Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 42
یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ١ؕ وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا۠   ۧ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَعَصَوُا : اور نافرمانی کی الرَّسُوْلَ : رسول لَوْ تُسَوّٰى : کاش برابر کردی جائے بِهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین وَلَا : اور نہ يَكْتُمُوْنَ : چھپائیں گے اللّٰهَ : اللہ حَدِيْثًا : کوئی بات
اس روز وہ لوگ جو اڑے رہے ہوں گے اپنے کفر (وباطل) پر، اور انہوں نے نافرمانی کی ہوگی اللہ کے رسول ﷺ کی یہ تمناکریں گے کہ بربرا کردیا جائے ان کیساتھ زمین کو، اور وہ چھپا نہ سکیں گے اللہ سے کوئی بات،
104 قیامت کے روز کفار کی انتہائی یاس و حسرت کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز کافر و نافرمان لوگ یہ تمنا کریں گے کہ ان کے ساتھ برابر کردیا جائے زمین کو۔ کہ زمین پھٹ کر ان کو نگل لے، اور پھر اوپر سے جڑ کر برابر ہوجائے، تاکہ اس طرح یہ لوگ اس ہولناک انجام سے بچ سکیں۔ مگر ایسے کہاں اور کیونکر ؟ یا یہ مطلب ہے کہ یہ لوگ اس روز یہ تمنا کریں گے کہ یہ مٹی ہوجائیں تاکہ مٹی میں مل کر نیست و نابود ہوجائیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔ نتیجہ و مآل ان دونوں مطلبوں کا ایک ہی نکلتا ہے یعنی اس طرح وہ لوگ اپنی نہایت ہی یاس و حسرت کا اظہار کریں گے مگر اس کا ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوگا، سوائے یاس و حسرت کی اس باطنی آگ میں جلنے کے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس میں کفر و انکار کرنے والوں کی اس انتہائی یاس و حسرت کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے جس میں یہ لوگ اس روز مبتلا ہوں گے جبکہ ایسے لوگ رہ رہ کر یہ تمنا اور آرزو کریں گے کہ کاش وہ زمین میں دھنس جائیں اور زمین کو ان کے سمیت برابر کردیا جائے۔ 105 اللہ سے کوئی بات چھپانا ممکن نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز یہ لوگ اللہ سے کسی بات کو چھپا نہیں سکیں گے اور جب انکے پیغمبروں کے علاوہ خود ان کے اپنے ہاتھ پاؤں بھی ان کے خلاف گواہی دے دیں گے، تو پھر کوئی بات چھپانے کا کیا سوال باقی رہ سکتا ہے۔ سو اس روز ان کیلئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اللہ سے اپنی کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے اور ان کے تمام جرائم پوری طرح ثابت ہوچکے ہوں گے۔ سو قرآن حکیم نے یہ سب کچھ پیشگی بتادیا اور اس صراحت و وضاحت کے ساتھ بتادیا تاکہ جس نے برے انجام سے بچنا ہو بچ جائے، قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور اس کو ہمیشہ کیلئے کف افسوس ملنا پڑے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنے کرتوتوں کو اللہ پاک سے چھپا سکتے ہیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کی اس گواہی کی تصریح دوسرے مقام پر اس طرح فرمائی گئی ہے { یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلِہِمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُوْنَ } (النور۔ 24) ۔ نیز دوسرے مقام پر ان کی آنکھوں، کانوں اور ان کی کھالوں کی گواہی کی بھی تصریح فرمائی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے { حَتّٰی اِذَا مَا جَائُ وْھَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُھُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } (ح م السجدہ۔ 2) تو پھر چھپنے چھپانے کا کیا امکان ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو قیامت کے روز کسی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپانا ممکن نہ ہوگا۔
Top