Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 164
وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ١ؕ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ
وَرُسُلًا : اور ایسے رسول (جمع) قَدْ قَصَصْنٰهُمْ : ہم نے ان کا احوال سنایا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ سے) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَرُسُلًا : اور ایسے رسول لَّمْ : نہیں نَقْصُصْهُمْ : ہم نے حال بیان کیا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ کو) وَكَلَّمَ : اور کلام کیا اللّٰهُ : اللہ مُوْسٰى : موسیٰ تَكْلِيْمًا : کلام کرنا (خوب)
اور بہت سے پیغمبر ہیں جن کے حالات ہم تم سے پیشتر بیان کرچکے ہیں اور بہت سے پیغمبر ہیں جن کے حالات تم سے بیان نہیں کئے۔ اور موسیٰ سے تو خدا نے باتیں بھی کیں
ورسلا قد قصصنہم علیک من قبل اور ہم نے کچھ پیغمبر بھیجے جن کا ذکر ہم نے پہلے تم سے کردیا جیسے آدم ( علیہ السلام) ‘ شیث ( علیہ السلام) ‘ ادریس ( علیہ السلام) ‘ زکریا ( علیہ السلام) ‘ یحییٰ ( علیہ السلام) ‘ ذوالکفل ( علیہ السلام) وغیرہ۔ ورسلا لم نقصصہم علیک اور کچھ پیغمبر اور بھی بھیجے جن کا ذکر تم سے ہم نے نہیں کیا۔ حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ سب سے پہلے کون پیغمبر تھا۔ فرمایا آدم ( علیہ السلام) ۔ میں نے عرض کیا وہ نبی تھے۔ فرمایا ہاں نبی تھے جن سے کلام کیا گیا تھا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ رسول کتنے ہوئے فرمایا تین سو اور کچھ اوپر دس ایک بڑی جماعت۔ حضرت ابو امامہ ؓ کی روایت ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ انبیاء کی پوری گنتی کتنی تھی فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار جن میں سے تین سو پندرہ کی ایک بڑی جماعت رسولوں کی ہوئی۔ رواہ احمد وابن ابی حاتم۔ حاکم نے ضعیف سند سے اور ابو یعلی نے اور حلیہ میں ابو نعیم نے بیان کیا کہ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے آٹھ ہزار انبیاء مبعوث فرمائے ‘ چار ہزار بنی اسرائیل میں سے اور چار ہزار باقی لوگوں میں سے۔ (1) [ ابن حبان نے صحیح میں اور حاکم اور ابن عساکر نے اور حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں اور عبد بن حمید نے حضرت ابوذر کا بیان نقل کیا ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انبیاء کتنے ہوئے ؟ فرمایا : ایک لاکھ چوبیس ہزار۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ان میں سے رسول کتنے ہوئے ؟ فرمایا : تین سو تیرہ کی ایک بڑی جماعت۔ پھر فرمایا : ابوذر ؓ چار بانی ہیں آدم ( علیہ السلام) شیث ( علیہ السلام) نوح ( علیہ السلام) خنوخ ( علیہ السلام) ۔ خنوخ ہی ادریس ( علیہ السلام) تھے انہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا۔ چار عرب میں سے ہیں ‘ ہود ( علیہ السلام) صالح ( علیہ السلام) شعیب ( علیہ السلام) اور تمہارا نبی ﷺ ۔ بنی اسرائیل میں سب سے پہلے نبی موسیٰ ( علیہ السلام) اور آخری نبی عیسیٰ ( علیہ السلام) ہوئے۔ سب سے اوّل نبی آدم تھے اور آخر نبی تمہارا پیغمبر ﷺ ۔] یہ آیت بتارہی ہے کہ ایمان کے لئے تمام انبیاء کی الگ الگ (ناموں کے ساتھ) شناخت ضروری نہیں اگر ہر ایک پر تفصیلی ایمان ضروری ہوتا تو اللہ سب کا تفصیلی ذکر فرماتا بلکہ سب پر اجمالاً ایمان لازم ہے۔ وکلم اللہ موسیٰ تکلیما اور اللہ نے موسیٰ سے یقیناً کلام کیا۔ اللہ کا کلام کرنا وحی کا انتہائی درجہ ہے یہ فضیلت اللہ نے تمام پیغمبروں میں سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی مگر محمد رسول اللہ ﷺ : کو اس سے بڑھ کر اس سے بھی بڑھ کر فضیلت عطا کی اور آپ کے درجات اونچے کئے فرمایا ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰی مَاکَذَبَ الْفُوْادُ مَا رَأیٰ اَفَتُمَا رُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرَیٰ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ عِنْدَ سِدْرَۃٍ الْمُنْتَہٰی اور جو کچھ کسی دوسرے نبی کو عنایت کیا تھا اس سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کو عطا کیا۔ فراء نے بیان کیا ہے کہ عرب بعض افعال انسان کی نسبت بعض ایسے فاعلوں کی طرف بھی کردیتے تھے جو حقیقی فاعل نہیں ہوسکتے لیکن اس فعل کی تاکید مصدر کے ساتھ نہیں کرتے ہاں اگر مصدر کا تاکیداً ذکر کرتے ہیں تو اس وقت حقیقی فعل مقصود ہوتا ہے مجازی معنی مراد نہیں ہوتے مثلاً کہتے ہیں اراذا لجد اران نیقضدیوار نے ٹوٹنے کا ارادہ کیا (ارادہ انسانی فعل ہے لیکن اس مثال میں اس کی نسبت دیوار کی طرف کردی گئی ہے اس لئے حقیقی ارادہ مراد نہیں ہے) اس مثال میں اراد الجدار ارادۃ کہنا درست نہیں کیونکہ دیوار حقیقی ارادہ کی اہل نہیں ہے (اور آیت میں کلم کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے اور اس کی تاکید کے لئے تکلیمامصدر بھی ذکر کیا ہے معلوم ہوا کہ حقیقی کلام مراد ہے)
Top