Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہر اُمّت 115 کے لیے ہم نے ایک طریقِ عبادت  116 مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے محمدؐ ، وہ اِس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ 117 تم اپنے ربّ کی طرف دعوت دو، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو۔ 118
سورة الْحَجّ 115 یعنی ہر نبی کی امت۔ سورة الْحَجّ 116 یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظام عبادت کے معنی میں ہے۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ " قربانی کا قاعدہ " کیا گیا تھا، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ " تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں " اس کے وسیع معنی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کے تصریح کر رہا تھا۔ لیکن یہاں اسے محض " قربانی " کے معنی میں لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ بلکہ عبادت کو بھی اگر " پرستش " کے بجائے " بندگی " کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہوگا۔ اس طرح منسک (طریق بندگی) کے وہی معنی ہوجائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہوگا جو سورة مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجاً ، " ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی " (آیت 48) سورة الْحَجّ 117 یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دور کی امتوں کے لیے ایک " منسک " لائے تھے، اسی طرح اس دور کی امت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک حق ہے۔ سورة جاثیہ میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے ثَمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھا وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (آیت 18) " پھر (انبیاء بنی اسرائیل کے بعد) اے محمد ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک شریعت (طریقے) پر قائم کیا، پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے "۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الشوریٰ ، حاشیہ 20) سورة الْحَجّ 118 یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں۔
Top