Mafhoom-ul-Quran - Al-Ankaboot : 16
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهِ : اپنی قوم کو اعْبُدُوا : اتم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاتَّقُوْهُ : اور اس سے ڈرو ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
اور ابراہیم کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اگر تم جانتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی تعلیمات تشریح : سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) بڑے جلیل القدر رسول گزرے ہیں اور عربوں کو باوجود کفار ہونے کے ان سے بڑی عقیدت تھی اپنے آپ کو ان کی اولاد کہنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ تو اسی لیے ان کا ذکر کیا جارہا ہے کہ جب تم ان کو اپنے جد امجد کا رتبہ دیتے ہو تو پھر ان کی تعلیمات بھی تو یہی تھیں جو سیدنا محمد ﷺ کی تعلیمات ہیں یعنی انہوں نے بھی توحید کی ہی تعلیم دی اور شرک سے منع کیا۔ ان کی تعلیمات میں سب سے پہلے کہا گیا کہ : (1) شرک سے بچو کیونکہ یہ بہت بڑا ظلم ہے اور مشرک کی بخشش نہ ہوگی۔ (2) رزق دینے والا صرف اللہ وحدہ ‘ لا شریک لہ ہے۔ (3) اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ وہی عبادت کے لائق ہے۔ (4) نعمتیں دینے والا ‘ پیدا کرنے والا ‘ مارنے والا اور دوبارہ زندہ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے۔ (5) اسی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (6) موت ضروری ہے۔ ہر کوئی مقررہ وقت پر مرجاتا ہے۔ اور دوبارہ ضرور زندہ کیا جائے گا کیونکہ زندگی کے اعمال کا حساب کتاب لیا جائے گا۔ لہٰذا اس کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اس نے ہمیں بڑے سائنٹفک طریقہ سے پیدا کیا اور پھر ہماری تمام ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے ہوا ‘ بجلی ‘ پانی ‘ بارش ‘ پہاڑ ‘ سمندر ‘ نظام شمسی کا بہترین اور شاندار نظام قائم کردیا۔ اور یہ کام صرف اور صرف اللہ ہی کا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا ان میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کرسکتا تو ثابت ہوگیا کہ الہ کا مطلب ہے۔ (1) جس کی عبادت کی جائے۔ (2) جس کے بارے میں عقل حیران ہو۔ (3) جس سے بےپناہ محبت ہو۔ (4) جو انسانی عقل سے باہر اور پوشیدہ ہو لیکن اس کی قوت ‘ عظمت اور غلبہ ہر جگہ دکھائی دے۔ اسی لیے ہر انسان میں فطری طور پر اللہ کا تصور ضرور پایا جاتا ہے مگر اپنی ہٹ دھرمی اور اجداد کی پیروری کرتے ہوئے انسان خواہ مخواہ شرک کی ظلمت میں پڑا رہتا ہے۔ جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے توحید کے بارے میں فضائل اور شرک کے بارے میں نقصانات سن کر ان کی قوم تنگ آگئی اور اپنا راستہ بدلنے کو تیار نہ ہوئی تو پھر قوم نے فیصلہ کرلیا کہ ان کو جلا کر ختم کردیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کی مدد کی اپنی حکمت سے ان کو جلنے سے بچا لیا۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے تبلیغ کے راستے میں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بہت سی آزمائشوں کا سامنا کیا اور اب ایک اور فیصلہ ‘ کہ ایمان کی حفاظت میں ہجرت کر جانے کا فیصلہ کیا۔ تو یہاں سیدنا ﷺ کو ہجرت کر جانے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اکثر پیغمبروں کو تبلیغ کی راہ میں گھر بار ‘ ملک اور عزیز و اقربا چھوڑ کر کسی دوسری سرزمین میں نکلنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اللہ کی محبت سب سے برتر و اعلیٰ ہے اور پھر جب کوئی شخص اس حد تک اللہ کی محبت میں گم ہوجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس کو دنیا و آخرت میں بہترین انعامات سے نوازتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو مبارک اولاد سیدنا اسحاق (علیہ السلام) اور سیدنا یعقوب (علیہ السلام) کی صورت میں عطا کی اور ان کی نسل میں نبوت کا اعزاز خاص کردیا۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی بڑی شان ہے آپ کو اللہ کا دوست ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور آپ کی یاد میں حج کے کئی ارکان خاص کردیے گئے اور یوں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) مومنین کے لیے صبر ‘ ثبات ‘ قربانی ‘ حب الٰہی اور نیکی و جان نثاری کی ایک بےمثال حقیقت اور نمونہ بن گئے اور یوں انہوں نے اس دنیا کی عارضی تکلیفوں کے بجائے آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کی تمام آسائشیں اور اللہ کی رضا حاصل کرلی۔ دنیا کا ہر بندہ ان کی راہیں اختیار کر کے دنیا و آخرت میں سربلند ہوسکتا ہے۔ دعا ہے۔ ” اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں میں صبر ڈال دے اور ہمارے پائوں جمائے رکھ اور اس کافر قوم پر ہمیں غالب کیجئے۔ “ (البقرہ آیت :250 )
Top