Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
نہ بنائیں مسلمان کافروں کو دوست مسلمانوں کے خلاف اور جو ایسا کریں گے تو اللہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں، مگر یہ کہ تم ان سے بچو، جیسا کہ بچنے کا حق ہے۔ اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
لاَ یَتَّخِذِالْمُؤْمِنُوْنَ الْـکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَـآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج وَمَنْ یَّـفْـعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَـتَّـقُـوْا مِنْہُمْ تُقٰـۃً ط وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ ۔ (نہ بنائیں مسلمان کافروں کو دوست مسلمانوں کے خلاف اور جو ایسا کریں گے تو اللہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں، مگر یہ کہ تم ان سے بچو، جیسا کہ بچنے کا حق ہے، اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) (28) پس منظر گزشتہ آیات کریمہ میں یہود کے مذہبی عقائد پر تنقید اور ان کے کردار کے گھنائونے پن کے اظہار کے ساتھ ان کی اصل شکل مسلمانوں کو دکھائی گئی اور انھوں نے اوس و خزرج پر جو اپنے مذہبی علم کا ایک رعب طاری کر رکھا تھا، اس کا پردہ چاک کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو آنے والے دنوں میں جو غلبہ اور استعلاء نصیب ہونے والا تھا دعا کی صورت میں اس کی بھی نشان دہی کردی گئی۔ اس طرح سے مذہبی، علمی اور سیاسی طور پر آنے والے دنوں کی پردہ کشائی فرما کر یہود کی اصل حیثیت کو کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا اور مسلمانوں کو اپنے موقف کی سچائی سے بہرہ ور فرما کر بےپناہ عزم اور اعتماد سے مسلح فرمانے کے بعد پیش نظر آیت کریمہ میں ایک خاص حکم دیا گیا کہ تم اب تک یہود کے علم اور ان کی سیاسی اقتدار کی وجہ سے ان کے بارے میں ایک رائے رکھتے تھے اور تمہارے کمزور لوگ ان کے غلبے کو نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے، لیکن اب جب کہ تمہارے سامنے تصویر کا ہر رخ بےنقاب ہوتا جا رہا ہے تو ہم تمہیں پالیسی کے طور پر یہ حکم دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی بھی غیر مسلموں کے ساتھ ایسا رشتہ ولا نہیں رکھنا چاہیے اور ایسے گہرے تعلقات قائم نہیں کرنے چاہئیں جو صاف صاف مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہوں یا آگے چل کر مسلمانوں کی اجتماعی بہبود کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہو۔ یہاں مومنون سے مراد وہ مسلمان ہیں جو ابھی تک یہود کے علمی اور سیاسی اثر سے آزاد نہیں ہو سکے۔ اور الکافرین سے مراد یہود ہیں۔ وقتی اور مستقل ہدایت بات تو انہی کے حوالے سے ہو رہی ہے، لیکن مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ایک مستقل پالیسی بھی دی جا رہی ہے۔ اس وقت کے حالات کے مطابق تو مسلمانوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہود اس وقت گرتی ہوئی دیوار کی مانند ہیں جو عنقریب خود اس دیوار کے نیچے دفن ہوجائیں گے تو تم ایک ایسے گھر کی پاسبانی کیوں کر رہے ہو جس گھر کے اجڑنے میں چند روز باقی ہیں۔ لیکن مستقل پالیسی کے طور پر ایک اصول دے دیا گیا ہے کہ مسلمان بھی اسی سرزمین پر اپنی حکومتیں قائم کریں گے، ان کے اپنے ممالک کی ضرورتیں ہوں گی۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ہر طرح کی ضرورت ملک کے اندر پوری ہوممالک ہمیشہ ایک دوسرے سے اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور اسی لیے ایک دوسرے سے تعلق قائم کرتے ہیں۔ مسلمان بھی اس سے بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ اس لیے یہ بات از بس ضروری تھی کہ اس کی لیے کوئی اصول دے دیا جاتا کہ غیر مسلم ممالک سے تعلقات کی نوعیت کیسی ہونی چاہیے ؟ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مسلمان بنیادی طور پر اللہ کے دین کا مبلغ اور مناد ہے۔ وہ کسی طور بھی اپنے اس بنیادی فریضے سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ یہ ذمہ داری جس طرح ہر فردِ مسلم پر ہے اسی طرح مسلمانوں کی ہر مملکت پر بھی ہے۔ اس فرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہوسکتی، تا وقتیکہ غیر مسلم ممالک اور حکومتوں سے مسلمانوں کے مناسب تعلقات نہ ہوں۔ اس لیے یہاں مطلق تعلقات رکھنے سے منع نہیں فرمایا گیا بلکہ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ کی قید لگائی گئی ہے۔ یعنی ایسا تعلق جو مسلمانوں کے خلاف ہو یا مسلمانوں کو نظر انداز کر کے قائم کیا جائے۔ جس تعلق میں مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہو یا مسلمانوں میں عقیدے کے تحفظ میں دراڑیں پڑنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی تمام صورتوں میں مسلمانوں کو غیر مسلموں سے تعلقات قائم کرنے سے منع فرمایا گیا۔ اس لحاظ سے جب ہم تعلقات کی نوعیت پر غور کرتے ہیں تو تعلقات کی چار صورتیں ذہن میں آتی ہیں، جس کی اہل علم نے وضاحت کی ہے۔ 1 موالاۃ : یہ قلبی تعلق اور محبت کا نام ہے یعنی دو شخصوں یا دو قوموں کے درمیان ایسے تعلق کا قائم ہوجانا جو حمیت اور حمایت کے جذبے کی صورت اختیار کرلے اور دونوں ایک دوسرے کی نگہبانی اور پاسبانی کا عہد کرلیں۔ اسے موالات کہتے ہیں۔ یہ قلبی رشتہ صرف مسلمانوں کے درمیان ہونا چاہیے، غیرمسلموں کے ساتھ اس کی اجازت نہیں کیونکہ اس طرح کا تعلق دو طرح کے نقصانات پر منتج ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ مملکت کا کوئی راز، راز نہیں رہتا۔ عوام جب دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران فلاں غیر مسلم حکومت کے ساتھ بالکل بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انتہائی باہمی شیر و شکر ہیں تو اس کا اثر مملکت کے ہر ادارے تک پہنچتا ہے۔ جس کے بعد غیر مسلموں کے لیے مسلمانوں کے اندرونی معاملات اور حساس حالات سے باخبر ہونے میں کوئی دشواری باقی نہیں رہتی اور دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اگر مسلمان ملک اپنی تہذیب و تمدن اور تعلیم کے حوالے سے حساس نہیں ہے اور اسے اپنی بنیادی اقدار کا پوری طرح پاس نہیں تو غیر مسلم قوت کو مسلمانوں کی تہذیب اور تمدن پر اثر انداز ہونے کا موقع ملتا ہے اور وہ تعلیم کے حوالے سے مسلمانوں کی برین واشنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس لیے اسلام نے اس تعلق کو کافر ملکوں کے ساتھ قائم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی ہے۔ 2 مواساۃ : اس کا معنی ہے ہمدردی، خیرخواہی اور نفع رسانی۔ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ دین اور عقیدے کے اختلاف کے باوجود انسانی رشتہ رکھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتا۔ اگر کوئی آفتِ ارضی و سماوی کسی کافر ملک میں آتی ہے اور وہ مدد کے لیے پکارتے ہیں تو انسانی رشتے کے باعث اسلام مسلمانوں کو مکلف کرتا ہے کہ وہ ایسے ملک کی مدد کریں۔ قریش مکہ نے جب آنحضرت ﷺ سے قحط کے دنوں میں مدد طلب کی تو آپ ﷺ نے متعدد اونٹ کھجور کے لدوا کر مکہ روانہ فرمائے۔ جس علاقے سے اہل مکہ کو غلہ ملتا تھا جب اس کا سردار مسلمان ہوگیا تو اس نے غلہ بند کردیا۔ آنحضرت ﷺ نے اسے غلہ کی ممانعت ختم کردینے کا حکم دیا۔ البتہ ! اس میں صرف ایک شرط ہے کہ یہ تعلق اس کافر ملک کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے جس کی مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ ہو رہی ہو یعنی اگر دونوں ملک ایک دوسرے سے برسرپیکار نہیں ہیں تو پھر ان کے ساتھ خیر خواہی کا تعلق رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ سورة ممتحنہ میں پروردگار نے واضح طور پر اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ارشاد فرمایا : لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ ط (اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے نہیں دین کے معاملے میں، اور انھوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ ان کے ساتھ احسان اور انصاف کا سلوک کرو) ( الممتحنۃ : 8) اسی حکم کی وجہ سے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی غیر مسلم رعایا کے ساتھ احسان کا سلوک کیا اور غیر مسلم ممالک کے ساتھ بھی ہمیشہ ہمدردی کا رویہ اختیار کیا۔ 3 مدارات : اس کے معنی ہیں ظاہری خوش خلقی اور دوستانہ برتائو۔ اس کی بھی غیر مسلموں کے ساتھ اجازت ہے اور اگر دو مقاصد میں سے کوئی مقصد پیش نظر ہو پھر تو اسے واجب ٹھہرایا۔ ایک تو یہ کہ غیر مسلموں کے جس گروہ یا جس ملک سے امید کی جاسکتی ہو کہ وہ اسلام کے بارے میں ہمدردانہ رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ انھیں اسلام کی تبلیغ و دعوت پر کوئی اعتراض نہیں اور وہاں کے لوگوں میں قبولیتِ اسلام کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں تو ایسے ملک اور ایسے لوگوں سے اچھے تعلقات رکھنا اور خوش خلقی کا اظہار کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کا مہمان ہو۔ ایسی صورت میں مسلمان میزبان کے لیے غیر مسلم مہمان کا اکرام کرنا، اس کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنا اور اس کی ہر ضرورت کا خیال کرنا ضروری ہے۔ 4 معاملات : میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ تمام ممالک کو اپنے اقتصادی حالات کی بہتری اور ملکی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تمام ممالک سے تجارتی تعلقات رکھنے پڑتے ہیں۔ صنعت و حرفت کا تبادلہ کرنا پڑتا ہے، بعض دفعہ ایک دوسرے کے ملکوں میں اجرت اور ملازمت کے معاہدے بھی طے پاتے ہیں۔ ایسے معاملات غیر مسلموں کے ساتھ رکھنے کی مسلمانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ وہ شوق سے ان کے ساتھ تجارت کریں اور ملک کو جس قسم کے تعلقات کی ضرورت ہو اسے بروئے کار لائیں۔ اس تمام تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ جس تعلق سے مسلمانوں کو روکتا ہے وہ صرف موالاۃ کا تعلق ہے۔ اس لیے کہ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ کوئی بھی کافر اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے بارے میں غیر جانبدار نہیں ہوتا اور اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کو اپنے دین پر ترجیح دینے لگے۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کا چونکہ دل و دماغ کا رشتہ اپنے دین سے ہے تو وہ اس رشتے کو مسلمانوں کے ساتھ کبھی نہیں جوڑ سکتا۔ وہ مفادات کے حصول کی کوشش تو کرے گا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تدبیر بھی کرے گا، لیکن اسلام اور مسلمانوں سے قلبی روابط قائم کرلے، یہ ممکن نہیں۔ تو مسلمان جن کا حقیقی تعلق صرف اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین سے ہے ان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ ایمان باللہ کے ساتھ ساتھ کافر کو بھی اپنے دل میں جگہ دے دیں۔ اس لیے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا : لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّاللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَلَوْ کَانُوْا اٰبَـآئَ ہُمْ اَوْاَبْنَـآئَ ہُمْ اَوْاِخْوَانَہُمْ اَوْعَشِیْرَتَہُمْ ۔ (تم کوئی ایسی قوم نہیں پاسکتے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہو پھر وہ ان لوگوں کے ساتھ دوستی رکھے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہوں خواہ اپنے باپ دادا ہی ہوں یا اپنی اولاد یا اپنے بھائی یا اپنے خاندان والے) کفر اور اسلام باہمی متضاد ہیں کفر اور اسلام دو متضاد حقیقتیں ہیں۔ جس طرح اندھیرا اور اجالا اکٹھے نہیں ہوسکتے اسی طرح کفر اور اسلام کی مصلحتیں یکجا نہیں ہوسکتیں۔ جس دل میں اسلام کی روشنی ہے وہاں کفر کا اندھیرا نہیں آسکتا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ایک ہی دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت بھی ہو اور ساتھ ہی کفر سے پینگیں بھی بڑھائی جا رہی ہوں۔ مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْـبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ (اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے پیٹ میں دو دل پیدا نہیں فرمائے) اگر دو دل ہوتے تو متضاد تعلقات بھی الگ الگ دونوں دلوں میں رہ سکتے تھے۔ دل چونکہ ایک ہے اس لیے وہ ایک ہی محبت سے آباد رہ سکتا ہے۔ اس میں دو محبتیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے محبت کا رشتہ اگر اللہ اور اس کے رسول سے قائم ہے تو پھر یہ رشتہ کسی اور کے ساتھ قائم نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک باقی تعلقات کی قسموں کا تعلق ہے وہ حربی کافروں کے سوا تمام دوسرے لوگوں سے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ حربی کافروں سے مراد وہ کافر ملک ہیں جن کے ساتھ مسلمان حالت جنگ میں ہوں۔ البتہ ! آج کی دنیا میں حالت جنگ کی دو قسمیں ہیں ایک تو حالت جنگ وہ ہے جب باقاعدہ جنگ جاری ہو اور دوسری حالت جنگ وہ ہے جبکہ جانبین ایک دوسرے کی نفرتوں میں جل رہے ہوں۔ دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں کرتے رہتے ہوں۔ بعض دفعہ سرحدوں پر فوجیں بھی لا کھڑی کرتے ہوں۔ ایک دوسرے کے ملکوں میں جاسوس بھیج کر حساس معلومات بھی حاصل کرتے ہوں اور موقع ملنے پر وارداتیں بھی کراتے ہوں۔ لیکن حکومت کی سطح پر بظاہر مذاکرات بھی ہو رہے ہوں۔ ایسے ملک کے ساتھ بھی مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا تعلق قائم نہیں کیا جاسکتا۔ غیر حربی کافروں سے تعلقات کی شرط غیر حربی کافر ممالک سے ہر طرح کے تعلقات رکھے جاسکتے ہیں لیکن اس میں ایک شرط ہے کہ اس میں مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو اور مسلمانوں سے مراد صرف اپنے ملک کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمان مراد ہیں۔ اگر وہ ملک لالچ دے کر یا دھمکی دے کر کسی دوسرے مسلمان ملک کے خلاف تعلق قائم کرنا چاہے تو ایسا تعلق سراسر حرام ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ کسی جگہ بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے تو وہ پوری امت اور ملت کا نقصان ہے۔ جس کے لیے پوری امت قیامت کے دن جواب دہ ہوگی اور اگر وہ مسلمان ملک جس کے خلاف اتحاد کیا جا رہا ہے پڑوسی ہو تو اس کے حقوق دو گونہ ہوجاتے ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور دوسرا پڑوسی ہونے کی حیثیت سے۔ اس کے خلاف نہ صرف کہ کسی کافر حکومت کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کی حفاظت بھی واجب ہوجاتی ہے۔ دوسرے مسلمان پڑوسی ممالک اس کی ہر طرح مدد کرنے کے دینی طور پر پابند ہیں اور اگر وہ اپنی کمزوریوں کے باعث مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو یہ تو کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ دشمن ملک کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنیں۔ اس معاملے میں اسلامی احکام بہت واضح اور بہت حساس ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے سب سے مقدس اور اہم ترین رشتہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ جن کی حرمت کا تحفظ ہر مسلمان کا ایمان ہے۔ لیکن اگر کبھی کوئی مسلمان کافروں کے قابو آجائے اور وہ اسے بندوق کی نوک پر مجبور کریں کہ تم اپنے اللہ یا رسول کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہو تو ایسی صورت میں اس مجبور مسلمان کے لیے عزیمت کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ جان دے دے لیکن کلمہ کفر زبان پر نہ آنے دے۔ لیکن اگر وہ یہ عزیمت نہیں دکھا سکتا تو اسے اس بات کی رخصت دی گئی ہے کہ وہ زبان سے کلمہ کفر کہہ سکتا ہے بشرطیکہ اس کا دل پوری طرح ایمان کی قوت سے بھرپور ہو۔ صرف جان بچانے کے لیے اسے اس طرح کا کلمہ کفر کہنے کی اجازت ہے۔ لیکن اگر کسی مسلمان سے بندوق کی نوک پر یہ کہا جائے کہ تم فلاں شخص کو گولی مار دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ہم تمہیں گولی مار دیں گے اس شخص کے لیے کسی طرح بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے مسلمان بھائی کو مجبوراً بھی گولی مارے۔ اگر اس کی جان بھی چلی جائے تو اسے پرواہ نہیں کرنی چاہیے، اسے اللہ تعالیٰ درجہ شہادت عطا فرمائیں گے۔ لیکن وہ محض اپنی جان کی حفاظت کے لیے دوسرے مسلمان کو ہرگز نشانہ نہیں بنا سکتا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ : ” اگر ایک طرف مسلمان کا خون بہہ رہا ہو اور دوسری طرف کعبہ گر رہا ہو تو میں پہلے مسلمان کو بچانے کی کوشش کروں گا “ مزید فرمایا کہ : اگر ساری دنیا بھی مل کر کسی مسلمان کے قتل ناحق کا ارتکاب کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس خون ناحق کے قصاص میں پوری دنیا کو بھی جہنم میں ڈالنے سے دریغ نہیں کروں گا۔ ان باتوں سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ مسلمانوں کو غیر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو پالیسی دی گئی ہے وہ کس قدر واضح ہے۔ لیکن امت مسلمہ کے لیے یہ کس قدر عظیم حادثہ ہے کہ آج خود مسلمان ممالک مسلمانوں کے خلاف اس غیر مسلم قوت کے اتحادی بنے ہوئے ہیں جس کے دشمن اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اپنے وسائل مسلمانوں کو تہِ تیغ کرنے میں دشمنوں کے حوالے کیے جا رہے ہیں اور اسے نیکی سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ لیکن شائد جو حکمران اس جرم کے براہ راست مرتکب ہو رہے ہیں انھیں طویل انتظار نہ کرنا پڑے کیونکہ قرآن کریم نے اس آیت ِکریمہ میں واضح طور پر ان کے انجام کی خبر دے دی ہے۔ دنیا میں ممکن ہے کہ پروردگار انھیں ڈھیل دیتا رہے، لیکن آخرت میں ان کا انجام وہی ہوگا جو کافروں کا ہوگا کیونکہ اس آیت میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَـتَّخِذُوا الْـیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ اَوْلِیَـآئَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَـآئُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلّٰہُمْ مِنْـکُمْ فَاِنَّـہٗ مِنْہُمْ ۔ (اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو کیونکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں (مسلمانوں سے ان کی کوئی دوستی نہیں) تو جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا ) اس میں واضح طور پر فرما دیا گیا کہ مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کے ساتھ دوستی کرنے والے اسی انجام سے دوچار ہوں گے جو انجام کافروں کا ہوگا اور ساتھ ہی ایک بہت بڑی حقیقت بھی منکشف فرمائی گئی کہ جتنی کافر قومیں ہیں وہ بظاہر بیشک ایک دوسرے کے خلاف ہوں، لیکن جب بھی ان میں سے کسی قوم کا مسلمانوں سے تصادم ہوگا تو تمام کافر قومیں اس کافر قوم کا مسلمانوں کے خلاف ساتھ دیں گی کیونکہ اسلام اور مسلمان کی دشمنی ان کے رگ و ریشے میں سمائی ہوئی ہے۔ وہ کسی طرح بھی اس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ وہ محض اپنے مفادات کے لیے مسلمان ملکوں کو اپنے معاہدات میں بھی شریک کریں گے، لیکن کوئی نازک وقت آئے گا تو ان کی ہمدردیاں مسلمانوں کے خلاف، مسلمانوں کے دشمنوں کے حق میں ہوں گی۔ یہ وہ تاریخی حقیقت ہے جس سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے پردہ اٹھایا گیا اور آج تک ہر دور میں وقت نے اس حقیقت کو ثابت ہوتے دیکھا۔ لیکن انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے ذمہ دار نہ جانے اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے۔ ہماری اور ہمارے دشمنوں کی کیفیت کچھ اس طرح کی ہے ؎ بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے ہیں اِلَّآ اَنْ تَـتَّـقُوْا مِنْہُمْ تُقٰـۃً کا مفہوم اِلَّآ اَنْ تَـتَّقُـوْا مِنْہُمْ تُـقٰـۃًآیتِ کریمہ کے اس جملے کے انطباق میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ آیت کریمہ میں یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کو دوست نہ بنائیں، یہ جملہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کافروں میں گھر جائے اور اسے اس بات کا یقینی اندیشہ ہو کہ اگر میں نے ایمان کا اظہار کیا یا ان کے سامنے اسلامی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کی تو یہ لوگ مجھے جان سے مار دیں گے تو اس کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ ان کے ساتھ اس طرح رہے کہ وہ اسے اپنی صف کا آدمی سمجھیں۔ اس کا ظاہری رویہ ان کے ساتھ بہتر اخلاق پر مبنی ہو۔ اس کے طور اطوار سے کسی طرح بھی اجنبیت کا احساس نہ ہونے پائے۔ اگر وہ اسلام کے بارے میں کوئی ناگوار بات بھی کہیں تو یہ خاموش رہے۔ لیکن اگر وہ اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا چاہیں اور اس سے کوئی ایسا کام لینا چاہیں جس سے مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو اسے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں۔ البتہ ! عام معاملات میں وہ ان کے ساتھ رہنے سہنے میں آزاد ہے۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہہ دینے کی بھی اجازت ہے بشرطیکہ دل ایمان پر مطمئن ہو، لیکن مکرر یہ بات عرض کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے مفادات کے خلاف یا مسلمانوں کی اجتماعی مصلحتوں کو نقصان پہنچا کر کسی کام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ اس کے لیے اگر جان بھی دینی پڑے تو دینا ہوگی کیونکہ مسلمانوں کی اجتماعی مصلحتیں، مسلمانوں کی جان اور اسلام کی عزت و آبرو اس کی جان سے زیادہ قیمتی ہیں۔ تو اس جملے میں اسی بات کی اجازت دی گئی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ جملہ آیت کے اصل حکم سے مستثنیٰ نہیں بلکہ اپنے ساتھ والے جملے سے مستثنیٰ ہے۔ یہ جو فرمایا گیا کہ مسلمان کافروں کے ساتھ دوستی کا رشتہ نہ رکھیں اور جو شخص مسلمانوں کے خلاف کافروں سے دوستی کا رشتہ رکھے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ اس نفی سے استثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ سے تعلق رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں سے اپنا دامن بچا کر رکھا جائے جو اللہ، اس کے دین اور اس کے وفادار بندوں کے دشمن ہیں یعنی اللہ سے تعلق ان لوگوں کا ہوگا جو تا حدِّ آخر کافروں سے مخالفِ اسلام موالاۃ سے بچیں گے اور یہ بچنا محض زبان کا جمع خرچ نہیں ہوگا بلکہ اس طرح بچیں جس طرح بچنے کا حق ہے۔ اسی سورت میں ایک دوسری جگہ فرمایا گیا : یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تَقَاتِہٖ (اے مومنو ! اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے) اسی طرح یہاں بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ کافروں سے موالاۃ کا تعلق قائم کرنے میں اس طرح بچیں جس طرح بچنے کا حق ہے۔ یہاں بھی تُـقٰـۃً مفعول مطلق واقع ہوا ہے جس سے فعل کی تاکید مقصود ہے۔ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ (اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے) اس میں کمزور مسلمانوں یا منافقین کو تنبیہ ہے کہ تم غیر مسلم قوتوں سے اس لیے ترک تعلق کرنے سے ڈرتے ہو کہ کہیں تم کسی مشکل میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ مومن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا اصل تعلق اللہ سے ہونا چاہیے۔ تم اسی سے ڈرو اور اسی سے امیدیں رکھو لیکن تم انسانی قوتوں سے اللہ سے بڑھ کے ڈرتے ہو اور اصل قوت و طاقت کا سرچشمہ انھیں سمجھتے ہو۔ تو ایسے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے، تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ کس قدر قوتوں اور قدرتوں کا مالک ہے۔ اس نے تمہیں مہلت عمل دے رکھی ہے اور اپنی رحمت کی وجہ سے تمہاری بد اعمالیوں کے باوجود تمہیں ڈھیل دے رہا ہے، تو تمہیں اس کی شان کریمی سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ وہ جس طرح رحیم و کریم ہے اسی طرح عادل بھی ہے۔ جب اس کی صفت عدل کا ظہور ہوگا تو پھر تمہیں پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ اس وقت مہلت عمل ختم ہوچکی ہوگی۔ تم پلٹنا چاہو گے لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ اس لیے اب تمہیں موقع ہے کہ اللہ کی ذات کا ڈر اپنے اندر پیدا کرو اور باقی ہر طرح کے خوف سے اپنے اپ کو نجات دے دو اور یہ بھی یاد رکھو کہ یہاں ہمیشہ کسی کو زندہ نہیں رہنا۔ ایک نہ ایک دن اس زندگی کا خاتمہ ہونا ہے۔ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ ( اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے) اگر اس نے یہاں گرفت نہ فرمائی تو قیامت کے دن تو ہر صورت میں اس کے عدل کا ظہور ہوگا۔ ہر ایک کے ایمان و عمل کی جانچ ہوگی، اعمال تولے جائیں گے۔ اس دن تم اگر ایمان سے محروم رہے تو یہود سے تمہارے تعلقات تمہیں سزا سے بچا نہیں سکیں گے۔ اس دن تو اسے پناہ ملے گی جس پر اللہ رحم فرمائے گا۔ اس دن اندازہ ہوگا کہ اللہ کی ذات کتنی عظیم ہے اور تم نے اس کے مقابلے میں دوسری قوتوں کو بڑا سمجھ کر کیسی حماقت کی تھی اور آج کوئی قوت اس کے غضب سے تمہیں بچا نہیں سکے گی۔
Top