Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہم نے ہر امت کے واسطے ایک طریقہ (ذبح و عبادت کا) مقرر کر رکھا ہے کہ وہ اس پر چلنے والے ہیں سو انہیں نہ چاہیے کہ آپ سے جھگڑا کریں (اس) امر میں،115۔ اور آپ ان کو اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہیے بیشک آپ ہی سیدھے راستے پر ہیں،116۔
115۔ یعنی یہ منکرین تو تقلید محض کے پجاری ہیں، انہیں اصلا کیا حق آپ پر اعتراض و گرفت کا ہے۔ (آیت) ” منسکا ھم ناسکوہ “۔ منسک سے مراد خصوصی اگرچہ موضع ذبح ہے لیکن لفظ جملہ عبادات کے لیے عام ہے۔ قال عکرمۃ ذبائح ھم ذابحوہ (جصاص) ولیس یمنع ان یکون المراد جمیع العبادات ویکون الذبح احد ماارید بالایۃ (جصاص) محققین نے کہا ہے کہ منسک یہاں شریعت کے مرادف ہے۔ قال ابن عباس یعنی شریعۃ ھم عاملون بھا (معالم) (آیت) ” فی الامر “۔ یعنی مسئلہ جو از ذبیحہ میں۔ یعنی فی امر الذبائح (معالم) شان نزول کی روایتوں میں آتا ہے کہ بعض مشرکوں نے مسلمانوں سے یہ عجیب کٹھ حجتی شروع کی تھی کہ تم لوگ اپنے مارے ہوئے (ذبح کئے ہوئے) کو جائز اور اللہ کے مارے ہوئے (مردار) کو ناجائز سمجھتے ہو۔ 116۔ انہیں آپ کو ٹوکنے کا کوئی حق نہیں۔ البتہ آپ کو حق انہیں ٹوکنے کا ہے کہ آپ تو راہ صحیح پر ہیں۔ آنکھوں والے پر فرض ہے کہ وہ اندھوں کو راستہ بتلائے۔ اندھوں کو یہ حق آنکھوں والوں کے مقابلہ میں نہیں پہنچتا۔ (آیت) ” وادع الی ربک “۔ یعنی اپنے پروردگار کے دین کی طرف بلائیے اے الی الایمان بربک (معالم)
Top