Tafseer-e-Saadi - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہم نے ہر ایک امت کے لئے ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں تو یہ لوگ تم سے اس امر میں جھگڑا نہ کریں اور تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو بیشک تم سیدھے راستے پر ہو
آیت 67 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ہر امت کے لئے (منسکا) ایک عبادت مقرر کی ہے جو عدل و حکمت پر متفق ہونے کے باوجود بعض امور میں مختلف ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (لکل جعلنا منکم شرآ و منھا جاو لو شاء اللہ لجعلکم آپ واحآ و لکن لیبلوکم فی ما اٰتکم) (الماء آ : 5 /84) ” ہم نے تم میں سے ہر ایک گروہ کے لئے ایک شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا مگر اس نے جو احکام تمہیں دیئے ہیں وہ ان میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ “ (ھم ناسکوہ) یعنی وہ اس پر اپنے احوال کے مطابق عمل پیرا ہیں، اس لئے ان شریعتوں میں سے کسی شریعت پر اعتراض کی گنجائش نہیں، خاص طور پر ان پڑھوں کے لئے جو شرک اور کھلی جہالت میں مبتلا ہیں کیونکہ جب رسول کی رسالت دلائل کے ساتھ ثابت ہوگئی تو اس پر اعتراض کو ترک کرنا، ان تمام احکام کو قبول کرنا اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا واجب ہے، جو رسول لے کر آیا ہے، بناء بریں فرمایا : (فلاینازعنک فی الامر) یعنی آپ کی تکذیب کرنے والے اپنی فاسد عقل کی بنیاد پر آپ کے ساتھ جھگڑا کریں نہ آپ کی لائی ہوئی کتاب پر اعتراض کریں، جیسے وہ اپنے فاسد قیاس کی بنا پر مردار کی حلت کے بارے میں آپ سے جھگڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” جسے تم قتل کرتے ہو اسے تو کھالیتے ہو اور جسے اللہ تعالیٰ قتل کرتا ہے اسے نہیں کھاتے “ اور جیسے وہ سود کی حلت کے لئے کہتے ہیں : ” تجارت بھی تو سود ہی کی مانند ہے “ اور اس قسم کے دیگر اعتراضات، جن کا جواب دینا لازم نہیں۔ وہ درحقیقت، اصل رسالت ہی کے منکر ہیں، جس میں کسی بحث اور مجادلے کی گنجائش نہیں بلکہ ہر مقام کے لئے ایک الگ دلیل اور گفتگو ہے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والا، منکر رسالت جب یہ دعویٰ کرے کہ وہ تو صرف تلاش حق کے لئے بحث کرتا ہے تو اس سے یہ کہا جائے : ” آپ کیساتھ صرف رسالت کے اثبات اور عدم اثبات پر گفتگو ہوسکتی ہے “ ورنہ اس کا صرف اپنی بات پر اقتصار کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد محض عاجز کرنا اور مشقت میں ڈالنا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ٓ کو حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلائیں اور اسی رویے کو اپنائے رکھیں، خواہ معترضین اعتراض کریں یا نہ کریں اور یہ مناسب نہیں کہ کوئی چیز آپ کو اس دعوت سے ہٹا دے کیونکہ (انک لعلی ھدی مستقیم) ” یقیناً آپ سیدھے راستے پر ہیں “ جو معتدل اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے اور علم حق اور اس پر عمل کا متضمن ہے۔ آپ کو اپنی دعوت کی حقانیت پر اعتماد اور اپنے دین پر یقین ہے، لہٰذا یہ اعتماد اور یقین اس امر کے موجب ہیں کہ آپ اپنے موقف پر سختی سے جمے رہیں اور وہ کام کرتے رہیں جس کا آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے۔ آپ کا موقف مشکوک اور کمزور نہیں یا آپ کی دعوت جھوٹ پر مبنی نہیں کہ آپ لوگوں کی خواہشات نفس اور انکی آراء کی طرف التفات کریں اور ان کا اعتراض آپ کی راہ کو کھوٹا کر دے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (فتوکل علی اللہ انک علی الحق المبین) (النمل : 72 /97) ” اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے، بیشک آپ واضح حق پر ہیں۔ “ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد (انک لعلی ھدی مستقیم) میں جزئیات شرع پر معترضین کے اس اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ ہے جو عقل صحیح پر مبنی ہے کیونکہ ہدایت ہر اس چیز کا وصف ہے جسے رسول لے کر آئے ہیں۔ ہدایت وہ طریق کار ہے جس سے اصولی اور فروعی مسائل میں راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا حسن اور جن میں پنہاں عدل و حکمت عقل صحیح اور فطرت سلیم کے نزدیک معروف ہے اور یہ چیز مامورات و منہیات کی تفاصیل پر غور کرنے سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ بناء بریں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حالت میں ان کے ساتھ بحث کرنے سے گریز کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : (وان جدلوک فقل اللہ اعلم بما تعملون) ” اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں، تو کہہ دیجئے، اللہ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے مقاصد اور تمہاری نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ وہ تمہیں قیامت کے دن ان کی جزا دے گا اور تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں تم آپس میں اختلاف کرتے ہو۔ پس جو کوئی صراط مستقیم کے موافق ہوگا وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جنہیں نعمتوں سے نوازا جائے گا اور جو صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہوگا وہ جہنمیوں میں شامل ہوگا۔ اس کے فیصلے کی تکمیل یہ ہے کہ یہ فیصلہ اس کے علم کی بنیاد پر ہوگا، بنابریں اللہ تعالیٰ نے احاطہٓ علم اور احاطہٓ کتاب کا ذکر فرمایا : (الم تعلم ان اللہ یعلم ما فی السماء والارض) اللہ تعالیٰ پر تمام معاملات کے ظاہر و باطن، جلی و خفی اور اول و آخر میں سے کچھ بھی مخفی نہیں، زمین و آسمان کی موجودات کا احاطہ کرنے والا علم اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب میں درج کر رکھا ہے۔۔۔. اور وہ ہے لوح محفوظ۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اسے حکم دیا ” لکھ ! قلم نے عرض کیا ” کیا لکھوں ؟ فرمایا ” قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اسے لکھ “ (ان ذلک علی اللہ یسیر) اگرچہ تمہارے نزدیک اس کے تصور کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا مگر اللہ تعالیٰ کے لئے تمام اشیاء کے علم کا احاطہ کرنا بہت آسان ہے اور اس کے لئے یہ بھی بہت آسان ہے کہ آئندہ واقعات کے علم کو واقعات کے مطابق ایک کتاب میں درج کر دے۔
Top