Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہم نے ہر ایک امت کے لئے ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں تو یہ لوگ تم سے اس امر میں جھگڑا نہ کریں اور تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو بیشک تم سیدھے راستے پر ہو
67۔ 70:۔ چند مشرکوں نے صحابہ ؓ سے جھگڑا کیا تھا کہ تم اپنے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور کھاتے ہو اور اللہ کا مارا ہوا جانور نہیں کھاتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ مفسروں نے ان آیتوں کے معنی دو طرح بیان کئے ہیں ‘ ایک معنی تو یہ ہیں کہ ہر زمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک شریعت قائم کی ہے ‘ کبھی شریعت موسوی ہے اور کبھی عیسوی اور کبھی محمدی ‘ اپنے اپنے زمانے میں ہر شریعت حق اور اللہ کی بھیجی ہوئی ایک شریعت ہے ‘ ایک شریعت کا حکم پکڑ کر دوسری شریعت کے حکم میں حجت کرنا ٹھیک نہیں ہے دوسرے معنی یہ ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ کے علم میں نیک وبد چھٹ چکے ہیں اس لیے ہر ایک گروہ اپنی تقدیری خو اور عادت پر اڑا ہوا ہے۔ مسئلہ تقدیر کی عمدہ تحقیق : غرض اس دوسرے معنی میں اللہ کے علم غیب کا اور اللہ کے اس علم غیب کے موافق جو کچھ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے قرار پایا ہے اس کا ذکر ہے اسی کو تقدیر کہتے ہیں ‘ آگے کی آیتوں میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق لوح محفوظ میں یہ سب کچھ لکھا ہوا ہے اس لیے دوسرے معنی قرآن کے مطلب کے موافق ہیں ‘ یہ تقدیر الٰہی اور علم الٰہی کا مسئلہ ایسا مشکل ہے کہ اس میں بہت لوگ بہک گئے ہیں اور طرح طرح کی غلطی میں پڑگئے ہیں ‘ چناچہ فلسفی لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جزئیات کا علم نہیں اور اپنے اس قول پر دلیل انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ جزئی چیزیں بدلتی رہتی ہیں ‘ مثلا کبھی زید بھوکا ہے ‘ کبھی پیاسا ہے ’ کبھی بچپنے کی حالت میں ہے کبھی بڑھاپے کی حالت میں اگر زید کی ان سب حالتوں کا علم اللہ تعالیٰ کو ہوگا تو اللہ تعالیٰ کا علم بھی ہمیشہ گویا بدلتا رہے گا کیونکہ علم کی حالت بدلنے سے عالم کی حالت بھی بدل جاتی ہے علماء اسلام نے بہت آیتوں اور حدیثوں سے فلسفیوں کی عقلی دلیلوں کو غلط ٹھہرایا ہے اور عقلی جواب بھی دیئے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہر جزئی حالت کو پیدا کرنے سے پہلے جان کر لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے علم کی نسبت یہ کہنا کہ علم کی حالت بدلنے سے عالم کی حالت بھی بدل جاتی ہے بالکل غلط ہے کس لیے کہ علم کی حالت بدلنے سے اس عالم کی حالت بدل جاتی ہے جو عالم اس حالت کو پہلے سے نہ جانتا ہو ‘ اللہ تعالیٰ کا علم ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ایک گھڑی ساز ایک گھڑی کی عمر اور طرح طرح کی گھڑی کی حالت کو پہلے سے ذہن میں رکھ کر ایک گھڑی بنادے ‘ اب اس گھڑی کے تیار ہونے کے بعد اس گھڑی کی جس قدر حالتیں بدلیں گی ‘ ان سے اس گھڑی ساز کی حالت اس کے علم کی حالت کچھ نہ بدلے گی ‘ اس نے ان سب حالتوں کو پہلے ہی سے جان لیا ہے ‘ ہاں سوا اس گھڑی ساز کے اور لوگ جو اس گھڑی کا حال پہلے سے نہیں جانتے ‘ اس گھڑی کے نئے حال کے جاننے سے ان کے علم کی حالت اور خود ان کی حالت بدلے گی۔ اب اس مثال میں گھڑی ساز کے علم کی حالت اور اور لوگوں کی حالت کو ایک بتلانا جس طرح غلط ہے اسی طرح فلسفی لوگوں نے مخلوق کے علم کی حالت اور خالق کے علم کی حالت کو ایک جان کر ایک حالت کی جو دوسری حالت پر قیاس کیا ہے ‘ وہ بالکل غلط ہے ‘ یہ تو علم الٰہی میں فلسفی لوگوں نے جو غلطی کی ہے اس کا ذکر ہوا۔ اب تقدیر کے مسئلہ میں جبریہ اور قدریہ دونوں فرقوں نے غلطی کی ہے ‘ قدریہ لوگوں میں دو گروہ ہیں ایک گروہ تو تقدیر کو بالکل نہیں مانتا ‘ بلکہ یہ کہتا ہے کہ پہلے سے اللہ تعالیٰ نے کچھ نہیں لکھا ‘ بلکہ اب جو کچھ نیک وبد دنیا میں ہوتا ہے وہ بغیر اللہ کے پہلے سے لکھنے کے خود بندہ کرلیتا ہے ‘ دوسرا گروہ نیکی کو خدا کا فعل بتلاتا ہے اور بدی کو بندہ کا فعل کہتا ہے یہ عقیدہ پارسی لوگوں کے عقیدہ کے موافق ہے اسی واسطے قدریوں کے اس گروہ کو اس امت کے مجوس کہتے ہیں جبریہ فرقہ کا یہ عقیدہ ہے کہ بندہ کو اپنے فعل میں کچھ دخل نہیں ہے بلکہ وہ بمنزلہ ایک پتھر کے ہے ‘ جو کچھ نیک و بد کام بندہ کرتا ہے ‘ وہ خود خدا کرتا ہے ‘ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں امتحان کے لیے نیک وبد سب کچھ اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے اور بندہ کو ہر طرح کے فعل کا مختار کیا ہے ‘ جیسا کہ بندہ کرے گا ‘ ویسا ہی پھل پاوے گا اور علمائے اہل سنت نے جبریہ اور قدریہ دونوں مذہب کے لوگوں کی غلطیاں حدیث کی شرحوں اور عقائد کی کتابوں میں نقلی اور عقلی دلیلوں سے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ یہاں ان کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ حکم اور عمرہ کی قربانی کے وقت اور روز مرہ جانوروں کے ذبح کے وقت جو لوگ مردار جانوروں کا گوشت جائز ٹھہرانے کے لیے یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ مسلمان غلطی پر ہیں جو اللہ کے مارے ہوئے جانور کا گوشت نہیں کھاتے اور اپنے ہاتھ کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت کھاتے ہیں اور لوگوں کی ایسی حجتیں پیش کرنے کا سبب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق ہر فرقہ کا طریقہ لوح محفوظ میں لکھا جا چکا ہے اس کے موافق دنیا میں ہر فرقہ کا طریقہ پایا جاتا ہے ‘ اس واسطے اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں کو ذبح کے باب میں اللہ کا حکم سنا دو کیونکہ جس طریقہ پر تم ہو وہ اللہ کا بتایا ہوا سیدھا راستہ ہے اور جس طریقہ پر یہ لوگ ہیں وہ بےسند طریقہ ہے اس پر بھی جو لوگ جھگڑے سے باز نہ آویں تو ان لوگوں سے کہہ دیا جائے کہ ہمارا تمہارا فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو ہو کر اس فیصلہ کے بعد حق ونا حق ہر ایک کو معلوم ہوجاوے گا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو غیب کا علم نہیں ہے اس واسطے دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے تمام دنیا کا قیامت کے حال کا لوح محفوظ میں لکھا جانا ان کو مشکل معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اس لیے دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے تمام دنیا کا حال لوح محفوظ میں لکھ دینا اس کے نزدیک آسان ہے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کا حال لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے کس قدر مدت پہلے تمام دنیا کا حال لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے۔
Top