئے مفید ثابت نہیں ہوتا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ مرتے وقت کا ایمان ہوتا ہے جو مقبول نہیں ہوتا البتہ ان کو افسوس دلانے کے لئے اس بات سے جب پردہ ہٹایا جاتا ہے تو وہ افسوس و حسرت میں مبتلا ہوتے ہیں جو ایک طرح کا عذاب ہی ہوتا ہے ‘ پھر یہ کہ کتابی سے کیا مراد ہے ؟ یہودی یا عیسائی یا دونوں ۔ پھر تفاسیر میں صرف یہودی مراد بھی لئے گئے ہیں ‘ اور دونوں کو مراد لے کر تفسیر کی گئی ہے کیونکہ غلو دونوں ہی نے کیا ہاں ! ایک تفریط کے مرتکب ہوئے ہیں جیسے یہودی تو دوسرے افراط کے جیسے عیسائی اس لئے کہا گیا ہے چونکہ صحیح ایمان دونوں ہی کا نہیں ہے اس لئے دونوں گروہ پر موت کے وقت وہ حالت جو حقیقی ہے منکشف کی جاتی ہے اور تیسرے مفہوم کے مطابق بھی تفسیر بیان کی گئی ہے اور اس پر دلائل بھی قائم کئے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” قبل موتہ “ میں پہلی ضمیر کا مرجع قرآن کریم ہے اور دوسری محمد رسول اللہ ﷺ ہیں مطلب یہ ہے کہ آج یہ اہل کتاب قرآن کریم اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی صداقت تسلیم کرنے کے لئے یہ شرط ٹھہراتے ہیں کہ وہ آسمان سے کتاب اترتی ہوئی دکھائیں تب وہ یقین کریں گے کہ قرآن کریم فی الواقع اللہ کی کتاب ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں اور اس حیلے سے وہ تمام عقلی ‘ نقلی ‘ فطری اور تاریخی دلائل کو نظر انداز کر رہے ہیں جو قرآن کریم اور پیغمبراسلام ﷺ کی صداقت کے ثبوت میں موجود ہیں لیکن وہ وقت بھی دور نہیں ہے جب یہ یہود اور نصاریٰ قرآن کریم اور پیغمبر اسلام کی کہی ہوئی ایک ایک بات کو واقعات کی شکل میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور قرآن کریم ان کے لئے جس رسوائی و نامرادی اور جس ذلت و شکست کی خبر دے رہا ہے وہ پیغمبر کے دنیا سے اٹھنے سے پہلے پہلے اس طرح ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی کہ اس کو جھٹلانا ان کے لئے ممکن نہیں رہے گا اگرچہ ایمان کی سعادت یہ سب کچھ دیکھ لینے کے بعد حاصل نہ ہوگی۔ اس طرح ” لیومنن بہ “ میں جو ایمان لانے کے متعلق خبر ہے وہ مجرد خبر ہی نہین بلکہ بطور دلیل ہے اور اس کا مطلب ایمان بالیقین نہیں بلکہ ایمان بالمشاہدہ یعنی وہ آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس کا انکار ممکن نہیں رہے گا۔ دل سے اس پر یقین اگرچہ وہ نہ رکھتے ہوں۔ یاد رہے کہ سلف میں حضرت عکرمہ پہلی ضمیر کا مرجع آنحضرت ﷺ کو مانتے ہیں لیکن مفسرین نے اس بعد کے سبب جو ایک طویل جملہ معترضہ نے پیدا کردیا ہے اس قول کو کوئی اہمیت نہیں دی حالانکہ جملہ معترضہ سے جو بعد پیدا ہوتا ہے وہ قابل لحاظ نہیں ہوتا ایسی صورت میں اس سے صرف نظر کر کے سلسلہ کلام کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ قرآن کریم کا یہ ارشاد کہ ” قیامت کے دن وہ ان پر شہادت دینے والا ہوگا۔ “ یہ اس شہادت کا ذکر ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ قیامت کے روز ان تمام لوگوں پر دیں گے جن پر آپ ﷺ نے اس دنیا میں دین حق کی شہادت دی ہے۔ اس شہادت کا ذکر اس سورة النساء کی آیت 41 میں گزر چکا ہے اور اس آیت کے تحت اس کی تفصیل بھی بیان کردی گئی ہے۔ یہ شہادت بلاشبہ سارے انبیاء کرام اپنی اپنی امتوں پر دیں گے اور سیدنا مسیح (علیہ السلام) جو شہادت اپنی امت پر دیں گے اس کا مخصوص ذکر بھی سورة مائدہ کی آیت 112 ‘ 117 میں کیا گیا ہے لیکن نبی اعظم و آخر ﷺ چونکہ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ ﷺ نے یہود و نصاریٰ اور دوسری ساری امتوں پر وہ عربی ہوں یا عجمی سب پر واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اصل دین کیا ہے او وجہ سے آپ ﷺ ہی کا یہ منصب ہے کہ آپ ﷺ قیامت کے دن یہ بتائیں کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا بتایا اور آپ ﷺ کی اس شہادت سے لوگوں پر حجت قائم ہوگی جیسا کہ اس کا ذکر پیچھے گزر چکا اور اس طرح گویا آپ ﷺ کی شہادت دنیا و آخرت دونوں جگہ اہل کتاب کے دونوں فریق پر قائم ہوجائے گی اور ان کے لئے مجال انکار باقی نہ رہے گا۔ اللھم صلی علی محمد وال محمد۔
Top