Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 16
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهِ : اپنی قوم کو اعْبُدُوا : اتم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاتَّقُوْهُ : اور اس سے ڈرو ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
اور ابراہیم کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے
قصہء دوم ابراہیم (علیہ السلام) باقوم اور قال اللہ تعالیٰ و ابراہیم اذ قال لقومہ اعبدوا اللہ واتقوہ۔۔۔ الی۔۔۔ وانہ فی الاخرۃ لمن الصلحین۔ یہ دوسرا واقعہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ابتلا کا ہے کہ دشمنوں نے آگ میں ڈالا اور جلا وطن کیا اور اس کے علاوہ ابراہیم (علیہ السلام) کو طرح طرح کے ابتلا اور امتحان پیش آئے۔ جن میں سے ذبح ولد کا واقعہ ابتلا عظیم تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے سام کی اولاد میں سے ہیں ان میں اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان آٹھ واسطے ہیں۔ سینکڑوں برس کا فاصلہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ کے لوگ بت پرستی میں بھی مبتلا تھے اور صابی مذہب رکھتے تھے یعنی عناصر اور کواکب اور روحانیات کی مورتیں بنا کر ان کو پوجتے تھے اور ان کو دنیاوی سامان حیات کا مالک اور متصرف جانتے تھے اور آخرت کے منکر تھے اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اولا دلائل اور براہین سے توحید کو سمجھایا اور خالص اللہ کی عبادت اور تقویٰ کا ان کو حکم دیا اور چونکہ یہ لوگ آخرت اور حشر ونشر کے بالکل منکر تھے اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ مسئلہ بھی ان کو دلیل سے سمجھایا اور اولم یروا کیف یبدیء اللہ الخلق ثم یعیدہ سے مبدا ومعاد اور حشر ونشر کے مسئلہ کو واضح فرمایا کہ جو چیز خود بخود وجود میں نہیں آسکتی وہ خود بخود باقی نہیں رہ سکتی ہر حادث کے لئے فنا ضروری ہے اور ہر حادث کا وجود دو عدموں کے درمیان میں گھرا ہوا ہے ایک عدم سابق اور ایک عدم لاحق۔ انسان کا اور حیوان کا اور شجر وحجر کا ہر لمحہ تغیر وتبدل اس کے حدوث کی دلیل ہے اور آنے والی گھڑی فناء کی گھنٹی ہے عالم کے تغیرات اور انقلابات بزبان حال اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہم وجود کی پتلیاں ہیں کوئی پوشیدہ دست قدرت ہم کو اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہے اور ہمارا تماشہ دکھلا رہا ہے بڑا ہی نادان ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ان پتلوں کا مادہ اور ایتھر ہی ان کو نچا رہا ہے اور دنیا کو ان کا تماشہ دکھا رہا ہے۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نوح (علیہ السلام) کے ابتلا کا اور ان کی قوم کے غرق ہونے کا ذکر فرمایا اب ابراہیم (علیہ السلام) کے ابتلا کا ذکر فرماتے ہیں کہ پہلا ابتلاء ابتلاء غرق تھا اور یہ ابتلا حرق ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو ابراہیم (علیہ السلام) کو جن کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا اور ان کا امتحان کیا جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا جو بابل کے رہنے والے تھے اے قوم ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے قہر اور عذاب سے ڈرو۔ حق جل شانہ کی اطاعت اور عبادت اور تقویٰ اور پرہیزگاری ہی سفینہ نجات ہے اللہ کی عبادت کرو اور دریائے قہر کی غرقابی سے ڈرو۔ عبادت اور تقویٰ کی کشتی میں سوار ہو کر ہی غرقابی سے بچ سکتے ہو۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں کچھ علم اور فہم ہے جس کے ذریعہ تم خیر وشر اور نفع اور ضرر کو سمجھ سکو لیکن تم علم اور عقل سے عاری نظر آتے ہو اس لئے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پرستش کرتے ہو جن کی دونیت یعنی حقارت تمہارے سامنے ہے کہ تم نے ان کو بسولوں سے تراش کر بنایا ہے اور ظاہر ہے کہ خود تراشیدہ چیز اول تو غایت درجہ حقیر ہے اور پھر یہ کہ وہ تراشیدہ چیز اپنے تراشنے والے کے سامنے بالکل بےبس اور عاجز ہے اور اپنی تراشیدہ چیز کو اپنا معبود بنانا غایت درجہ کی حماقت ہے اور درحقیقت تم جھوٹ بناتے ہو کہ اپنی تراشیدہ چیز کا نام خدا رکھ لیا اور ان سے رزق مانگنا شروع کردیا۔ تحقیق جن کو تم سوائے خدا کے معبود بنائے ہوئے ہو اور ان سے تم رزق مانگتے ہو وہ تمہیں رزق دینے پر قدرت نہیں رکھتے جو خود کسی چیز کا مالک نہ ہو وہ دوسرے کو کیا دے دے گا پس رزق اللہ کے پاس سے طلب کرو جو آسمان اور زمین کے خزانوں کا مالک ہے اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو جس نے تم کو یہ نعمتیں عطا کیں مطلب یہ ہے کہ جو روزی دیتا ہے اسی کی بندگی کرو اور اسی کا حق مانو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اس وقت ہر شخص کو اس کی عبادت کا اور اس کے شکر کا صلہ ملے گا۔ اور کفر اور شرک سے باز پرس ہوگی۔ روزی دینے والا تو اللہ ہے اور میں اس کا رسول ہوں اس کا پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں تم کو چاہئے کہ مجھ پر ایمان لاؤ اور اگر تم میری تصدیق کرتے ہو تو تم کو سعادت دارین حاصل ہوگی اور اگر تم میری تکذیب کرتے ہو تو میرا کوئی ضرر نہیں۔ تحقیق تم سے پہلے بھی بہت سی امتیں اپنے پیغمبروں کی تکذیب کرچکی ہیں اور ان کی تکذیب سے پیغمبروں کو کوئی ضرر نہیں پہنچا۔ بلکہ خود انہی کو ضرر پہنچتا اور تباہ ہوئے اور نہیں ہے رسول کے ذمہ مگر پیغام کو صاف طور پر پہنچا دینا۔ اب ماننا نہ تمہارا کام ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اول توحید کو واضح کیا جو دین کی پہلی اصل ہے اور پھر وما علی الرسول الا البلاغ المبین۔ سے رسالت کو بیان کیا جو دین کی دوسری اصل ہے اب آگے حشر ونشر کو بیان کرتے ہیں جو دین کی تیسری اصل ہے فرماتے ہیں کیا یہ لوگ جو خدا کی طرف لوٹنے کے منکر ہیں کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مخلوق کو بار اول پیدا کرتا ہے کہ نیست سے اس کو ہست کرتا ہے پھر وہی خدا ان کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا پہلی زندگی کو تو تم نے دیکھ لیا۔ اب دوسری زندگی کو اس پر قیاس کرلو۔ کیا دیکھتے نہیں کہ بدن پر دمل پھوڑا پھنسی نمودار ہوتا ہے اور اس حصہ کا گوشت اور پوست زائل ہوجاتا ہے پھر چند روز کے بعد دوسرا گوشت اور پوست نمودار ہوجاتا ہے اسی طرح جسم روح کا لباس ہے جو مرنے کے بعد بوسیدہ ہوجاتا ہے قیامت کے دن اسی قسم کا دوسرا نیا لباس پہنا دیا جائے گا۔ دمبدم گرشود لباس بدل شخص صاحب لباس راچہ خلل بیشک یہ بات اللہ پر بہت آسان ہے۔ ایک دلیل تو یہ ہوئی۔ اب آگے دوسری دلیل بیان ہوتی ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ اے ابراہیم (علیہ السلام) آپ اپنی قوم سے کہہ دیجئے کہ اپنی ذات کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کی پیدائش میں بھی غور کرو اور تم اگر دوبارہ زندگی میں کچھ تردد رہے تو زمین میں چلو پھرو۔ پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے زمین میں قسم قسم کی مخلوق کو کس طرح پہلی بار پیدا کیا ہے قسم قسم کے درخت فنا ہوجاتے ہیں اور پھر دوسری بار پیدا ہوجاتے ہیں جن کا شب وروز تم مشاہدہ کرتے ہو تو سمجھ لو کہ پھر پچھلی بار بھی اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرے گا۔ دوسری زندگی کو پہلی زندگی پر قیاس کرلو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے اس کی قدرت کاملہ کے اعتبار سے پہلی بار پیدا کرنا اور دوسری بار سب برابر ہے۔ بلاشبہ وہی اپنی قدرت کاملہ سے سب کو دوبارہ زندہ کرے گا پھر جس کو چاہے گا عذاب دے گا اور جس پر چاہے گا رحمت کرے گا وہ مالک اور مختار ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور موت اس کا نمونہ اور پیش خیمہ ہے کسی میں یہ قدرت نہیں کہ موت کو ٹلا سکے اور تمہاری عاجزی اور درماندگی کا یہ حال ہے کہ تم آسمان میں ہو یا زمین میں ہو خدا تعالیٰ کو اپنی پکڑنے سے عاجز نہیں کرسکتے۔ تمام مخلوق اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور اس کے پیدا کردہ آسمان و زمین میں محصور ہے اس کے احاطہ سے نہیں نکل سکتی اور تمہارے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی حمایتی ہے اور نہ کوئی مددگار ہے اور جو لوگ اللہ کی آیتوں کے اور قیامت کے دن کی پیشی سے منکر ہوئے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو میری رحمت سے ناامید ہوئے اور ایسے ہی لوگوں کے واسطے دردناک عذاب ہے۔ یہاں (ف 1) تک ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنی قوم کو نصیحت کا ذکر تھا جس میں انہوں نے دین کے تین اصول۔ توحید اور رسالت اور قیامت کو دلائل اور براہین سے واضح کردیا اور ان پر حجت قائم کردی اب آگے ان کی قوم کا جواب ذکر کرتے ہیں۔ قوم جب ابراہیم (علیہ السلام) کی ان معقول باتوں اور دلائل اور براہین کا جواب نہ دے سکی تو قوت اور طاقت کے استعمال پر اتر آئی کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے تاکہ قصہ ہی تمام ہو چناچہ آئندہ آیات میں اسی کا ذکر ہے۔ قوم کا جواب پس جب ابراہیم (علیہ السلام) قوم کو نصیحت کرچکے سو قوم ابراہیم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ یہ کہنے لگے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو قتل کردو یا اس کو آگ میں جلادو اور دیکھو کہ اس کا معبود ہم کو جلانے سے کیسے عاجز کرتا ہے مقصد یہ تھا کہ اگر قتل کر ڈالو تو ہمیشہ کے لئے اس شخص سے بےفکری ہوجائے اور اگر آگ میں ڈالو تو ممکن ہے کہ آگ سے ڈر کر اپنی بات سے رجوع کرے۔ غرض یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت وموعظت کا اثر اس بدبخت قوم پر یہ ہوا کہ قتل کرنے اور جلانے کے مشورے کرنے لگے آخری مشورہ یہ ٹھہرا کہ ان کو جلا دیا جائے۔ بڑی عظیم آگ تیار کی اور منجنیق کے ذریعہ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا پس اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو آگ سے نجات دی اور آگ کے ضرر سے ان کو محفوظ کردیا کہ وہ آگ ان کے حق میں برد وسلام اور باغ و بہار ہوگئی۔ بیشک اس واقعہ میں خدا کی قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو خدا کی قدرت پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنی قدرت سے آگ کو بجھایا اور اس کو بردو سلام اور گلزار اور باغ و بہار بنایا۔ معلوم ہوا کہ آگ بذات خود کسی کو جلانے والی نہیں جب تک خدا کا حکم نہ ہوجائے آگ میں حرارت اور پانی میں برودت کا جو کا اثر نظر آتا ہے وہ آگ اور پانی کی ذات اور طبیعت کا ذاتی اقتضا نہیں بلکہ وہ خدا کی قدرت اور مشیت کا کرشمہ ہے بحر قلزم اپنی ذات سے اور اپنی طبیعت سے حقیقت واحدہ اور ماہیت بسیط تھا مگر وہی بحر قلزم جب موسیٰ (علیہ السلام) گزرے تو رحمت بن گیا اور فرعون اور فرعونیوں کے لئے مصیبت اور ہلاکت بن گیا۔ یہ کسی مادہ اور طبیعت ایتھر اور نیچر کا اقتضا نہ تھا بلکہ قدرت خدا وندی کا کرشمہ تھا۔ اگر بتوں میں کچھ قدرت ہوتی تو آگ کو ابراہیم (علیہ السلام) پر بردوسلام نہ بننے دیتے مگر وہ بدبخت ان آثار قدرت اور کرشمہائے کرامت کو دیکھ کر ایمان نہ لائے اور یہ قصہ سورة انبیاء میں مفصل گزر چکا ہے۔ 1 حافظ ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار کیا کہ یہ تمام کلام از اول تا آخر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کلام ہے۔ کما قال ابن کثیر والظاہر من السیاق ان کل ھذا من کلام ابراہیم الخلیل (علیہ السلام) یحتج علیہم لا ثبات المعاد لقولہ بعد ھذا کلہ فما کان جواب قومہ الخ۔ واللہ اعلم۔ ابن کثیر ص 408 ج 3۔ بالآخر جب ابراہیم (علیہ السلام) اس آگ سے صحیح سالم نکل آئے تو پھر قوم کو نصیحت فرمائی اور کہا اے قوم کے لوگوں تم نے خدا کے سوا ان بتوں کو اس لئے اختیار نہیں کیا کہ وہ حق چیز ہے بلکہ اس لئے اختیار کیا ہے تاکہ تمہارا یہ باہمی اتحاد اور اتفاق دنیاوی زندگانی میں محبت کا ذریعہ بنے اور اس اتفاق سے آپس میں میل ملاپ اور رشتہ اخوت ومودت قائم رہے کیونکہ دنیا میں ایک ملت و مذہب والے اور ایک نظریہ رکھنے والے باہم متفق ہوتے ہیں لیکن یہ باہمی محبت دنیاوی زندگی تک محدود رہتی ہے۔ پھر قیامت کے دن یہ محبت مبدل بعداوت ہوجائے گی اس روز تم میں سے بعض بعض کا کافر اور منکر ہوگا یعنی اس روز ایک دوسرے سے بیزار ہوگا اور تم میں کا بعض بعض پر لعنت کرے گا اور پیروی کرنے والے اپنے سرداروں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور یہ مشرکین آج جن کے پیرو اور دوست بنے ہوئے ہیں قیامت کے دن ان سے پناہ مانگیں گے اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو ان کے حال اور مآل سے آگاہ کردیا دیکھ لو کہ تمام نصاریٰ تثلیث پر متفق ہیں اور تمام مشرکین بت پرستی پر متفق ہیں سو یہ اتفاق حق اور حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ آبائی رسم و رواج پر مبنی ہے تاکہ تمام قوم اس پر متفق اور متحد رہے اور بتلا دیا کہ تم سب کا ٹھکانہ آگ ہے اور کوئی بھی تمہارے لئے مددگار نہیں جن لوگوں کو تم مددگار سمجھے ہوئے ہو کوئی تمہارے کام نہ آئے گا۔ پس جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے نکلے اور قوم کو یہ نصیحت کی تو ان کی قوم میں سے صرف لوط (علیہ السلام) ایمان لائے یعنی سوائے لوط (علیہ السلام) کے کوئی مرد ان کی قوم میں سے ایمان نہ لایا اور عورتوں میں سے حضرت سارہ (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان رکھتی تھیں اور بعد ازاں ابراہیم (علیہ السلام) (ف 1) نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اب میں تمہارے ساتھ نہ رہوں گا بلکہ اب میں تم سے ہجرت کر کے اپنے رب کی طرف جاتا ہوں جہاں جانے کا میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے بیشک میرا پروردگار عزت والا اور حکمت والا ہے ہجرت کے بعد مجھ کو عزت دے گا اور دشمنوں سے میری حفاظت کرے گا اور اس نے جو مجھے ہجرت کا حکم دیا ہے وہ عین حکمت ہے اس نے جو مجھے ہجرت کا حکم دیا ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ دین خداوندی کو تمکین اور عزت اور غلبہ حاصل ہو۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا آگ سے صحیح سالم نکلنا دیکھ لیا تو نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ درخواست کی کہ آپ یہ ملک چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں ابراہیم (علیہ السلام) نے وحی الٰہی کے مطابق اس کو منظور کرلیا اور بہ نیت ہجرت وہاں سے روانہ ہوئے۔ حضرت سارہ (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) سفر ہجرت میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ (ف 1) اشارہ اس طرف ہے کہ وقال کی ضمیر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے اور بعض کہتے ہیں کہ لوط (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کی اور اپنی قوم کو کفر کی وجہ سے چھوڑا اور تمام خویش و اقارب سے مفارقت اختیار کی تو ہم نے اس کے صلہ میں ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے کی حالت میں اسحاق جیسا بیٹا اور یعقوب جیسا پوتا اس کو عطا کیا تاکہ اولاد صالح سے اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور حضرت ہاجرہ (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس سفر ہجرت میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ نہ تھے بلکہ بحکم خداوندی اس سے بہت بیشتر حضرت ہاجرہ (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ کی سرزمین میں چھوڑ آئے تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے چودہ برس پہلے پیدا ہوئے۔ غرض یہ کہ ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اولاد صالح عطا کی اور مزید برآں یہ فرمایا کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت اور آسمانی کتاب کو رکھ دیا کہ آئندہ جس کو نبوت اور کتاب ملے گی وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی اولاد میں سے ہوگا چناچہ نبوت ابتدا میں بنی اسرائیل میں رہی پھر آخر میں بنی اسماعیل میں خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے اور نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوگئی اور توریت اور انجیل اور زبور اور قرآن یہ تمام کتابیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی اولاد پر اتریں۔ اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے صدق اور اخلاص کا صلہ دنیا میں بھی دیا اور آخرت میں تو وہ بلاشبہ بڑے کامل نیک بندوں کے زمرہ میں سے ہوگا۔ اعلیٰ درجہ کے صالحین انبیاء اولو العزم کی جماعت ہے مطلب یہ ہے کہ آخرت کا صلہ تو آخرت میں ظاہر ہوگا باقی دنیا میں ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے نجات دی اور ظالم و جابر بادشاہ کو ذلیل و خوار کیا اور اولاد صالح عطا کی اور نبوت کو ان کی اولاد کے ساتھ مخصوص کردیا اور تمام امتوں میں ان کا ذکر خیر جاری فرمایا وغیرہ وغیرہ۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔ اور یہ مضمون وہی ہے جو سورة بقرہ میں گزرا۔ ولقد اصطفیناہ فی الدنیا اور انہ فی الاخرۃ لمن الصالحین۔
Top