Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہم نے ہر امت کے لیے ایک طریق عبادت مقرر کردیاجس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں۔ تو اس معاملے میں وہ آپ سے جھگڑا نہ کریں۔ آپ انھیں اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں بیشک آپ اپنے رب کی طرف سے سیدھے راستے پر ہیں۔
لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَامَنْسَکًا ھُمْ نَاسِکُوْہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَ ط اِنَّکَ لَعَلٰی ھُدًی مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (الحج : 67) (ہم نے ہر امت کے لیے ایک طریق عبادت مقرر کردیاجس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں۔ تو اس معاملے میں وہ آپ سے جھگڑا نہ کریں۔ آپ انھیں اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں بیشک آپ اپنے رب کی طرف سے سیدھے راستے پر ہیں۔ ) قریش اور یہود کے اعتراضات اس آیت کریمہ میں ہر امت کے لیے ایک منسک کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور یہی مضمون انھیں الفاظ کے ساتھ اسی سورة کی آیت نمبر 24 میں گزر چکا ہے۔ لیکن دونوں منسک کے معنی میں اختلاف ہے۔ آیت نمبر 24 میں منسک کا معنی قربانی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں یہ حکم ” واؤ“ کے ساتھ آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مستقل حکم نہیں بلکہ احکام ِ حج ہی کے سلسلے کا ایک حکم ہے اور وہ ظاہر ہے قربانی ہی ہوسکتا ہے۔ اور دوسری یہ بات کہ آیت نمبر 24 میں منسک کے بعد جانوروں پر اللہ کے ذکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جانوروں پر اللہ کا ذکر قربانی کے تصور سے ہی میل کھاتا ہے۔ لیکن یہاں بغیر ” وائو عاطفہ “ کے یہ حکم آیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک مستقل حکم ہے، سابقہ احکام کا حصہ نہیں۔ ویسے بھی منسک کا حقیقی معنی قربانی نہیں بلکہ عبادت یا طریق عبادت ہے۔ آیت نمبر 24 میں ایک قرینے کی وجہ سے قربانی اس سے مراد لی گئی ہے۔ لیکن یہاں یہ اپنے اصل معنی یعنی طریق عبادت میں استعمال کیا گیا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کے خلات ایک ہنگامہ کھڑا کررکھا تھا کہ تمہیں دعویٰ یہ ہے کہ تم ملت ابراہیمی کو ماننے والے ہو اور تمہارے پیغمبر پر وحی اترتی ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو تم بعض ایسے جانوروں کا گوشت کیوں کھاتے ہو جنھیں سابقہ شریعتوں میں حرام کیا گیا ہے۔ اور مزید یہ بات کہ جو جانور تم اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے (مارتے) ہو اسے حلال سمجھتے ہو اور جسے اللہ ماردیتا ہے اسے حرام اور پلید کہتے ہو۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا اصولی جواب عنایت فرمایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جہاں تک مشرکین کی خانہ ساز شریعت کا تعلق ہے وہ تو اس قابل نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے البتہ ! اگر اہل کتاب قریش کو بعض حوالوں سے اکساتے ہیں کہ ہماری شریعت میں یہ یہ جانور حرام تھے اور اسلام نے انھیں حلال کردیا ہے تو ان سے یہ کہا گیا ہے کہ تم اچھی طرح اس بات کو جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جب بھی کوئی رسول بھیجا تو اس پر نئی شریعت اتاری اور نئی کتاب نازل کی۔ نئی شریعت میں سابقہ شریعت کی کچھ باتوں کو باقی رکھا جاتا تھا اور جہاں زمانے کے تقاضے کے مطابق تبدیلی کی ضرورت ہوتی تھی وہاں نیا حکم نازل کردیا جاتا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہر امت کو یہ بات سمجھائی جاتی تھی اگر کسی رسول کی شریعت میں سابقہ شریعت کے کسی حکم سے مختلف حکم ملتا ہے تو اس میں انکار کی کوئی بات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو یقینا اس کا حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو سابقہ شریعت کو علی حالہا قائم رکھے اور چاہے تو کچھ نئے احکام دے دے اور بعض احکام کو منسوخ کر دے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو شخص رسول پر اور اس کی کتاب پر ایمان نہیں لاتا اس کے لیے اس پر نازل ہونے والی شریعت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ چونکہ اس کی ایک ایک بات کو ناقابلِ قبول سمجھتا ہے اس لیے اس کی شریعت کے ہر حکم کو ماننے سے انکار کردیتا ہے اور اس کا یہ رویہ قابل فہم ہے۔ لیکن اس کا یہ بحث کرنا کہ فلاں شریعت میں ایسا تھا تم اس سے مختلف بات کیوں کہہ رہے ؟ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ کسی کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ یہ لوگ اگر اس حوالے سے آپ سے بحث کرتے ہیں تو انھیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے اور آپ انھیں ایسا کرنے کا موقع نہ دیں کیونکہ وہ ایک ایسی حرکت کررہے ہیں کہ نہ دنیا کا کوئی قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہمارے مذہب کی تاریخ اس کو جائز رکھتی ہے۔ کسی بھی ملک میں اگر نیا آئین مرتب کیا جاتا ہے اور پہلے سے اگر کوئی آئین موجود تھا اور اسے قوم کے نمائندے اگر منسوخ کردیتے ہیں تو کوئی شخص ان نمائندوں پر یہ قدغن عائد نہیں کرسکتا کہ آپ لوگوں نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لیے کہ اصل اختیار پارلیمنٹ کو ہے۔ اس نے جب پہلا آئین بنایا تو اس کا بھی اسے اختیار حاصل تھا اور اب اگر اس نے نیا آئین بنایا ہے تو اسے اس کا بھی اختیار حاصل ہے اور اگر وہ نیا آئین بنانے کی بجائے سابقہ آئین میں کچھ ترامیم منظور کرتی ہے تو اسے اس کا بھی حق پہنچتا ہے۔ کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہی بات اس آیت میں آنحضرت ﷺ سے کہی جارہی ہے کہ اللہ نے آپ پر جو احکام نازل کیے ہیں یعنی اپنی بندگی کا جو طریقہ آپ کو عطا کیا ہے آپ لوگوں کو اس کی دعوت دیں۔ آپ نہایت دل جمعی سے اس پر قائم رہیں۔ ان لوگوں کا علاج یہ نہیں کہ ان سے احکام میں بحث کی جائے بلکہ آپ انھیں اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اس کے حقوق پر ایمان لائیں۔ جب وہ اسے تسلیم کرلیں گے تو پھر انھیں بات سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی۔ لیکن اگر وہ اس بنیادی بات اور اللہ کے حکم کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر آپ انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیں۔ آپ اللہ کے فضل سے سیدھی راہ پر ہیں تو سیدھی راہ پر چلنے والے کو اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ دوسرے غلط راستے پر جارہے ہیں۔
Top