Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہم نے ہر ایک اُمت کے لئے ایک شریعت مقرر کردی ہے جس پر وہ چلتے ہیں تو یہ لوگ تم سے اس امر میں جھگڑا نہ کریں اور تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو۔ بےشک تم سیدھے رستے پر ہو
لکل امۃ جعلنا منسکاہم ناسکوہ فلا ینازعنک فی الامر (جتنی صاحب شریعت امتیں گزری ہیں ان میں سے) ہر امت کے لئے ذبح کا طریقہ مقرر کردیا تھا جس پر وہ ذبح کیا کرتے تھے سو ان لوگوں کو چاہئے کہ ذبح کے معاملے میں آپ سے (خواہ مخواہ کا) جھگڑا نہ کریں۔ اس جملہ کا گزشتہ سے پیوستہ جملوں سے معنوی بعد تھا اس لئے حرف عاطف ذکر نہیں کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت کی تفسیر اس طرح فرمائی ‘ ہم نے ہر امت کے لئے ایک شریعت مقرر کردی تھی جس پر وہ چلتے تھے۔ بعض نے منسک کا ترجمہ تیوہار کیا ہے ‘ مجاہد اور قتادہ نے قربانی کا مقام ترجمہ کیا ہے جس میں وہ قربانی کرتے تھے۔ بعض کے نزدیک منسک سے مراد ہے عبادت گاہ۔ بعض نے کہا (میلہ) مرکز انس جس سے وہ مانوس تھے۔ عربی میں منسک اس مقام کو کہتے ہیں جہاں کسی اچھے یا برے کام کے لئے لوگ جمع ہونے کے عادی ہوں۔ مناسکِ حج کو مناسک اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ لوگ حج کے مقامات پر ہر سال آتے اور جمع ہوتے ہیں۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے نسک ‘ عبادت۔ اَرِنَامَنَاسِکَنَا ہم کو ہماری عبادت کے مقامات بتادے۔ منسک کا معنی نفس ذبح ہے اور مقام ذبح بھی۔ نسیکۃ ‘ ذبیحہ۔ نسک میلہ کا مقام ‘ منسک بیٹھنے کی جگہ۔ اَلْاَمْرسے مراد ہے امر دین یا ذبح کے طریقے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ یا جاہل ہیں یا منادی جھگڑالو اگر عالم ہوتے اور منادی نہ ہوتے تو آپ ﷺ سے جھگڑا ہی نہ کرتے کیونکہ آپ کے دین کی صداقت ناقابل نزاع ہے۔ بغوی نے لکھا ہے اس آیت کا نزول بدیل بن ورقا ‘ یزید بن خنیس اور بشر بن سفیان کے متعلق ہوا ان لوگوں نے صحابۂ کرام ؓ سے کہا تھا اس کی کیا وجہ ہے کہ جس جانور کو تم اپنے ہاتھوں سے قتل (ذبح) کرتے ہو اس کو تو کھاتے ہو اور جس کو خدا براہ راست مار دیتا ہے اس کو نہیں کھاتے (اس کو مردار سمجھتے ہو) ۔ زجاج نے کہا بظاہر نزاع کی ممانعت مشرکوں کو ہے لیکن حقیقت میں ممانعت کا رخ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے۔ عرب کہتے ہیں فلاں شخص تم سے جھگڑا نہ کرے یعنی تم اس سے جھگڑا نہ کرو۔ لیکن ایسا ان افعال میں ہوتا ہے جو طرفین سے صادر ہوں (لیکن اگر فعل کا صدور ایک ہی شخص کی طرف سے ہو تو مذکورۂ بالا اسلوب بیان نہیں اختیار کیا جاسکتا) ۔ پس لاَ یَضْرِ بَنَّکَ زَیْدٌکایہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ تم زید کو نہ مارو۔ ہاں لاَ یُضَارِ بَنَّکَ زَیْدٌ (زید تم سے مار پیٹ نہ کرے) کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ تم زید کو نہ مارو۔ مخاصمت اور نزاع دو آدمیوں کے درمیان ہوتا ہے صرف ایک شخص سے (نزاع بین الطرفین کا صدور نہیں ہوسکتا) جب ایک نزاع ترک کر دے تو وجود مخاصمت باقی نہیں رہتا۔ (صرف یک طرفہ خصومت باقی رہتی ہے) ۔ وادع الی ربک انک لعلی ہدی مستقیم۔ اور (لوگوں کو) اپنے رب کی طرف بلاؤ۔ آپ بلاشک و شبہ سیدھے راستے پر ہیں۔ یعنی اپنے رب کی توحید و عبادت کی طرف بلکہ اس کی ذات اور بلا کیف قرب کی طرف بلائیے آپ بلاشبہ اس سیدھے راستے پر ہیں جو حق اور مراتب قرب تک پہنچاتا ہے۔
Top