Mufradat-ul-Quran - An-Nisaa : 42
یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ١ؕ وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا۠   ۧ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَعَصَوُا : اور نافرمانی کی الرَّسُوْلَ : رسول لَوْ تُسَوّٰى : کاش برابر کردی جائے بِهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین وَلَا : اور نہ يَكْتُمُوْنَ : چھپائیں گے اللّٰهَ : اللہ حَدِيْثًا : کوئی بات
اس روز کافر اور پیغمبر کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش ان کو زمین میں مدفون کر کے مٹی برابر کردی جاتی اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے
يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِہِمُ الْاَرْضُ۝ 0ۭ وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللہَ حَدِيْثًا۝ 42ۧ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد ﷺ اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ سوا ( مساوات برابر) الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ كتم الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] ، ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه، حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں
Top