Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 16
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِبْرٰهِيْمَ
: اور ابراہیم
اِذْ قَالَ
: جب اس نے کہا
لِقَوْمِهِ
: اپنی قوم کو
اعْبُدُوا
: اتم عبادت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاتَّقُوْهُ
: اور اس سے ڈرو
ذٰلِكُمْ
: یہ
خَيْرٌ لَّكُمْ
: بہتر تمہارے لیے
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
: تم جانتے ہو
اور ابراہیم کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے
قصہء دوم ابراہیم (علیہ السلام) باقوم اور قال اللہ تعالیٰ و ابراہیم اذ قال لقومہ اعبدوا اللہ واتقوہ۔۔۔ الی۔۔۔ وانہ فی الاخرۃ لمن الصلحین۔ یہ دوسرا واقعہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ابتلا کا ہے کہ دشمنوں نے آگ میں ڈالا اور جلا وطن کیا اور اس کے علاوہ ابراہیم (علیہ السلام) کو طرح طرح کے ابتلا اور امتحان پیش آئے۔ جن میں سے ذبح ولد کا واقعہ ابتلا عظیم تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے سام کی اولاد میں سے ہیں ان میں اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان آٹھ واسطے ہیں۔ سینکڑوں برس کا فاصلہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ کے لوگ بت پرستی میں بھی مبتلا تھے اور صابی مذہب رکھتے تھے یعنی عناصر اور کواکب اور روحانیات کی مورتیں بنا کر ان کو پوجتے تھے اور ان کو دنیاوی سامان حیات کا مالک اور متصرف جانتے تھے اور آخرت کے منکر تھے اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اولا دلائل اور براہین سے توحید کو سمجھایا اور خالص اللہ کی عبادت اور تقویٰ کا ان کو حکم دیا اور چونکہ یہ لوگ آخرت اور حشر ونشر کے بالکل منکر تھے اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ مسئلہ بھی ان کو دلیل سے سمجھایا اور اولم یروا کیف یبدیء اللہ الخلق ثم یعیدہ سے مبدا ومعاد اور حشر ونشر کے مسئلہ کو واضح فرمایا کہ جو چیز خود بخود وجود میں نہیں آسکتی وہ خود بخود باقی نہیں رہ سکتی ہر حادث کے لئے فنا ضروری ہے اور ہر حادث کا وجود دو عدموں کے درمیان میں گھرا ہوا ہے ایک عدم سابق اور ایک عدم لاحق۔ انسان کا اور حیوان کا اور شجر وحجر کا ہر لمحہ تغیر وتبدل اس کے حدوث کی دلیل ہے اور آنے والی گھڑی فناء کی گھنٹی ہے عالم کے تغیرات اور انقلابات بزبان حال اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہم وجود کی پتلیاں ہیں کوئی پوشیدہ دست قدرت ہم کو اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہے اور ہمارا تماشہ دکھلا رہا ہے بڑا ہی نادان ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ان پتلوں کا مادہ اور ایتھر ہی ان کو نچا رہا ہے اور دنیا کو ان کا تماشہ دکھا رہا ہے۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نوح (علیہ السلام) کے ابتلا کا اور ان کی قوم کے غرق ہونے کا ذکر فرمایا اب ابراہیم (علیہ السلام) کے ابتلا کا ذکر فرماتے ہیں کہ پہلا ابتلاء ابتلاء غرق تھا اور یہ ابتلا حرق ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو ابراہیم (علیہ السلام) کو جن کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا اور ان کا امتحان کیا جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا جو بابل کے رہنے والے تھے اے قوم ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے قہر اور عذاب سے ڈرو۔ حق جل شانہ کی اطاعت اور عبادت اور تقویٰ اور پرہیزگاری ہی سفینہ نجات ہے اللہ کی عبادت کرو اور دریائے قہر کی غرقابی سے ڈرو۔ عبادت اور تقویٰ کی کشتی میں سوار ہو کر ہی غرقابی سے بچ سکتے ہو۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں کچھ علم اور فہم ہے جس کے ذریعہ تم خیر وشر اور نفع اور ضرر کو سمجھ سکو لیکن تم علم اور عقل سے عاری نظر آتے ہو اس لئے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پرستش کرتے ہو جن کی دونیت یعنی حقارت تمہارے سامنے ہے کہ تم نے ان کو بسولوں سے تراش کر بنایا ہے اور ظاہر ہے کہ خود تراشیدہ چیز اول تو غایت درجہ حقیر ہے اور پھر یہ کہ وہ تراشیدہ چیز اپنے تراشنے والے کے سامنے بالکل بےبس اور عاجز ہے اور اپنی تراشیدہ چیز کو اپنا معبود بنانا غایت درجہ کی حماقت ہے اور درحقیقت تم جھوٹ بناتے ہو کہ اپنی تراشیدہ چیز کا نام خدا رکھ لیا اور ان سے رزق مانگنا شروع کردیا۔ تحقیق جن کو تم سوائے خدا کے معبود بنائے ہوئے ہو اور ان سے تم رزق مانگتے ہو وہ تمہیں رزق دینے پر قدرت نہیں رکھتے جو خود کسی چیز کا مالک نہ ہو وہ دوسرے کو کیا دے دے گا پس رزق اللہ کے پاس سے طلب کرو جو آسمان اور زمین کے خزانوں کا مالک ہے اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو جس نے تم کو یہ نعمتیں عطا کیں مطلب یہ ہے کہ جو روزی دیتا ہے اسی کی بندگی کرو اور اسی کا حق مانو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اس وقت ہر شخص کو اس کی عبادت کا اور اس کے شکر کا صلہ ملے گا۔ اور کفر اور شرک سے باز پرس ہوگی۔ روزی دینے والا تو اللہ ہے اور میں اس کا رسول ہوں اس کا پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں تم کو چاہئے کہ مجھ پر ایمان لاؤ اور اگر تم میری تصدیق کرتے ہو تو تم کو سعادت دارین حاصل ہوگی اور اگر تم میری تکذیب کرتے ہو تو میرا کوئی ضرر نہیں۔ تحقیق تم سے پہلے بھی بہت سی امتیں اپنے پیغمبروں کی تکذیب کرچکی ہیں اور ان کی تکذیب سے پیغمبروں کو کوئی ضرر نہیں پہنچا۔ بلکہ خود انہی کو ضرر پہنچتا اور تباہ ہوئے اور نہیں ہے رسول کے ذمہ مگر پیغام کو صاف طور پر پہنچا دینا۔ اب ماننا نہ تمہارا کام ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اول توحید کو واضح کیا جو دین کی پہلی اصل ہے اور پھر وما علی الرسول الا البلاغ المبین۔ سے رسالت کو بیان کیا جو دین کی دوسری اصل ہے اب آگے حشر ونشر کو بیان کرتے ہیں جو دین کی تیسری اصل ہے فرماتے ہیں کیا یہ لوگ جو خدا کی طرف لوٹنے کے منکر ہیں کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مخلوق کو بار اول پیدا کرتا ہے کہ نیست سے اس کو ہست کرتا ہے پھر وہی خدا ان کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا پہلی زندگی کو تو تم نے دیکھ لیا۔ اب دوسری زندگی کو اس پر قیاس کرلو۔ کیا دیکھتے نہیں کہ بدن پر دمل پھوڑا پھنسی نمودار ہوتا ہے اور اس حصہ کا گوشت اور پوست زائل ہوجاتا ہے پھر چند روز کے بعد دوسرا گوشت اور پوست نمودار ہوجاتا ہے اسی طرح جسم روح کا لباس ہے جو مرنے کے بعد بوسیدہ ہوجاتا ہے قیامت کے دن اسی قسم کا دوسرا نیا لباس پہنا دیا جائے گا۔ دمبدم گرشود لباس بدل شخص صاحب لباس راچہ خلل بیشک یہ بات اللہ پر بہت آسان ہے۔ ایک دلیل تو یہ ہوئی۔ اب آگے دوسری دلیل بیان ہوتی ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ اے ابراہیم (علیہ السلام) آپ اپنی قوم سے کہہ دیجئے کہ اپنی ذات کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کی پیدائش میں بھی غور کرو اور تم اگر دوبارہ زندگی میں کچھ تردد رہے تو زمین میں چلو پھرو۔ پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے زمین میں قسم قسم کی مخلوق کو کس طرح پہلی بار پیدا کیا ہے قسم قسم کے درخت فنا ہوجاتے ہیں اور پھر دوسری بار پیدا ہوجاتے ہیں جن کا شب وروز تم مشاہدہ کرتے ہو تو سمجھ لو کہ پھر پچھلی بار بھی اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرے گا۔ دوسری زندگی کو پہلی زندگی پر قیاس کرلو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے اس کی قدرت کاملہ کے اعتبار سے پہلی بار پیدا کرنا اور دوسری بار سب برابر ہے۔ بلاشبہ وہی اپنی قدرت کاملہ سے سب کو دوبارہ زندہ کرے گا پھر جس کو چاہے گا عذاب دے گا اور جس پر چاہے گا رحمت کرے گا وہ مالک اور مختار ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور موت اس کا نمونہ اور پیش خیمہ ہے کسی میں یہ قدرت نہیں کہ موت کو ٹلا سکے اور تمہاری عاجزی اور درماندگی کا یہ حال ہے کہ تم آسمان میں ہو یا زمین میں ہو خدا تعالیٰ کو اپنی پکڑنے سے عاجز نہیں کرسکتے۔ تمام مخلوق اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور اس کے پیدا کردہ آسمان و زمین میں محصور ہے اس کے احاطہ سے نہیں نکل سکتی اور تمہارے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی حمایتی ہے اور نہ کوئی مددگار ہے اور جو لوگ اللہ کی آیتوں کے اور قیامت کے دن کی پیشی سے منکر ہوئے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو میری رحمت سے ناامید ہوئے اور ایسے ہی لوگوں کے واسطے دردناک عذاب ہے۔ یہاں (ف 1) تک ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنی قوم کو نصیحت کا ذکر تھا جس میں انہوں نے دین کے تین اصول۔ توحید اور رسالت اور قیامت کو دلائل اور براہین سے واضح کردیا اور ان پر حجت قائم کردی اب آگے ان کی قوم کا جواب ذکر کرتے ہیں۔ قوم جب ابراہیم (علیہ السلام) کی ان معقول باتوں اور دلائل اور براہین کا جواب نہ دے سکی تو قوت اور طاقت کے استعمال پر اتر آئی کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے تاکہ قصہ ہی تمام ہو چناچہ آئندہ آیات میں اسی کا ذکر ہے۔ قوم کا جواب پس جب ابراہیم (علیہ السلام) قوم کو نصیحت کرچکے سو قوم ابراہیم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ یہ کہنے لگے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو قتل کردو یا اس کو آگ میں جلادو اور دیکھو کہ اس کا معبود ہم کو جلانے سے کیسے عاجز کرتا ہے مقصد یہ تھا کہ اگر قتل کر ڈالو تو ہمیشہ کے لئے اس شخص سے بےفکری ہوجائے اور اگر آگ میں ڈالو تو ممکن ہے کہ آگ سے ڈر کر اپنی بات سے رجوع کرے۔ غرض یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت وموعظت کا اثر اس بدبخت قوم پر یہ ہوا کہ قتل کرنے اور جلانے کے مشورے کرنے لگے آخری مشورہ یہ ٹھہرا کہ ان کو جلا دیا جائے۔ بڑی عظیم آگ تیار کی اور منجنیق کے ذریعہ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا پس اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو آگ سے نجات دی اور آگ کے ضرر سے ان کو محفوظ کردیا کہ وہ آگ ان کے حق میں برد وسلام اور باغ و بہار ہوگئی۔ بیشک اس واقعہ میں خدا کی قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو خدا کی قدرت پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنی قدرت سے آگ کو بجھایا اور اس کو بردو سلام اور گلزار اور باغ و بہار بنایا۔ معلوم ہوا کہ آگ بذات خود کسی کو جلانے والی نہیں جب تک خدا کا حکم نہ ہوجائے آگ میں حرارت اور پانی میں برودت کا جو کا اثر نظر آتا ہے وہ آگ اور پانی کی ذات اور طبیعت کا ذاتی اقتضا نہیں بلکہ وہ خدا کی قدرت اور مشیت کا کرشمہ ہے بحر قلزم اپنی ذات سے اور اپنی طبیعت سے حقیقت واحدہ اور ماہیت بسیط تھا مگر وہی بحر قلزم جب موسیٰ (علیہ السلام) گزرے تو رحمت بن گیا اور فرعون اور فرعونیوں کے لئے مصیبت اور ہلاکت بن گیا۔ یہ کسی مادہ اور طبیعت ایتھر اور نیچر کا اقتضا نہ تھا بلکہ قدرت خدا وندی کا کرشمہ تھا۔ اگر بتوں میں کچھ قدرت ہوتی تو آگ کو ابراہیم (علیہ السلام) پر بردوسلام نہ بننے دیتے مگر وہ بدبخت ان آثار قدرت اور کرشمہائے کرامت کو دیکھ کر ایمان نہ لائے اور یہ قصہ سورة انبیاء میں مفصل گزر چکا ہے۔ 1 حافظ ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار کیا کہ یہ تمام کلام از اول تا آخر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کلام ہے۔ کما قال ابن کثیر والظاہر من السیاق ان کل ھذا من کلام ابراہیم الخلیل (علیہ السلام) یحتج علیہم لا ثبات المعاد لقولہ بعد ھذا کلہ فما کان جواب قومہ الخ۔ واللہ اعلم۔ ابن کثیر ص 408 ج 3۔ بالآخر جب ابراہیم (علیہ السلام) اس آگ سے صحیح سالم نکل آئے تو پھر قوم کو نصیحت فرمائی اور کہا اے قوم کے لوگوں تم نے خدا کے سوا ان بتوں کو اس لئے اختیار نہیں کیا کہ وہ حق چیز ہے بلکہ اس لئے اختیار کیا ہے تاکہ تمہارا یہ باہمی اتحاد اور اتفاق دنیاوی زندگانی میں محبت کا ذریعہ بنے اور اس اتفاق سے آپس میں میل ملاپ اور رشتہ اخوت ومودت قائم رہے کیونکہ دنیا میں ایک ملت و مذہب والے اور ایک نظریہ رکھنے والے باہم متفق ہوتے ہیں لیکن یہ باہمی محبت دنیاوی زندگی تک محدود رہتی ہے۔ پھر قیامت کے دن یہ محبت مبدل بعداوت ہوجائے گی اس روز تم میں سے بعض بعض کا کافر اور منکر ہوگا یعنی اس روز ایک دوسرے سے بیزار ہوگا اور تم میں کا بعض بعض پر لعنت کرے گا اور پیروی کرنے والے اپنے سرداروں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور یہ مشرکین آج جن کے پیرو اور دوست بنے ہوئے ہیں قیامت کے دن ان سے پناہ مانگیں گے اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو ان کے حال اور مآل سے آگاہ کردیا دیکھ لو کہ تمام نصاریٰ تثلیث پر متفق ہیں اور تمام مشرکین بت پرستی پر متفق ہیں سو یہ اتفاق حق اور حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ آبائی رسم و رواج پر مبنی ہے تاکہ تمام قوم اس پر متفق اور متحد رہے اور بتلا دیا کہ تم سب کا ٹھکانہ آگ ہے اور کوئی بھی تمہارے لئے مددگار نہیں جن لوگوں کو تم مددگار سمجھے ہوئے ہو کوئی تمہارے کام نہ آئے گا۔ پس جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے نکلے اور قوم کو یہ نصیحت کی تو ان کی قوم میں سے صرف لوط (علیہ السلام) ایمان لائے یعنی سوائے لوط (علیہ السلام) کے کوئی مرد ان کی قوم میں سے ایمان نہ لایا اور عورتوں میں سے حضرت سارہ (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان رکھتی تھیں اور بعد ازاں ابراہیم (علیہ السلام) (ف 1) نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اب میں تمہارے ساتھ نہ رہوں گا بلکہ اب میں تم سے ہجرت کر کے اپنے رب کی طرف جاتا ہوں جہاں جانے کا میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے بیشک میرا پروردگار عزت والا اور حکمت والا ہے ہجرت کے بعد مجھ کو عزت دے گا اور دشمنوں سے میری حفاظت کرے گا اور اس نے جو مجھے ہجرت کا حکم دیا ہے وہ عین حکمت ہے اس نے جو مجھے ہجرت کا حکم دیا ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ دین خداوندی کو تمکین اور عزت اور غلبہ حاصل ہو۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا آگ سے صحیح سالم نکلنا دیکھ لیا تو نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ درخواست کی کہ آپ یہ ملک چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں ابراہیم (علیہ السلام) نے وحی الٰہی کے مطابق اس کو منظور کرلیا اور بہ نیت ہجرت وہاں سے روانہ ہوئے۔ حضرت سارہ (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) سفر ہجرت میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ (ف 1) اشارہ اس طرف ہے کہ وقال کی ضمیر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے اور بعض کہتے ہیں کہ لوط (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کی اور اپنی قوم کو کفر کی وجہ سے چھوڑا اور تمام خویش و اقارب سے مفارقت اختیار کی تو ہم نے اس کے صلہ میں ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے کی حالت میں اسحاق جیسا بیٹا اور یعقوب جیسا پوتا اس کو عطا کیا تاکہ اولاد صالح سے اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور حضرت ہاجرہ (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس سفر ہجرت میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ نہ تھے بلکہ بحکم خداوندی اس سے بہت بیشتر حضرت ہاجرہ (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ کی سرزمین میں چھوڑ آئے تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے چودہ برس پہلے پیدا ہوئے۔ غرض یہ کہ ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اولاد صالح عطا کی اور مزید برآں یہ فرمایا کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت اور آسمانی کتاب کو رکھ دیا کہ آئندہ جس کو نبوت اور کتاب ملے گی وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی اولاد میں سے ہوگا چناچہ نبوت ابتدا میں بنی اسرائیل میں رہی پھر آخر میں بنی اسماعیل میں خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے اور نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوگئی اور توریت اور انجیل اور زبور اور قرآن یہ تمام کتابیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی اولاد پر اتریں۔ اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے صدق اور اخلاص کا صلہ دنیا میں بھی دیا اور آخرت میں تو وہ بلاشبہ بڑے کامل نیک بندوں کے زمرہ میں سے ہوگا۔ اعلیٰ درجہ کے صالحین انبیاء اولو العزم کی جماعت ہے مطلب یہ ہے کہ آخرت کا صلہ تو آخرت میں ظاہر ہوگا باقی دنیا میں ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے نجات دی اور ظالم و جابر بادشاہ کو ذلیل و خوار کیا اور اولاد صالح عطا کی اور نبوت کو ان کی اولاد کے ساتھ مخصوص کردیا اور تمام امتوں میں ان کا ذکر خیر جاری فرمایا وغیرہ وغیرہ۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔ اور یہ مضمون وہی ہے جو سورة بقرہ میں گزرا۔ ولقد اصطفیناہ فی الدنیا اور انہ فی الاخرۃ لمن الصالحین۔
Top