Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 42
یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ١ؕ وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا۠   ۧ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَعَصَوُا : اور نافرمانی کی الرَّسُوْلَ : رسول لَوْ تُسَوّٰى : کاش برابر کردی جائے بِهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین وَلَا : اور نہ يَكْتُمُوْنَ : چھپائیں گے اللّٰهَ : اللہ حَدِيْثًا : کوئی بات
سو اس دن ایسا ہوگا کہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے اور رسول کے حکموں سے نافرمان ہوگئے ہیں وہ تمنا کریں گے کاش ! زمین ان کے اوپر برابر ہوجائے اور اس دن وہ اللہ سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں رکھ سکیں گے
رسول اللہ ﷺ کے احکام کی نافرمانی کرنے والوں کا انجام : 90: یہ غلطی بھی مدت سے قوموں کو لگتی آئی ہے کہ ہم بداعتدالیاں کرتے ہیں اور اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کی ہر لحاظ سے ہم نے مخالفت کی لیکن ہمیں تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ فوراً کسی کو کبھی نہیں پکڑتا بلکہ وہ ایسے نافرمانوں کو جو رسول کی نافرمانی کرتے ہیں ایک وقت تک مہلت دیتا رہتا ہے۔ پھر یہ نادان لوگ کیوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ نبی کے ساتھ تکذیب و استہزاء کی جو روش انہوں نے اختیار کر رکھی ہے اس پر چونکہ ابھی تک انہیں سزا نہیں دی گئی اس لیے یہ نبی سرے سے نبی ہی نہیں ج۔ ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ ہم ہر قوم کے لیے پہلے سے طے کرلیتے ہیں کہ اس کو سننے سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے اتنی مہلت دی جائے گی اور اسی حد تک اس کی شرارتوں اور خباثتوں کے باوجود پورے تحمل کے ساتھ اسے اپنی من مانی کرنے کا موقع دیا جاتا رہے گا۔ یہ مہلت جب تک باقی رہتی ہے اور ہماری مقرر کی ہوئی حد جس وقت تک آ نہیں جاتی ہم ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم میں رسول کی مخالفت کرنے والوں کا حال دوسری جگہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ : ” ہر ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کہ کاش ! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی ! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس کے بہکانے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی اور شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بےوفا نکلا۔ “ (الفرقان : 29 ۔ 27:25) بلکہ یہ شیطان تو عین وقت پر انسان کو دھوکہ دے جانے والا ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” جس روز ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش ! ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی اور کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ راست سے بےراہ کردیا۔ اے رب ہمارے ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر۔ “ (الاحزاب : 28 ۔ 27:33) چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا اور ان میں سے ہر شخص اس پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔ “ (عبس : 37 ۔ 34:80) ان عزیزوں سے بھاگنے کا مطلب کیا ؟ بھاگنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی عزیزوں کو جو دنیا میں اسے سب سے زیادہ پیارے تھے مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بجائے اس کے کہ ان کی مدد کو دوڑے الٹا ان سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اسے مدد کے لیے نہ پکار اٹھیں اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں خدا سے بےخوف اور آخرت سے غافل ہو کر جس طرح یہ سب ایک دوسرے کی خاطر گناہ اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے رہے اس کے برے نتائج سامنے آتے دیکھ کر ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اپنی گمراہیوں اور گناہگاریوں کی ذمہ داری اس پر نہ ڈالنے لگے۔ بھائی کو بھائی سے ، اولاد کو ماں باپ سے ، شوہر کو بیوی سے اور ماں باپ کو اولاد سے خطرہ ہوگا کہ یہ کم بخت اب ہمارے خلاف مقدمے کے گواہ بننے والے ہیں۔ “ اور یہی مضمون اس جگہ اس طرح ارشاد فرمایا کہ ” سو اس دن ایسا ہوگا کہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے اور رسول کے حکموں سے نافرمان ہوگئے ہیں وہ تمنا کریں گے کہ کاش ! زمین ان کے اوپر برابر ہوجائے اور اس دن وہ اللہ سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھ سکیں گے۔ “
Top