Ahkam-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 81
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
مومنوں کو چاہئے کہ مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے خدا کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو تو مضائقہ نہیں اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے
قول باری ہے (لایت خدا لمومنون الکافریناولیاء من دون المؤمنین، اہل ایمان مسلمانوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا اپناہمدرد نہ بنائیں) تاآکر آیت۔ اس میں کافروں کو دوست بنانے کی نہی ہے۔ اس لیئے کہ آیت میں داردفعل (لایتخذ) مجزوم ہے اس لیئے اس میں نہی کے معنی ہیں خبر کے معنی نہیں۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں سے نرمی برتنے سے روک دیا ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے۔ (لاتخذوایطانتۃ من دونکم لایألوتکم خیالا اپنی جماعت کے لوگوں کے سوادوسروں کو اپنا رازدارنہ بناؤوہ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقعہ سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے) نیز قول باری ہے (لاتجد قوما یومنون یا اللہ والیوم الاخریوادون من حاد اللہ ورسولہ ولو کا تواباء ھم اوابناء ھم جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں آپ انہیں نہ پائیں گے کہ وہ ایسوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں۔ خواہ وہ لوگ ان کے باپ یا ان کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں) تاآخر آیت۔ نیزقول باری ہے (فلاتقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین یاد آجانے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو) نیزقول باری ہے (فلاتقعدوامعھم حتی یخوضوافی حدیث غیرہ انکم اذا مثلھم، ان کے ساتھ نہ بیٹھویہاں تک کہ دہ کسی اور گفتگو میں مصروف ہوجائیں ورنہ تم بھی ان کی طرح ہوجاؤ گے۔ نیز قول باری ہے (ولا ترگنوالی الذین ظلموافتمسکم النار، تم ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکو کہ پھر تمھیں جہنم کی آگ چھوجائے) نیز قول باری ہے (فاعرض عمن تولی عن ذکرنا ولم یردالاالحیوۃ الدنیا اس شخص سے منہ پھیرلوجس نے ہماری یاد سے روگردانی کی اور دنیا کی زندگی کے سوا اور کچھ نہیں چاہا) نیز قول باری ہے (واعرض عن الجاھلین، اور جاہلو سے منہ پھیرلیجیے) نیز قول باری ہے (یایھا النبی جاھدالکفاروالمنافقین واغلظ علیھم، اے نبی ! کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کیجیے اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آیئے) نیزارشاد ہے۔ (یایھا الذین امنو الا تتخذوالیھو د والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض اسے ایمان والو ! یہودونصاری کو اپنا ہمدردوہمسازنہ بناؤان میں بعض بعض کے ہمدردوہمساز ہیں) نیز ارشاد ہے (ولاتمدن عینیک الی مامتعنا بہ ازواجامنھم زھرۃ الحیوۃ الدنیا لنفتتھم فیہ، اور ہرگز آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھیے ان چیزوں کی طرف جن سے ہم نے ان کے گروہوں کو متمتع کررکھا ہے۔ ان کی آزمائش کے لیے کہ وہ محض وینوی زندگی گمی کی رونق ہے) ان آیات میں یہودونصاری اور کفارو منافقین کی مجالست اور ان کی دنیوی مال ودولت اور احوال وکوائف ظاہر بنیی کی بناپران سے نرم برتاؤ اور میل ملاپ سے پے درپے روکاگیا ہے۔ روایت ہے کہ حضور ﷺ کا گذربنی الصطلق کے اونٹوں کے پاس سے ہواجواتنے موٹے اور فربہ تھے کہ بہی کی بناپران کاپیشاب ان کی رانوں پر خشک ہوگیا تھا۔ آپ نے اپنے کپڑے کا پلو اپنے چہرے پر ڈال لیا اور وہاں سے گذرگئے ان پر نظر ڈالنا بھی گوار انہیں کیا اس لیے کہ ارشادباری ہے (ولاتمدن عینیک الی مامتعنا بہ ازواجا منھم) نیز قول باری ہے۔ (یایھا الذین امنوالاتتخذواعدوی وعدو کم اولیاء تلقون الیھم بالمدہ ۃ اے ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست اور ہمدردنہ بناؤ کہ تم ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو) مسلمان کا گھر مشرک سے دورہو حضور ﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا (انابریء من کل مسلم مع مشرک ، میں ہر اس مسلمان سے کنارہ کشی ہوں جو کسی مشرک کے ساتھ رہتاہو) آپ سے وجہ پوچھ گئی تو آپ نے فرمایا (لاتراء ی ناراھما، ان دونوں کے گھروں میں جلنے والی آگ ایک دوسرے کو نظرنہ آئے) یعنی مسلمان کے لیے یہ لازم اور اس پر یہ واجب ہے کہ اس کا گھر مشرک کے گھر سے دورہو، نیز فرمایا (انابرئی من کل مسلم اقام بین اظھرالمشرکین، میں ہراس مسلمان سے کنارہ کش ہوں جس نے مشرکوں کے درمیان سکونت اختیار کرلی ہو) یہ آیتیں اور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ایک مسلمان کافروں کے ساتھ اس وقت تک سختی اور بے رخی کے ساتھ پیش آئے اور نرمی اور ملاطفت سے کام نہ لے جب تک اس کی حالت ایسی نہ ہو جس میں اسے اپنی یا اپنے کسی عضو کے تلف ہوجانے یا سخت نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔ اگر ا سے اس قسم کا کوئی خطرہ درپیش ہوتوایسی صورت میں ان سے دوستی ادرنرمی کا اظہار جائز ہے۔ پیشرطی کہ وہ اسطرز عمل کی صحت کا یقین اپنے دل میں پیدانہ کرلے۔ ولا یعنی دوستی تعاون وغیرہ کی دوصورتیں ہوتی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ جسی شخص کا فعل اور طرز عمل پسند یدہ ہو امداد تعاون اور نگرانی کے ذریعے اس کے امور کی پوری پوری سرپرستی کی جائے۔ ایسا شخص سعاون ومنصورکہلائے گا قول باری ہے۔ (اللہ ولی الذین وامنوا، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا ولی اور دوست ہے) اہل ایماناس معنی میں اللہ کے دوست اور ولی ہیں کہ اللہ کی نصرت پوری طرح ان کے شامل حال رہتی ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے (الاان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولاھم حزنون، آگاہ رہو، اللہ کے اولیاء کونہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے) ۔ خطرے کی صورت میں جان بچانے کی رخصت ہے قول باری ہے (الاان تتقوامنھم تقۃ، ہاں یہ تمہیں معاف ہے کہ ان کے ظلم سے بچنے کے لیئے تم بظاہرایساطر زعمل اختیارکرجاؤ) یعنی اگر تمھیں اپنی جان یا جسمانی اعضاء کے تلف ہوجانے کا خطرہ ہو اور پھر تم ان سے دوستی اور تعاون کے اظہار کے ذریعے اپنے آپ کو ان کی چیرہ دستیوں سے بچالو تو اس میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ تم اس طرزعمل کی صحت کا اعتقاداپنے دل میں پیدانہ کرو۔ آیت کے الفاظ کے ظاہر کا یہی تقاضا ہے اور جمہورکامسلک بھی یہی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق مروزی نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے ، انہیں عبدالرزاق نے انہیں معمرنے قتادہ سے قول باری (لایتخذالمؤمنون الکافرین اؤلیاء من دون المؤمنین) کی تفسیر میں یہ قول نقل کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیئے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے دینی معاملات میں کسی کافر کو اپنا دوست اور ولی یعنی سرپرست بنالے۔ قول باری (الاان تتقوامنھم تقۃ) کی تفسیر میں انہوں نے فرمایا کہ اس قاعدے سے ایک صورت مستثنیٰ ہے وہ یہ کہ مسلمان اور کافر کے درمیان قرابت ہو اور پھر مسلمان اس رشتہ داری کی بناپر اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے اس طرح تقیہ کا مفہوم قرابت کی بناپر کافر کے ساتھ صلئہ رحمی قراردیا گیا۔ آیت میں بچاؤ کی خاطر اظہارکفر کے جواز کا اقتضاء موجود ہے، اس کی نظیریہ قول باری ہے (من کفر باللہ من بعد ایمانہ الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان، جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد کافرہوجائے بجز اس صورت کے کہ اس پر زیردستی کی جائے۔ درآنحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو وہ مستثنیٰ ہے) ایسے مواقع پر جان بچانے کی رخصت ہے واجب وافضل نہیں۔ ایسے مواقع پربچاؤ کی خاطر اظہارکفر وغیرہ کی اجازت دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے۔ یہ واجب نہیں ہے بلکہ اس کا ترک افضل ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص پر کافرہوجانے کے لیے زبردستی کی جائے لیکن وہ ایمان پر ڈٹا رہے اور اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تو اس کا درجہ اظہارکفر کرنے والے سے بڑھ کرہوگا۔ مشرکین نے حضرت خبیب بن عدی کو پکڑلیا تھا لیکن آپ نے تقیہ کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا یہاں تک کہ شہید کردیئے گئے۔ مسلمانوں کے نزدیک آپ کا درجہ حضرت عماربن یاسر سے بڑھ کر تھا۔ جنہوں نے یہ راستہ اختیار کرتے ہوئے اظہارکفر کرلیا تھا۔ حضور ﷺ نے ان سے اظہارکفر کی صورت میں ان کے دل کی کیفیت کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ میرادل ایمان پر مطمئن تھا۔ اس پر حضور ﷺ نے انہیں فرمایا کہ، اگر یہ صورت دوبارہ پیش آجائے تو تم پھر یہی طرز عمل اختیار کرلینا۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد دراصل رخصت عطا کرنے کی بناپر تھا۔ عزیمت رخصت سے افضل ہے روایت ہے کہ مسیلمہ کذاب نے دوصحابیوں کو پکڑلیا۔ ایک سے پوچھا کہ محمد (ﷺ) کی رسالت کی گواہی دیتے ہو، انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر پوچھا کہ تم میری رسالت کو گواہی دیتے ہو۔ انہوں نے پھر اثبات میں جواب دیا۔ مسیلمہ نے انہیں جانے دیا، دوسرے صاحب کو بلاکران سے بھی سوالات کیئے۔ تو انہوں نے مسیلمہ کی رسالت کی گواہی دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ، میں بہراہوںِمسیلمہ نے اپناسوال تین دفعہ دہرایا، انہوں نے تینوں دفعہ یہی جواب دیا، اس پر اس نے انہیں شہید کردیا۔ حضور ﷺ کو جب اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا (ماھذالمقتول فمضی علی صدقہ ویقینہ واخذبفضیلۃ فھنیئا لہ واما الاخرفقبل رخصۃ اللہ قلاتبعۃ علیہ، یہ کشتہ راہ خدا اپنے صدق اور یقین پر ڈٹارہا اور فضیلت کا سزاوار ٹھہرا، یہ مرتبہ اسے مبارک ہو۔ دوسرے شخص نے اللہ تعالیٰ کردہ رخصت کو قبول کرلیا اس لیئے اس پر بھی گرفت نہیں) اس روایت میں یہ دلیل ہوجود ہے کہ تقیہ کا راستہ رخصت ہے اور تقیہ کا اظہارنہ کرنا افضل ہے۔ اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ہرایساعمل جس میں دین کا اعزاز ہو اس کے لیئے اقدام کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردینا اس سے ہٹ کر رخصت پر عمل کرنے سے بہتر اور افضل ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص دشمنوں کے خلاف اپنے آپ کو جہاد میں جھونک دے اور شہید ہوجائے اس کا درجہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچالینے والے سے بڑھ کرہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے شہادت حاصل کرلینے کے بعد شہیدوں کے احوال وکوالف بیان فرمائے ہیں اور انہیں زندہ نیزرزق پانے والے قراردیا ہے۔ اسی طرح اللہ کے دین کے اظہار اورکفر کے عدم اظہا کے نتیجے میں جان دے دیناتقیہ کا راستہ اختیار کرنے سے افضل ہے۔ اس آیت اور اسی طرح کی دوسری آیتوں میں اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ مسلمان پر کافرکو کسی معاملے میں دلایت اور سرپرستی حاصل نہیں ہوتی اور یہ کہ اگر کافرکا کوئی نابالغ بچہ ہوجوماں کے مسلمان ہونے کی وجہ سے مسلمان ہو تو اس کافرکواس پر کوئی کسی قسم کی ولایت اور سرپرستی حاصل نہیں ہوگی۔ نہ مالی تصرف وغیرہ میں اور نہ ہی نکاح کرانے میں۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ذحی مسلمان کے فوجداری جرم کا اور مسلمان ذحی کے فوجداری کا جرمانہ نہیں بھرے گا اس لیئے کہ اس بات کا تعلق ولایت نصرت اور معونت سے ہے جوان دونوں کے درمیان مفقود ہے۔
Top