Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 45
وَ اُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلٰى مَاۤ اَنْفَقَ فِیْهَا وَ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا
وَاُحِيْطَ : اور گھیر لیا گیا بِثَمَرِهٖ : اس کے پھل فَاَصْبَحَ : پس وہ رہ گیا يُقَلِّبُ : وہ ملنے لگا كَفَّيْهِ : اپنے ہاتھ عَلٰي : پر مَآ اَنْفَقَ : جو اس نے خرچ کیا فِيْهَا : اس میں وَھِيَ : اور وہ خَاوِيَةٌ : گرا ہوا عَلٰي : پر عُرُوْشِهَا : اپنی چھتریاں وَيَقُوْلُ : اور وہ کہنے لگا يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش لَمْ اُشْرِكْ : میں شریک نہ کرتا بِرَبِّيْٓ : اپنے رب کے ساتھ اَحَدًا : کسی کو
اور پھر اس کے پھل گھیرے میں آگئے وہ ہاتھ مل مل کر افسوس کرنے لگا کہ ان باغوں کی درستگی پر میں نے کیا کچھ خرچ کیا تھا اور باغوں کا یہ حال ہوا کہ وہ اوندھے گر کر زمین کے برابر ہوگئے ، اب وہ کہتا ہے ، اے کاش ! میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا !
زیادہ وقت نہ نکلا تھا کہ اس کے باغات کو گھیرلیا گیا اور وہ آفت زدہ ہو کر رہ گئے : 45۔ بالاخر یہی ہوا کہ اس کے وہ دونوں باغات جن کی شادابیوں اور عطر بیزیوں پر اس کو گھمنڈ تھا اچانک جل بھن کر خاک ہوگئے اور کل جہاں چمن زار تھا آج وہاں ویرانی کے سوا کچھ نہ تھا اس حالت کو دیکھ کر اس پر کیا گزری ہوگی قرآن کریم نے آگے بات نہیں چلائی اس لئے کہ اس ناگفتنی حالت کو فطرت انسانی خود سمجھتی ہے کہ آسانیوں اور فراونیوں کے بعد مشکلات اور تنگ دستیاں آجائیں تو کیا ہوتا ہے ؟ وہ منظر اللہ نہ دکھائے کہ انسان نہ مرتا ہے نہ جیتا ۔ اللہ کرے کہ انسان کی گزشتہ زندگی سے آنے والی زندگی آسان سے آسان تر ہوتی جائے ، اگر ایسا ہو تو سمجھ لو کہ یہ اللہ کا خاص فضل و احسان ہے اور پھر اس طرح آخر سے آخر تک اللہ انہی آسائشوں سے دوچار کردے اور اس طرح دشواریاں دور ہوتی جائیں ، غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر اپنے احسانات کا ذکر فرمایا تو اس میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” وللاخرۃ خیرلک من الاولی “۔ یقینا آپ ﷺ کے لئے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے ۔ (93 : 4) اور یہ خوشخبری اس وقت سنائی جب مٹھی بھر آدمی آپ کے ساتھ تھے اور ساری قوم آپ ﷺ کی مخالفت میں کمر بستہ تھی اور اسلام کی شمع مکہ میں بس ذرا ذرا ٹمٹما رہی تھی اور بجھانے کے لئے مکہ میں طوفان پر طوفان اٹھ رہے تھے ، لیکن پھر کیا ہوا ؟ وہی جو اللہ نے فرمایا دیا تھا اس لئے اللہ کا کہا لوہے پر لکیر ہے جو کسی کے مٹائے نہیں مٹتی اس لئے دنیا نے دیکھا کہ آپ ﷺ کی زندگی پر آنے والا دن جانے والے دن سے بہتر ثابت ہوا اگرچہ ظاہر بینوں کو یہ بات ایک مدت کے بعد نظر آئی ۔ بہرحال جب اس کا باغ آفت زدہ ہوگیا اور اس کی حالت ایسی ہوگئی کہ جو آنکھ اس کو دیکھتی وہ اشکبار ہوجاتی اور ہر دل جو اس کی حالت سنتا توبہ توبہ کرتا اس وقت اس نے دست افسوس ملنا شروع کئے اور کہنے لگا ” ان باغوں کی درستگی پر تو میں نے کیا کچھ ہی خرچ کیا تھا اور اب باغوں کا یہ حال ہوا کہ ٹٹیاں گر کر زمین کے برابر ہوگئیں ۔ ہائے افسوس ! کہ میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ “ لیکن اب وقت نکل چکا تھا وہ نقصان تو واپس آ نہیں سکتا تھا تاہم یہ افسوس اگر وقتی نہیں تھا تو یقینا اس کے کام آیا ہوگا اور اگر وقتی بات تھی تو ظاہر ہے کہ اس کا انجام بخیر نہیں ہوا ہوگا بہرحال مثال سبق آموز ہے اگر کوئی سبق حاصل کرنا چائے ۔
Top