Ahkam-ul-Quran - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہم نے ہر ایک امت کے لئے ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں تو یہ لوگ تم سے اس امر میں جھگڑا نہ کریں اور تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو بیشک تم سیدھے راستے پر ہو
منسک کسے کہتے ہیں ؟ قول باری ہے (لکل امۃ جعلنا منسکا ھم ناسکرہ فلاینازعنک فی الامر۔ ہر امت کے لئے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔ پس اے محمد ! وہ اس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں) ایک قول کے مطابق منسک اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی عمل خیر یا شر کے لئے عام ہو اور اس بنا پر لوگ اس سے مانوس ہوں۔ حج کے مناسک و ہ مقامات ہیں جہاں حج کے دوران عبادتیں کی جاتی ہیں اس لئے یہ مقامات حج کی عبادات ادا کرنے کے مقامات قرار پائے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ منسک عید کو کہتے ہیں۔ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ منیٰ وغیرہ میں قربانی کے جانور کا خون بہا کر اظہار بندگی کا نام منسلک ہے۔ عطار، مجاہد اور عکرمہ کا قول ہے کہ ہر امت کے لئے جانوروں کی ذبح کی عبادت مقرر کی گئی ہے جس کے لئے وہ جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق منسک ان تمام عبادات کا نام ہے جنہیں بجا لانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ ابوبکر جصاص ان اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت برنا بن عازب کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ عید قربان کے دن باہر تشریف لائے اور فرمایا (ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلوۃ ثم الذبح۔ آج ہماری پہلی عبادت نماز ہوگی اور اس کے بعد قربانی) آپ نے نماز اور ذبح یعنی قربانی دونوں کو نسک قرار دیا یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے۔ ہے کہ نسک کے اسم کا اطلاق تمام عبادات پر ہوتا ہے تاہم تقرب الٰہی کی جہت سے ذبح ہونے والے جانور پر اس کا اطلاق عرف عام کے لحاظ سے زیادہ غالب اور واضح ہے۔ قول باری ہے (ففدیۃ من صیام او صدقۃ اونسک تو فدیہ ادا کرے روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں۔ اگر نسک سے تمام عبادات مراد ہوں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے اس صورت میں ذبح بھی آیت کی مراد میں داخل ہوگی اور یہ چیز اس امر کی موجب ہوگی کہ لوگوں کو جانور کی قربانی دینے کا پابند کردیا گیا ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (فلا ینا زعناک فی الامر) جب ہم جانور کی قربانی دینے کے پابند ہوگئے تو اس صورت میں اضحیہ کے وجوب پر اس سے استدلال کی گنجائش پیدا ہوجائے گی۔ اس لئے کہ زکوۃ کی ادائیگی کی طرح خوش حال لوگوں کی طرف سے عام طور پر قربانی دی جاتی ہے۔ اگر ہم اس سے حج کے موقعہ پر واجب ذبح مراد لیں تو پھر سا کا تعلق قران اور تمتع کی قربانیوں کے ساتھ خاص ہوگا اس لئے کہ حج کے اندر یہی دونوں قربانیاں نسک ہیں، باقی قربانیاں نسک نہیں کہلاتی ہیں۔ اس لئے کہ حج کے دوران ان کا وجوب کسی کمی کی تلافی یا جرم کی سزا کے طور پر ہوتا ہے۔ اس بنا پر ان کا وجوب بنیادی طور پر عبادت کے سلسلے میں نہیں ہوتا۔ جبکہ ظاہر قول ہے (جعلنا منسکا ھم ناسکوہ) اس امر کا مقتضی ہے کہ اس کے ساتھ شروع ہی سے عبادت کا ایجاب ہوا ہے۔ آیا قربانی واجب، سنت یا مستحب ہے ؟ سلف اور فقہاء مصار کے مابین اضحیہ یعنی عید قربان کے موقع پر کی جانے والی قربانی کے وجوب کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ شعبی نے ابو سریحہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو دیکھا تھا کہ یہ حضرات قربانی نہیں دیتے تھے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ حضرت بن عباس انہیں عید قربان کے دن دو درہم دے کر گوشت خریدنے کے لئے بھیج دیتے اور فرماتے کہ راستے میں جو شخص تم سے ملے اس سے کہہ دینا کہ یہ ابن عباس کا اضیحہ ہے۔ حضرت ابن عمر کا قول ہے کہ قربانی کوئی لازمی چیز نہیں ہے البتہ سنت اور نیکی ہے۔ حضرت ابو مسعود نصاری کہا کرتے تھے کہ میں خوشحال ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتا، اس کی وجہ صرف یہ اندیشہ ہے کہ کہیں میرے پڑوسی سے دیکھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ قربانی مجھ پر لازم ہے۔ “ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ مسافر کے سوا دوسروں پر قربانی واجب ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ لوگ جب موجود ہوتے یعنی مقیم ہوتے تو قربانی کرتے اور اگر مسافر ہوتے تو قربانی نہ کرتے ۔ یحییٰ بن الیمان نے سعید بن عبدلاعزیز سے اور انہوں نے محکول سے روایت کی ہے کہ قربانی واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جو لوگ مقیم اور خوشحال ہوں خواہ وہ شہری باشندے ہوں یا دیہاتی ، ان پر قربانی واجب ہے ۔ مسافروں پر واجب نہیں۔ خواہ مسافر خوشحال ہی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں یسار یعنی خوشحالی کی حدود ہے جس پر پہنچ کر صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے۔ امام ابو یوسف سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ امام ابو یوسف سے ایک اور روایت کے مطابق قربانی واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ تمام لوگوں پر خواہ وہ مقیم ہوں یا مسافر قربانی ہے ۔ جس شخص نے بلا عذر قربانی نہ کی اس نے بہت برا کیا۔ سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے۔ سفیان نے یہ بھی کہا ہے کہ قربانی نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عبداللہ بن الحسن کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کو قربانی کا جانور دے دے تو میرے نزدیک اس کا یہ فعل قربانی دینے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان آراء پر ابوبکر جصاص رائے زنی کرتے ہئے کہتے ہیں کہ جو لوگ قربانی کے وجوب کے قائل ہیں وہ آیت زیر بحث سے استدلال کرتے ہیں نیز قول باری (قل ان صلوتی ونسکی و محیای و مباتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذلک امرت کہہ دو میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے) سے بھی ان کا استدلال ہے۔ یہ آیت اضحیہ کے امر کی مقتضی ہے اس لئے کہ اس مقام پر نسک سے اضحیہ یعنی عید قربان پر دی جانے والی قربانی مراد ہے ۔ اس س پر سعید بن جبیر کی وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضرت عمران بن حصین سے کی ہے کہ حضو ر ﷺ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا تھا (یا فاطمۃ اشھدی اضحیتک فانہ یغفرلک یا ول قطرۃ من دمھا کل ذنب عملتیہ و قولی (ان صلوتی ونسکی ومعیای و مسماتی للہ رب العالمین) اے فاطمہ ! اپنی قربانی کو ذبح ہوتا ہوا دیکھو اس لئے کہ اس کے خون کے پہلے قطرے کے ساتھ تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے اور اس وقت یہ پڑھو (بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موث سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے ) ایک روایت کے مطابق حضرت علی قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یہی آیت تلاوت کرتے تھے۔ حضرت ابوبردہ بن نیار نے عید قربان کے دن حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ” اللہ کے رسول ! میں نے اپنے نسک یعنی قربانی کے سلسلے میں تعجیل کرلی ہے۔ “ حضور ﷺ کا اشراد ہے (ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلوۃ ثم الذبح۔ آج کے دن ہماری پہلی عبادت نماز ہے اور اس کے بعد قربانی ہے) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نسک سے کبھی اضحیہ بھی مراد ہتا ہے۔ نیز حضور ﷺ نے یہ بتایا کہ آپ کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات قول باری (وبذلک امرت اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے) سے معلوم ہوتی ہے اور امر ایجاب کا مقتضی ہوتا ہے۔ اس بارے میں قول باری (فصل لربک وانحو پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی دو ) سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس آیت میں نماز سے نماز عید اور نحر سے قربانی مراد ہے۔ امر وجوب کا مقتضی ہوتا ہے جب ایک چیز حضور ﷺ پر واجب ہوگئی تو وہ ہم پر بھی واجب ہوگی۔ کیونکہ قول باری ہے (فاتبعوہ اس کی یعنی رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرو) نیز ارشاد ہے (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ تمہارے لئے رسول اللہ (ﷺ ) کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے) روایات کی جہت سے قربانی کے وجوب کے قائلین اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو زید بن الحساب نے عبداللہ بن عیاش سے نقل کی ہے۔ انہیں اعرج نے حضرت ابوہریرہ سے انہوں نے کہا کہ حضو ر ﷺ نے فرمایا (من کان لہ یسار فلم یضح فلا یقرین مصلانا جس شخص کو وسعت اور فراخی میسر ہو اور پھر وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری نمازگاہ کے قریب بھی نہ آئے) اس حدیث کو زید بن الحساب کے علاوہ ایک جماعت نے مرفوعاً روایت کی ہے جس میں یحییٰ بن سعید بھی شامل ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عباس بن الولید نے، انہیں الہیشم خارجہ نے، انہیں یحییٰ بن سعید نے عبداللہ بن عیاش سے، انہوں نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من قدر علیٰ سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلانا جس شخص کو کشائش اور فراخی حاصل ہو اور پھر وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری نماز گاہ کے قریب بھی نہ آئے) اس حدیث کو یحییٰ بن یعلیٰ نے بھی مرفوعاً روایت کی ہے۔ ہمیں نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اسحاق نے انہیں احمد بن النعمان الفراء نے ، انہیں یحییٰ بن یعلی نے حضرت عبداللہ بن عباس سے یا عباس نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من وجد سعۃ فلم یضع فلا یقربن مسجدنا ) جس شخص کو کشائش اور فراخی حاصل ہو اور پھر وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے) اسی حدیث کو عبید اللہ بن ابی جعفر نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ ” جس شخص کو کشائش اور فراخی میسر ہو اور وہ قربانی نہ دے تو وہ ہماری نمازگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ “ ایک قول کے مطابق عبید اللہ بن ابی جعفر ضبط حدیث اور جلالت روایت میں ابن عیاش سے بڑھ کر ہیں۔ انہوں نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ پر موقوف کیا ہے، اسے مرفوعاً بیان نہیں کیا۔ ایک قول کے مطابق اس بارے میں درست بات یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع نہیں ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ پر جا کر موقوف ہوگئی ہے۔ قربانی کا حکم باقی ہے اور عتیرہ منسوخ ہے اضیحہ کے ایجاب پر ابور رملہ الحنفی کی حدیث سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ یہ حدیث انہوں نے مخنف بن سلیم سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (علی کل اھل بیت فی عامر اضحیۃ وعتیرۃ ہر خاندان پر ہر سال ایک قربانی اور ایک عتیرہ ہے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عتیرہ بالاتفاق منسوخ ہ، اس کی صورت یہ تھی کہ لوگ رجب کے مہینے میں روزہ رکھتے پھر بکری ذبح کرتے اسے رجبیہ بھی کہتے ہیں۔ ابن سیرین اور ابن عون دونوں اس پر عمل پیرا رہے۔ عتیرہ تو بالانفاق منسوخ ہے لیکن اضحیہ کے نسخ پر کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی اس لئے اس حدیث کے مقتضی کی روشنی میں یہ واجب ہے تاہم اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ ہر خاندان پر ایک قربانی ہے یہ بات تو معلوم ہے کہ ایک واجب قربانی پورے خاندان کے لئے کافی نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک فرد کی طرف سے ادا ہوتی ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے ایجاب مراد نہیں لیا ہے۔ قربانی کے ایجاب کے قائلین اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی۔ انہیں احمد بن ابی عون البزوری نے ، انہیں ابو معمر اسماعیل بن ابراہیم نے ، انہیں ابو اسماعیل المودب نے مجالد سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے حضرت جابر اور حضرت براء بن عازب سے کہ حضور ﷺ نے عید قربان کے دن منبر پر ارشاد فرمایا (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ فلیذ بح بعد الصلوۃ جس شخص نے ہمارے ساتھ یہ نماز پڑھی ہے وہ اب نماز کے بعد قربانی کرے) یہ سن کر حضرت ابوبردہ بن نیار کھڑے ہوگئے اور عرض کیا ” اللہ کے رسول ! میں نے پہلے ہی جانور ذبح کرلیا تھا خیال یہ تھا کہ جب عید کی نماز سے فارغ ہو کر آئیں گے تو دوستوں کے ساتھ مل کر گوشت کھائیں گے۔ آپ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا (لیس منک تمہاری قربانی نہیں ہوئی) انہوں نے پھر عرض کیا۔” میرے پاس بکری کا ایک بچہ ہے۔ “ آپ نے فرمایا۔” اس کی قربانی دے دو ، تمہاری طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی لیکن تمہارے سوا کسی اور کی طرف سے اس کی قربانی ادا نہیں ہوگی۔ ‘ ‘ اس روایت سے کئی وجوہ کی بنا پر قربانی کے وجوب پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اول حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ فلیذ حج بعد الصلوۃ) اس میں ذبح کا حکم ہے جس کا ظاہر وجوب کا مقتضی ہے ۔ دوسری وجہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ (تجزی عنک ولا تجزی عن غیرک) اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس بکری کے بچے کی قربانی کے ذریعے تمہاری قربانی ادا ہوجائے گی اس لئے کہ محاورہ ہے ” جزی عنی کذا “ جس کے معنی ہیں۔” اس نے میری طرسے فلاں چیز ادا کردی “ اور ادائیگی واجب چیز کی ہوتی ہے یہ بات وجوب کی مقتضی ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے، اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ آئے ہیں (فمن ذبح قبل الصلوۃ فلیعد اضحیۃ جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی دی ہے وہ دوبارہ قربانی کرے) بعض طرق میں یہ ذکر ہے آپ نے حضرت ابوبردہ سے فرمایا (اعد اضحیتک اپنی قربانی دوبارہ کرو) جو حضرات اس بات کو تسلیم نہیں کرتے وہ یہ کہتے ہیں کہ حضو ر ﷺ کا یہ ارشاد (من صلی معنا ھذہ الصلوۃ وشھد معنا فلیذبح جس شخص نے ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھی اور ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوا وہ قربانی کرے) اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ایجاب مراد نہیں لیا ہے اس لئے کہ سب کے نزدیک قربانی کے وجوب کا نماز میں شمولیت کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ جب یہ بات سب کے لئے عام ہے اور اس میں مال داروں کی تخصیص نہیں ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حضور ﷺ نے مدب اور استحباب مراد لیا ہے۔ رہ گیا آپ کا یہ ارشاد کہ (تجزی عنک بکری کے بچے کی قربانی تمہاری طرف سے ادا ہوجائے گی) تو اس سے آپ سے آپ نے اس عبادت کا جو ازمراد لیا ہے۔ جو از اور قضاء یعنی ادائیگی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک جواز قربت یعنی عبادت کا جواز اور دوسرا جواز فرض۔ لفظ جواز اور قضاء کا اطلاق ظاہراً وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ابو بردہ نے نذر کے طور پر اپنے اوپر قربانی واجب کرلی ہو۔ اس لئے حضور ﷺ نے انہیں دوبارہ قربانی دینے کا حکم دیا ۔ اس لئے آپ نے جن الفاظ کے ذریعے حضرت ابوبردہ کو خطاب کیا ہے وہ وجوب پر دلالت نہیں کرتے۔ اس لئے کہ یہ ایک معین شخص کے لئے حکم تھا ہر شخص پر عموم لفظ کے ذریعے قربانی کا ایجاب نہیں تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ اگر واجب کی ادائیگی مراد لیتے تو آپ حضرت ابوبردہ سے اس قربانی کی قیمت ضرور پوچھتے تاکہ ان پر اس کے مثل کا ایجاب ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابوبردہ نے یہ عرض کیا تھا کہ ” میرے پاس بکری کا بچہ ہے جس میں دو بکریوں سے زیادہ گوشت ہے۔ “ اس طرح بکری کا بچہ اس جانور سے بہتر تھا جو انہوں نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا تھا۔ قربانی کے وجوب پر نظر اور قیاس سے استدلال کیا جاسکتا ہے وہ اس طرح کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نذر کی صورت میں قربانی لازم ہوجاتی ہے۔ اگر وجوب کے حکم کے اندر قربانی کے لئے اصل موجود نہ ہوتی تو نذر کی بنا پر یہ ہرگز لازم نہ ہوتی جس طرح دوسری تمام چیزوں کا حکم ہے کہ اگر وجوب کے حکم کے اندر ان کی اصل موجود نہ ہو تو وہ نذر کی بنا پر واجب نہیں ہوتیں۔ قربانی کے وجوب پر اس روایت سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جسے جابر الحنفی نے نقل کی ہے انہوں نے ابو جعفر سے اس کی روایت سے کی ہے وہ کہتے ہیں۔ اضحیہ نے ہر اس ذبح کو منسوخ کردیا جو اس سے قبل ہوتی تھی، زکوۃ نے ہر اس زکوۃ کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے ادا کی جاتی تھی۔ رمضان کے روزے نے ہر اس روزے کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے رکھا جاتا تھا اور غسل جنایت نے ہر اس غسل کو منسوخ کردیا جو اس سے پہلے عمل میں آتا تھا۔ “ یہ بات اضحیہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ اس کی وجہ سے ماقبل کی قربانی کی تمام صورتیں منسوخ ہوگئیں۔ اس کی وجہ سے جو چیز منسوخ ہوئی ہے وہ واجب کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہر وہ حکم جس کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہو کہ یہ اپنے ماقبل کے لئے ناسخ ہے وہ فرض یا واجب ہوتا ہے۔ ابوبکر جصاص اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے نزدیک وجوب پر دلالت نہیں کرتی، اس لئے کہ واجب کا نسخ دراصل وجوب کی مدت کا بیان ہوتا ہے۔ جب نسخ کے ذریعے یہ بیان کردیا جائے کہ ایجاب کی مدت اس وقت تک کے لئے تھی تو اس میں ایسی بات نہیں پائی جائے گی جو کسی اور حکم کے ایجاب کی مقتضی بن سکتی ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر حضور ﷺ یہ فرماتے کہ تم لوگوں سے عتیرہ (رجب کے مہینے میں ذبح ہونے والی بکری) اور عقیقہ بچے کی پیدائش کے سات دن بعد ذبح کیا جانے والا جانور) نیز دوسرے تمام ذبائح کا حکم منسوخ ہوچکا ہے تو اس ارشاد میں کسی اور ذبیحہ کے وجوب پر دلالت نہ ہوتی۔ اس بنا پر درج بالا قول میں کہ ” اضحیہ نے ماقبل کے ہر ذبیحہ کو منسوخ کردیا ہے۔ “ اضحیہ کے وجوب پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس مقام پر نسخ کے ذکر کا فائدہ صرف یہ ہے کہ جب ہمیں اضحیہ کی ترغیب دلائی گئی تو اس کے بعد اب کوئی واجب ذبیحہ باقی نہیں رہا۔ قربانی کے وجوب کی نفی پر اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے، انہیں عبدالعزیز بن الخطاب نے، انہیں مندل بن علی نے ابوحباب سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الاضحی علی فریضۃ وھو علیکم سنۃ قربانی مجھ پر فرض ہے لیکن تمہارے لئے سنت ہے) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں سعید بن محمد ابو عثمان الا نجدانی نے، انہیں الحسن بن حماد نے، انہیں عبدالرحیم بن سلیم نے عبداللہ بن محرز سے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے حضرت انس سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (امرت بالاضحی والو ترولم تعزم علی۔ مجھے قربانی کرنے اور وتر پڑھنے کا حکم ملا ہے لیکن یہ مجھ پر لازم نہیں کئے گئے ہیں۔ ) ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن علی بن العباس الفقیہ نے، انہیں عبد اللہ بن عمر نے۔ انہیں محمد بن عبدالوارث نے، انہیں ابان نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا (ثلاث ھن علی فریضۃ ولکم تطرع الاضحی والو تر والضحی تین باتیں میرے لئے فرض ہیں اور تمہارے لئے نفل ہیں۔ قربانی، و تر کی نماز اور چاشت کی نماز) ان روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی ہم پر واجب نہیں ہے۔ تاہم اگر روایات میں کسی حکم کی نفی اور اثبات میں تعاضر ہوجائے تو اثبات و ایجاب کی روایات اولیٰ ہوں گی۔ ان پر دو وجوہ کی بنا پر عمل کرنا اولیٰ ہوگا۔ ایک تو یہ کہ اباحت ترک پر ایجاب وارد ہوتا ہے دوسری یہ کہ ایجاب کی روایات میں ترک کی ممانعت ہے اور نفی کی روایات میں ترک کی اباحت ہے اور ممانعت اباحت اولیٰ ہوتی ہے۔ نفی وجوب پر اس روایت سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابو دائود نے انہیں ہارون بن عبداللہ نے ، انہیں عبداللہ بن یزید نے، انہیں سعید بن ایوب نے، انہیں عیاش القتبانی نے عیسیٰ بن ہلال ا لصدفی سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (امرت بیوم الاضحی عیداً جعلہ اللہ لھذہ الا مۃ مجھے عید قربان کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے مقرر کیا ہے) ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا۔” اگر میرے پاس صرف ایک اونٹنی ہو جو مجھے اس کے دودھ سے فائدہ اٹھانے کے لئے ملی ہو تو آیا میں اس کی قربانی کر دوں۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” نہیں، اگر تم اپنے بال اتروا لو، ناخن ترشوا لو، مونچھیں کتروا لو اور موئے زیر ناف صاف کرلو تو اللہ کے نزدیک اس سے تمہاری قربانی کی تکمیل ہوجائے گی۔ “ جب حضور ﷺ نے درج بالا امور کو بمنزلہ اضحیہ قرار دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ اضحیہ واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان افعال کو سرانجام واجب نہیں ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے انہیں ابراہیم بن موسیٰ الرازی نے ، انہیں عیسیٰ نے ، انہیں محمد بن اسحاق نے یزید بن ابی حبیب سے، انہوں نے ابو عیش سے انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور ﷺ نے یوم النحر کو دو خوبصورت خصی شدہ اور سینگوں والے مینڈھے ذبح فرمائے۔ جب آپ نے ذبح کرنے کے لئے ان دونوں کو لٹایا تو یہ دعا پڑھی (انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض علی ملۃ ابراہیم حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسکی و محیای و مباتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذلک امرت وانا اول المسلمین، اللھم منک ولک عن محمد و امتہ باسم اللہ واللہ اکبر۔ میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ملت ابراہیمی پر ہوں سب سے یک سو ہو کر، میں مشرکین میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زنگدی اور میری موت سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اطاعت کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ ! یہ تیری ہی طرف سے عطا ہوئی ہے اور تیرے ہی لئے ہے، یہ قربانی محمد (ﷺ ) اور اس کی امت کی طرف سے ہے، اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ سب سے بڑا ہے ) اس کے بعد آپ نے دونوں جانوروں کو ذبح کردیا۔ ان حضرات کا قول ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ غیر واجب ہے اس لئے کہ اگر قربانی واجب ہوتی تو ایک مینڈھا پوری امت کی طرف سے قربانی کے لئے کافی نہ ہوتا۔ ابوبکر جصاص اس استدلال کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بات وجوب کی نفی نہیں کرتی۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے امت کی طرف سے تطوع اور رضا کارانہ طور پر یہ قربانی دی تھی اور یہ بات جائز ہے کہ ایک شخص جس پر قربانی واجب ہو اس کی طرف سے کوئی رضا کارانہ طور پر قربانی دے دے جس طرح ایک شخص جس پر قربانی واجب ہوتی ہو اگر وہ نفلی قربانی دے گا تو اس کی یہ قربانی جائز ہوگی لیکن یہ چیز اس پر لازم شدہ قربانی کے وجوب کو ساقط نہیں کرے گی۔ ہم نے سلف سے قربانی کے ایجاب کی نفی میں جو روایتیں نقل کی ہیں ان سے دو وجوہ کی بنا پر فنی وجوب پر استدلال ہوسکتا ہے ایک تو یہ کہ ان حضرات کے ہم چشموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں گزرا جس سے نفی وجوب کے خلاف روایت منقول ہو، جبکہ ان حضرات سے ہماری مذکورہ نفی ایجاب کی روایتیں پوری طرح پھیلی ہوئی اور مشہور تھیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر قربانی واجب ہوتی تو لوگوں کو اس حکم کی عمومی طور پر ضرورت ہوتی جس سے یہ بات لازم ہوجاتی کہ حضور ﷺ کی طرف سے صحابہ کرام کو اس کے وجوب کے حکم سے ضرور آگاہ کردیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی طرف سے صحابہ کرام کو آگاہ کردیا جاتا تو یہ حکم استفاضہ اور تواتر کی صورت میں امت کے اندر نقل ہوتا اور کچھ نہ ہوتا تو کم از کم اس حکم کی روایت اسی درجے کی ہوتی جس درجے کی صدقہ فطر کے حکم کی روایت ہے اس لئے کہ لوگوں کو عمومی طور پر اس حکم کے جاننے کی ضرورت تھی۔ جب امت کے اندر استفاضہ کی صورت میں اس حکم کی روایت موجود نہیں ہے تو یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے ۔ ا سلسلے میں یہ استدلال بھی کیا جاسکتا ہے اگر قربانی واجب ہوتی جو کہ مال کو لاحق ہونے والا حق ہے تو مقیم اور مسافر کا حکم یکساں ہوتا ۔ اس کا وجوب دونوں پر ہوتا جس طرح صدقہ فطر کا وجوب دونوں پر ہے۔ لیکن جب امام ابوحنیفہ مسافر پر اس کے وجوب کے قائل نہیں ہیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ یہ سرے سے واجب نہیں ہے۔ ایک استدلال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر یہ واجب ہوتا جبکہ یہ مال کو لاحق ہونے والا حق ہے تو وقت کا گزر جانا اس کے وجوب کو ساقط نہ کرسکتا۔ اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ایام النحر گزر جانے کے ساتھ قربانی ساقط ہوجاتی ہے تو یہ امر اس کے عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ ایسے تمام حقوق جو مال کے اندر واجب ہوتے ہیں مثلاً زکوۃ، صدقہ فطر اور عشر وغیرہ وہ وقت کے گزر جانے کی بنا پر ساقط نہیں ہوتے۔
Top