Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جن کو دیا گیا ایک حصہ کتاب کا، وہ اپناتے ہیں گمراہی کو بدلے میں ہدایت کے، اور وہ (اپنی گمراہی کا ساتھ بھی) چاہتے ہیں کہ تم لوگ بھی بھٹک جاؤ سیدھی راہ سے،2
112 اہل کتاب کے تعجب خیز و عبرتناک حال کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک حصہ دیا گیا وہ گمراہی کو اپناتے ہیں بدلے میں ہدایت کے اور وہ چاہتے ہیں کہ تم لوگ بھی بھٹک جاؤ سیدھی راہ سے۔ یعنی کیا تم نے ان کے حال پر غور نہیں کیا کہ کیسا عجیب و غریب اور حیرت و عبرت انگیز ہے حال ہے ان کا ؟ کہ کہنے کو تو یہ اہل کتاب ہیں، اور کتاب حکیم کے علم کا بھی انہیں ایک بڑا حصہ ملا ہے، مگر اس کے باوجودیہ لوگ خریدتے ہیں گمراہی کو بدلے میں ہدایت کے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ تم کو بھی راہ حق و ہدایت سے بھٹکانا چاہتے ہیں، تاکہ اس طرح یہ ضلال کے ساتھ اضلال کے جرم کے بھی مرتکب بنیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ یہاں پر یہ بھی واضح ہے کہ بعض دوسرے مقامات کی طرح یہاں بھی کتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور { نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتَاب } سے مراد دوسری آسمانی کتب اور صحیفے ہیں۔ کیونکہ وہ اصل میں اس کتاب مبین کے اجزاء و حصص ہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سو اس کا تقاضا یہ تھا کہ قرآن حکیم کی اس کامل کتاب کو نازل ہونے پر ایسے لوگ آگے بڑھ کر اور صدق دل سے اس پر ایمان لے آتے لیکن ان لوگوں کا حال عجیب ہے کہ یہ اس پر ایمان لانے کی بجائے الٹے اس کے دشمن بن گئے۔ اور انہوں نے ہدایت کی بجائے گمراہی کو اپنایا اور اللہ کے غضب کے مستحق بنے { فباؤا بغضب من اللہ } سو پیاسا اگر شدّت ضرورت اور سخت پیاس کے باوجود آب زلال کے چشمہئ صافی سے محروم لوٹے تو اس سے بڑھکر بدبخت اور محروم اور کون ہوسکتا ہے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top