Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 164
وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ١ؕ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ
وَرُسُلًا : اور ایسے رسول (جمع) قَدْ قَصَصْنٰهُمْ : ہم نے ان کا احوال سنایا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ سے) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَرُسُلًا : اور ایسے رسول لَّمْ : نہیں نَقْصُصْهُمْ : ہم نے حال بیان کیا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ کو) وَكَلَّمَ : اور کلام کیا اللّٰهُ : اللہ مُوْسٰى : موسیٰ تَكْلِيْمًا : کلام کرنا (خوب)
اور (دوسرے) پیغمبروں پر کہ ان کا حال ہم پیشتر آپ سے بیان کرچکے ہیں (ہم نے وحی بھیجی تھی) اور ایسے پیغمبروں پر (بھی) کہ ان کا حال ہم آپ سے بیان نہیں کیا،415 ۔ اور اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے (خاص طور پر) کلام فرمایا،416 ۔
415 ۔ (اب تک) پھر بعض پیغمبر ایسے ہیں جن کا ذکر اس آیت کے نزول کے بعد قرآن مجید میں آگیا۔ اور بہت سے ایسے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں سرے سے آیا ہی نہیں۔ والاکثرون غیر مذکورین علی سبیل التفصیل (کبیر) متکلمین نے یہیں سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ ہر ہر نبی پر تفصیل کے ساتھ ایمان لانا ضروری نہیں۔ البتہ سب نبیوں کی اجمالا تصدیق ضروری ہے۔ والایۃ تدل علی ان معرفۃ الرسل باعیانھم لیست بشرط لصحۃ الایمان بل من شرطہ ان یومن بھم جمیعا اذلوکان معرفۃ کل واحد منھم شرط لقص علینا کل ذلک (مدارک) (آیت) ” من قبل “۔ یعنی اس آیت کے نزول سے پیشتر۔ 416 ۔ (آیت) ” تکلیما “ فعل کے بعد اسی مصدر کو اور پھر تنوین کے ساتھ لانے کے معنی یہ ہیں کہ کلام کی کوئی بہت ہی مخصوص نوعیت مراد ہے۔ ورنہ کلام ومخاطبہ انبیاء میں بھی ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ ، ظاہر ہے کہ عام عقول کے لیے تو ناقابل فہم ہی ہوگا۔ مصدر معناہ التاکید (قرطبی) ھو الکلام الحقیقی الذی یکون بہ المتکلم متکلما (قرطبی) والمعنی ان التکلیم بغیر واسطۃ منتھی مراتب الوحی واعلاھا (روح) اشارۃ الی ان المصدر وتنوینہ للتنویع لانہ نوع عجیب لایدرک کنہہ (تھانوی)
Top