Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 42
یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ١ؕ وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا۠   ۧ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَعَصَوُا : اور نافرمانی کی الرَّسُوْلَ : رسول لَوْ تُسَوّٰى : کاش برابر کردی جائے بِهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین وَلَا : اور نہ يَكْتُمُوْنَ : چھپائیں گے اللّٰهَ : اللہ حَدِيْثًا : کوئی بات
اس روز کافر اور پیغمبر کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش ان کو زمین میں مدفون کر کے مٹی برابر کردی جاتی اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے
آیت 42 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کامل عدل و فضل کے بارے میں خبر دیتا اور آگاہ فرماتا ہے کہ وہ عدل کے متضاد صفات، یعنی ظلم سے خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر پاک ہے۔ چناچہ فرمایا : (ان اللہ لایظلم مثقال ذرۃ) ” اللہ کسی کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہیں کرتا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی نیکیوں میں ذرہ بھر کمی کرے گا نہ اس کی برائیوں میں ذرہ بھر اضافہ کرے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ، ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ) (الزلزال :8-8-99) ” جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔ (وان تک حسنۃ یضعفھا) ” اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنا کردیتا ہے “ یعنی وہ اس نیکی کو دس گنا یا اس کے حسب حال، اس کے نفع کے مطابق اور نیکی کرنے والے کے خلاص، محبت اور کمال کے مطابق اس سے بھی کئی گنا زیادہ کر دے گا (ویوت من لدنہ اجراً عظیماً ) ” اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے۔ “ یعنی وہ عمل کے ثواب سے زیادہ عطا کرے گا۔ مثلاً وہ اسے دیگر اعمال کی توفیق سے نوازے گا، بہت سی نیکی اور خیر کثیر عطا کرے گا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھولآء شھیدا) ” پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے “ وہ کیسے حالات ہوں گے اور وہ عظیم فیصلہ کیسا ہوگا جو اس حقیقت پر مشتمل ہوگا کہ فیصلہ کرنے والا کامل علم، کامل عدل اور کامل حکمت کا مالک ہے اور وہ مخلوق میں سب سے زیادہ سچی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔ یہ شہادت انبیاء ومرسلین کی شہادت ہے جو وہ اپنی امتوں کے خلاف دیں گے اور جن کے خلاف فیصلہ ہوگا وہ بھی اس کا اقرار کریں گے۔ اللہ کی قسم ! یہ وہ فیصلہ ہے جو تمام فیصلوں میں سب سے زیادہ عام، سب سے زیادہ عادل اور سب سے عظیم ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں جن کے خلاف فیصلہ ہوگا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے کمال فضل، عدل و انصاف اور حمد و ثنئا کا اقرار کرتے رہ جائیں گے۔ وہاں کچھ لوگ فوز و فلاح، عزت اور کامیابی کی سعادت سے بہرہ ور ہوں گے اور کچھ فضیحت و رسوائی اور عذاب مہین کی بدبختی میں گرفتار ہوں گے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یومئذیودالذین کفروا وعصوا الرسول) ” جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے “ یعنی ان میں اللہ اور اس کے رسول کا انکار اور رسول کی نافرمانی اکٹھے ہوگئے ہیں (لوتسوی بھم الارض) ” کہ کاش انہیں زمین کے ساتھ ہموار کردیا جاتا “ یعنی وہ خواہش کریں گے کہ کاش زمین انہیں نگل لے اور وہ مٹی ہو کر معدوم ہوجائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ویقول الکفر یلیتنی کنت ترباً ) (النبا :30/88) ” اور کافر کہے گا کاش میں مٹی ہوتا۔ “ (ولا یکتمون اللہ حدیثاً ) ” اور وہ نہیں چھپا سکیں گے اللہ سے کوئی بات “ بلکہ وہ اپنی بد اعمالیوں کا اعتراف کریں گے۔ ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس روز اللہ تعالیٰ انہیں پوری پوری جزا دے گا۔ یعنی ان کی جزائے حق۔ اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق اور کھلا کھلا بیان کردینے والا ہے اور کفار کے بارے میں یہ جو وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار کو چھپائیں گے تو قیامت کے بعض مواق پر ایسا کریں گے جبکہ وہ یہ سمجھیں گے کہ ان کا کفر سے انکار اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلے میں کسی کام آسکے گا۔ لیکن جب وہ حقائق کو پہچان لیں گے اور خود ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے تب تمام معاملہ روشن ہو کر سامنے آجائے گا۔ پھر ان کے لئے چھپانے کی کوئی گنجائش باقی رہے گی نہ چھپانے کا کوئی فائدہ ہی ہوگا۔ آیت 43 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے جب تک کہ انہیں معلوم نہ ہوجائے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس ممانعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ نشے کی حالت میں نماز کی جگہوں یعنی مساجد وغیرہ کے بھی قریب نہ جائیں کیونکہ نشے کی حالت میں مسجد میں داخل ہونا ممکن نہیں۔ اس ممانعت میں نفس نماز بھی شامل ہے نشے والے شخص کی عقل کے مختلف ہونے اور یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اس کی نماز اور دیگر عبادات جائز نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کے لئے اس چیز کو شرط بنایا کہ نشے والا شخص جو کچھ کہہ رہا ہوا سے اس کا علم ہو۔ یہ آیت کریمہ تحریم خمر والی آیت کے ذریعے سے منسوخ ہوگئی۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب حرام نہ تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں شراب کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا : (یسئلونک عن الخمر والمیسر ط قل فیھمآ اثم کبیر و منافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما) (البقرہ : 219/2) ” تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات میں شراب پینے سے منع کردیا۔ جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے۔ اس کے بعد (تیسرے مرحلے میں) اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام اوقات میں شراب کو علی الاطلاق حرام قرار دیا فرمایا : (انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون) (المائدہ :90/5) ” بیشک شراب، جواء، بت اور پانسے سب شیطان کے ناپاک کام ہیں اس لئے ان سے بچوں تاکہ تم فلاح پاؤ۔ “ نماز کے اوقات میں تو شراب کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان اوقات میں نماز کے مقصد کے حصول کے بعد، جو کہ نماز کی روح اور لب لباب ہے اور وہ ہے خشوع اور حضور قلب۔ شراب بڑے مفاسد کو متضمن ہے۔ شراب قلب کو بھی مدہوش کردیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے۔ آیت کریمہ کے معنی سے یہ بات بھی اخذ کی جاتی ہے کہ سخت اونگھ کی حالت میں جب انسان کو یہ عقل و شعور نہ رہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ بلکہ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ہر اس شغل کو منقطع کر دے جو نماز کے اندر اس کی توجہ کو مشغول رکھتا ہو مثلاً بول و براز کی سخت حاجت اور کھانے کی سخت خواہش وغیرہ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے۔ (ولاجنباً الا عابدی سبیل) ” اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے قریب نہ ہوجاؤ) ہاں اگر عبور کرنے والے ہو راستے کو “ یعنی اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ سوائے اس حالت میں کہ تم مسجد میں سے گزر رہے ہو اور تم بغیر رکے گزر جاؤ (حتی تغتسلوا) ” حتی کہ تم غسل کرلو۔ “ یہ جنبی کے لئے نماز کے قریب جانے سے ممانعت کی حد اور انتہا ہے۔ پس جنبی کے لئے مسجد میں سے صرف گزرنا جائز ہے۔ (وان کنتم مرضی او علی سفر اوجآء احد منکم من الغآئط اولمستم النسآء فلم تجدوا مآء فتیمموا) ” اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تمیم کرلو “ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے مریض کے لئے تمیم کو پانی کی موجوگدی اور عدم موجودگی دونوں حالتوں میں علی الاطلاق جائز قرار دیا ہے اور اس اباحت کی علت ایسا مرض ہے جس میں پانی کا استعمال سخت تکلیف دہ ہو۔ اسی طرح سفر میں بھی تمیم کو مباح قرار دیا کیونکہ سفر میں پانی کے عدم وجود کا امکان ہوسکتا ہے، اس لئے جب مسافر کے پاس پینے اور یدگر ضروریات سے زائد پانی نہ ہو تو اس کے لئیتمیم جائز ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص بول و برازیا عورتوں کے لمس کی وجہ سے وضو توڑ بیٹھے خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں، اگر پانی موجود نہ ہو تو اس کے لئے تمیم جائز ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو حالتوں میں تمیم مباح فرمایا ہے۔ (1) سفر و حضر میں علی الاطلاق پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں۔ (2) کسی مرض میں پانی کے استعمال میں مشقت کی صورت میں۔ مفسرین میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (اولمستم النسآء) کا معنی بیان کرنے میں اختلاف ہے کہ آیا لمس سے مراد جماع ہے۔ تب یہ آیت کریمہ جنبی کے لئے تمیم کے جواز میں نص ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں یا اس سے مراد صرف ہاتھوں سے چھوٹا ہے، البتہ یہ چھونا اس قید سے مقید ہے کہ جب چھونے سے مذی کے خارج ہونے کا امکان ہو۔ یہ چھونا شہوت کے ساتھ ہوگا اور تب یہ آیت لمس سے وضو کے ٹوٹنے پر نص ہے۔ فقہاء (فلم تجدوامآء) سے استدلال کرتے ہیں کہ نماز کا وقت داخل ہونے پر پانی کی تلاش فرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لئے (لم یجد) ” اس نے نہ پایا “ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جس نے تلاش نہ کیا ہو۔ بلکہ یہ لفظ استعمال ہی تلاش کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے فقہاء نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اگر پانی کسی پاک چیز کے اختلاط سے متغیر ہوجائے تو اس سے وضو وغیرہ جائز ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے طہارت حاصل کرنا متعین ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (فلم تجدوامآء) میں داخل ہے اور متغیر پانی بھی تو پانی ہی ہے اور اس میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ غیر مطلق پانی ہے اور یہ محل نظر ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس عظیم حکم کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نوازا ہے اور وہ ہے تمیم کی مشروعیت۔ تمیم کی مشروعیت پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد تمیم پاک مٹی سے کیا جاتا ہے (صعیدا) سطح زمین کی پاک مٹی کو کہتے ہیں خواہ اس میں غبار ہو یا نہ ہو۔ اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ ” صعید “ ہر غبار والی چیز کو کہا جائے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورة مائدہ میں وضو والی آیت میں فرمایا ہے (فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ) (المائدہ :6/5) ’ دپس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرلو “ اور جس کا غبار نہ ہو تو اس سے مسح نہیں کیا جاتا۔ فرمایا (فامسحوا بوجوھکم وایدیکم) ” اور (مٹی) سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرلو “ جیسا کہ سورة مائدہ میں زیادہ واضح ہے۔ آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ تمیم کے اندر مسح کا محل یہ ہے، متام چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی تک جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تمیم کیا جائے۔ جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تمیم کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت عمار بن یاسر کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ جنبی کے تمیم میں بھی صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا جائے گا، جیسے کسی دیگر شخص کے تمیم میں ہے۔ فائدہ :۔ معلوم ہونا چاہیے کہ طب کا دار و مدار تین قواعد پر ہے۔ (1) ضرر رساں اشیاء سے حفظان صحت۔ (2) موذی امراض سے نجات حاصل کرنا۔ (3) ان امراض سے بچاؤ۔ رہا مرض سے بچاؤ اور حفظان صحت تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے پینے اور عدم اسراف کا حکم دیا ہے۔ مسافر اور مریض کی صحت کی حفاظت کی خاطر رمضان میں روزہ چھوڑنا اور اس مقصد کے لئے ایسی چیزیں اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا مباح ہے جو بدن کی صحت کے لئے درست اور مریض کو ضرر سے بچانے کیلئے ضروری ہیں۔ رہا بیماری کی تکلیف سے نجات حاصل کرنا تو اللہ تعالیٰ نے سر میں تکلیف محسوس کرنے والے محرم شخص کے لئے سرمنڈوانا مباح قرار دیا ہے تاکہ وہ سر میں جمع شدہ میل کچیل اور گندگی سے نجات حاصل کرسکے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان چیزوں مثلاً بول و براز، قے، منی اور خون وغیرہ سے فارغ ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ان مذکورہ امور کی طرف علامہ ابن القیم (رح) نے توجہ دلائی ہے۔ آیت کریمہ چہرے اور ہاتھوں کے مسح کے وجوب کے عموم پر دلالت کرتی ہے نیز یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ خواہ وقت تنگ نہ ہو تمیم کرنا جائز ہے نیز یہ آیت کریمہ اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وجوب کے سبب کے موجود ہونے کے بعد ہی پانی کی تلاش کے لئے کہا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد پر آیت کریمہ کا اختتام کیا ہے۔ (ان اللہ کان عفواً غفوراً ) ” بیشک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا نہایت بخشنے والا ہے “ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکامات میں انتہائی آسانیاں پیدا فرما کر اپنے مومن بندوں کے ساتھ بہت زیادہ عفو اور مغفرت کا معاملہ کرتا ہے۔ تاکہ بندے پر اس کے احکام کی تعمیل شاق نہ گزرے اور اسے ان کی تعمیل میں کوئی حرج محسوس نہ ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے پانی کے عدم استعمال کے عذر کے موقع پر، مٹی کے ذریعے سے طہارت کو مشروع فرما کر اس امت پر رحم فرمایا اور یہ بھی اس کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے گناہگاروں کے لئے توبہ اور انابت کا دروازہ کھولا اور انہیں اس دروازے کی طرف بلایا اور ان کے گناہ بخش دینے کا وعدہ فرمایا، نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کا عفو ہے کہ اگر بندہ مومن زمین بھر گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو اور اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اسے زمین بھر مغفرت سے نوازے گا۔
Top