Tafseer-e-Usmani - An-Nisaa : 42
یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ١ؕ وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا۠   ۧ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَعَصَوُا : اور نافرمانی کی الرَّسُوْلَ : رسول لَوْ تُسَوّٰى : کاش برابر کردی جائے بِهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین وَلَا : اور نہ يَكْتُمُوْنَ : چھپائیں گے اللّٰهَ : اللہ حَدِيْثًا : کوئی بات
اس دن آرزو کرینگے وہ لوگ جو کافر ہوئے تھے اور رسول کی نافرمانی کی تھی کاش برابر کئے جاویں وہ زمین میں اور نہ چھپا سکیں گے اللہ سے کوئی بات2
2  یعنی جس دن ہر امت میں سے ان کے حالات بیان کرنے والا بلایا جائے گا اس دن کافر اور نافرمان لوگ اس بات کی تمنا کریں گے کہ کاش ہم زمین میں ملا دیے جاتے اور مٹی میں مل کر نیست و نابود ہوجاتے، آج پیدا نہ ہوتے اور ہم سے حساب و کتاب نہ ہوتا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کسی بات کا اخفا نہ کرسکیں گے اور ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا۔ شروع سورت سے مسلمانوں کو اقارب اور زوجین وغیرہ کے ادائے حقوق کی تاکید اور کسی کی حق تلفی کرنے اور جانی و مالی نقصان پہنچانے کی ممانعت اور معاصی کی خرابی پر مطلع کر کے اس کے بعد (وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا) 4 ۔ النسآء :36) فرما کر اقارب اور یتامی اور مساکین اور ہمسایوں وغیرہ کے ساتھ احسان و سلوک کرنے کا ارشاد کر کے اسی کے ذیل میں تکبر اور خود پسندی اور بخل و ریا سے ڈرایا تھا جو ایسے عیب ہیں کہ دوسروں کے حق ادا کرنے اور کسی کے ساتھ سلوک کرنے سے روکتے بھی ہیں اور روپیہ پیسہ دینے والوں اور لوگوں کے ساتھ سلوک کرنے والوں کی طبعیت میں خواہ مخواہ آنے بھی لگتے ہیں۔ اب ان تمام حکموں کے آخر میں پھر مسلمانوں کو صریح خطاب فرما کر خاص نماز کی بابت جو سب عبادتوں میں اعلیٰ اور افضل ہے اور شریعت میں جس قدر اسکا اہتمام کیا ہے اور اسکے ارکان و شرائط و آداب وغیرہ کو مفصل بتلایا ہے کسی عبادت کا اس قدر اہتمام نہیں کیا۔ دو باتوں کی تاکید فرمائی جو امور متعلقہ صلوٰۃ میں سب سے اہم اور نفس پر شاق ہیں اور ارکان صلوٰۃ کی صحت اور خوبی کے لئے جسم اور جان ہیں۔ اول یہ کہ نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ تاوقتیکہ جو منہ سے نکلے اس کو سمجھ بھی لو اور جنابت میں بھی نماز سے دور رہو یہاں تک کہ غسل کر کے تمام بدن کو خوب پاک کرلو کیونکہ نماز میں دو امر مہتم بالشان ہیں ایک حضور اور خشوع، دوسرے طہارت اور نظافت اور جملہ امور متعلقہ صلوٰۃ میں یہی دو امر نفس پر شاق بھی ہیں اور نشہ خشوع اور حضور کے مخالف ہے تو جنابت طہارت اور نظافت کے منافی ہے بلکہ نشہ چونکہ مثل نوم اور غشی ناقض وضو ہے تو اس لئے طہارت کے بھی مخالف ہے تو مطلب یہ ہوا کہ نماز کو پورے اہتمام سے پڑھو اور جملہ امور ظاہری اور باطنی کا لحاظ رکھو گو نفس پر شاق ہو۔ باقی اس خاص موقع پر اس تاکید اور تقیید کے ارشاد فرمانے سے دو نفعے معلوم ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ احکام کثیرہ مذکورہ بالا جن میں حقوق اور معاملات باہمی اور عبادات جانی و مالی کا ذکر تھا ان سب کو بجالانے کے ساتھ بخل اور ریا اور خودپسندی اور بڑائی سے بھی مجتنب رہنا چونکہ نفس پر شاق ہے اور سننے والوں کو خلجان کا موقع ہے تو اس دشواری اور خلجان کا علاج بتانا منظور ہے یعنی نماز کو اس کی شرائط و آداب ظاہری و باطنی کے ساتھ ادا کرو گے تو جملہ اوامر ونواہی مذکورہ بالا کی تعمیل تم پر سہل ہوجائے گی کیونکہ نماز کی وجہ سے جملہ اوامرو عبادات میں سہولت اور رغبت اور تمام منہیات اور معاصی سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ دیگر آیات و احادیث میں مذکور ہے اور علمائے محقیقن نے تصریح فرمائی ہے۔ دوسرے یہ کہ احکام کثیرہ سابقہ کو سن کر بعید نہیں جو کاہل کم ہمت اپنے آپ کو مجبور خیال کر کے ہمت ہار دیں اور اس کاہلی کا اثر نماز میں بھی ظاہر ہونے لگے جس کی شرائط و آداب بہت کچھ ہیں اور جو ہر وقت موجود ہے اس لئے نماز کا اہتمام مناسب ہوا۔ الحاصل جو کوئی اقامت صلوٰۃ کا اہتمام اور التزام رکھے گا اس کو دیگر احکام جانی و مالی میں بھی آسانی اور سہولت ہوگی اور جو کوئی دیگر احکام میں کاہلی اور بےپروائی کرتا ہے اس سے اقامت صلوٰۃ میں بھی کوتاہی کرنا بعید نہیں، واللہ اعلم
Top