Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ
:نہ بنائیں
الْمُؤْمِنُوْنَ
: مومن (جمع)
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
اَوْلِيَآءَ
: دوست (جمع)
مِنْ دُوْنِ
: علاوہ (چھوڑ کر)
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
وَمَنْ
: اور جو
يَّفْعَلْ
: کرے
ذٰلِكَ
: ایسا
فَلَيْسَ
: تو نہیں
مِنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
فِيْ شَيْءٍ
: کوئی تعلق
اِلَّآ
: سوائے
اَنْ
: کہ
تَتَّقُوْا
: بچاؤ کرو
مِنْھُمْ
: ان سے
تُقٰىةً
: بچاؤ
وَيُحَذِّرُكُمُ
: اور ڈراتا ہے تمہیں
اللّٰهُ
: اللہ
نَفْسَهٗ
: اپنی ذات
وَاِلَى
: اور طرف
اللّٰهِ
: اللہ
الْمَصِيْرُ
: لوٹ جانا
نہ بنائیں مسلمان کافروں کو دوست مسلمانوں کے خلاف اور جو ایسا کریں گے تو اللہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں، مگر یہ کہ تم ان سے بچو، جیسا کہ بچنے کا حق ہے۔ اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
لاَ یَتَّخِذِالْمُؤْمِنُوْنَ الْـکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَـآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج وَمَنْ یَّـفْـعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَـتَّـقُـوْا مِنْہُمْ تُقٰـۃً ط وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ ۔ (نہ بنائیں مسلمان کافروں کو دوست مسلمانوں کے خلاف اور جو ایسا کریں گے تو اللہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں، مگر یہ کہ تم ان سے بچو، جیسا کہ بچنے کا حق ہے، اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) (28) پس منظر گزشتہ آیات کریمہ میں یہود کے مذہبی عقائد پر تنقید اور ان کے کردار کے گھنائونے پن کے اظہار کے ساتھ ان کی اصل شکل مسلمانوں کو دکھائی گئی اور انھوں نے اوس و خزرج پر جو اپنے مذہبی علم کا ایک رعب طاری کر رکھا تھا، اس کا پردہ چاک کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو آنے والے دنوں میں جو غلبہ اور استعلاء نصیب ہونے والا تھا دعا کی صورت میں اس کی بھی نشان دہی کردی گئی۔ اس طرح سے مذہبی، علمی اور سیاسی طور پر آنے والے دنوں کی پردہ کشائی فرما کر یہود کی اصل حیثیت کو کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا اور مسلمانوں کو اپنے موقف کی سچائی سے بہرہ ور فرما کر بےپناہ عزم اور اعتماد سے مسلح فرمانے کے بعد پیش نظر آیت کریمہ میں ایک خاص حکم دیا گیا کہ تم اب تک یہود کے علم اور ان کی سیاسی اقتدار کی وجہ سے ان کے بارے میں ایک رائے رکھتے تھے اور تمہارے کمزور لوگ ان کے غلبے کو نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے، لیکن اب جب کہ تمہارے سامنے تصویر کا ہر رخ بےنقاب ہوتا جا رہا ہے تو ہم تمہیں پالیسی کے طور پر یہ حکم دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی بھی غیر مسلموں کے ساتھ ایسا رشتہ ولا نہیں رکھنا چاہیے اور ایسے گہرے تعلقات قائم نہیں کرنے چاہئیں جو صاف صاف مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہوں یا آگے چل کر مسلمانوں کی اجتماعی بہبود کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہو۔ یہاں مومنون سے مراد وہ مسلمان ہیں جو ابھی تک یہود کے علمی اور سیاسی اثر سے آزاد نہیں ہو سکے۔ اور الکافرین سے مراد یہود ہیں۔ وقتی اور مستقل ہدایت بات تو انہی کے حوالے سے ہو رہی ہے، لیکن مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ایک مستقل پالیسی بھی دی جا رہی ہے۔ اس وقت کے حالات کے مطابق تو مسلمانوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہود اس وقت گرتی ہوئی دیوار کی مانند ہیں جو عنقریب خود اس دیوار کے نیچے دفن ہوجائیں گے تو تم ایک ایسے گھر کی پاسبانی کیوں کر رہے ہو جس گھر کے اجڑنے میں چند روز باقی ہیں۔ لیکن مستقل پالیسی کے طور پر ایک اصول دے دیا گیا ہے کہ مسلمان بھی اسی سرزمین پر اپنی حکومتیں قائم کریں گے، ان کے اپنے ممالک کی ضرورتیں ہوں گی۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ہر طرح کی ضرورت ملک کے اندر پوری ہوممالک ہمیشہ ایک دوسرے سے اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور اسی لیے ایک دوسرے سے تعلق قائم کرتے ہیں۔ مسلمان بھی اس سے بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ اس لیے یہ بات از بس ضروری تھی کہ اس کی لیے کوئی اصول دے دیا جاتا کہ غیر مسلم ممالک سے تعلقات کی نوعیت کیسی ہونی چاہیے ؟ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مسلمان بنیادی طور پر اللہ کے دین کا مبلغ اور مناد ہے۔ وہ کسی طور بھی اپنے اس بنیادی فریضے سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ یہ ذمہ داری جس طرح ہر فردِ مسلم پر ہے اسی طرح مسلمانوں کی ہر مملکت پر بھی ہے۔ اس فرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہوسکتی، تا وقتیکہ غیر مسلم ممالک اور حکومتوں سے مسلمانوں کے مناسب تعلقات نہ ہوں۔ اس لیے یہاں مطلق تعلقات رکھنے سے منع نہیں فرمایا گیا بلکہ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ کی قید لگائی گئی ہے۔ یعنی ایسا تعلق جو مسلمانوں کے خلاف ہو یا مسلمانوں کو نظر انداز کر کے قائم کیا جائے۔ جس تعلق میں مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہو یا مسلمانوں میں عقیدے کے تحفظ میں دراڑیں پڑنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی تمام صورتوں میں مسلمانوں کو غیر مسلموں سے تعلقات قائم کرنے سے منع فرمایا گیا۔ اس لحاظ سے جب ہم تعلقات کی نوعیت پر غور کرتے ہیں تو تعلقات کی چار صورتیں ذہن میں آتی ہیں، جس کی اہل علم نے وضاحت کی ہے۔ 1 موالاۃ : یہ قلبی تعلق اور محبت کا نام ہے یعنی دو شخصوں یا دو قوموں کے درمیان ایسے تعلق کا قائم ہوجانا جو حمیت اور حمایت کے جذبے کی صورت اختیار کرلے اور دونوں ایک دوسرے کی نگہبانی اور پاسبانی کا عہد کرلیں۔ اسے موالات کہتے ہیں۔ یہ قلبی رشتہ صرف مسلمانوں کے درمیان ہونا چاہیے، غیرمسلموں کے ساتھ اس کی اجازت نہیں کیونکہ اس طرح کا تعلق دو طرح کے نقصانات پر منتج ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ مملکت کا کوئی راز، راز نہیں رہتا۔ عوام جب دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران فلاں غیر مسلم حکومت کے ساتھ بالکل بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انتہائی باہمی شیر و شکر ہیں تو اس کا اثر مملکت کے ہر ادارے تک پہنچتا ہے۔ جس کے بعد غیر مسلموں کے لیے مسلمانوں کے اندرونی معاملات اور حساس حالات سے باخبر ہونے میں کوئی دشواری باقی نہیں رہتی اور دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اگر مسلمان ملک اپنی تہذیب و تمدن اور تعلیم کے حوالے سے حساس نہیں ہے اور اسے اپنی بنیادی اقدار کا پوری طرح پاس نہیں تو غیر مسلم قوت کو مسلمانوں کی تہذیب اور تمدن پر اثر انداز ہونے کا موقع ملتا ہے اور وہ تعلیم کے حوالے سے مسلمانوں کی برین واشنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس لیے اسلام نے اس تعلق کو کافر ملکوں کے ساتھ قائم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی ہے۔ 2 مواساۃ : اس کا معنی ہے ہمدردی، خیرخواہی اور نفع رسانی۔ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ دین اور عقیدے کے اختلاف کے باوجود انسانی رشتہ رکھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتا۔ اگر کوئی آفتِ ارضی و سماوی کسی کافر ملک میں آتی ہے اور وہ مدد کے لیے پکارتے ہیں تو انسانی رشتے کے باعث اسلام مسلمانوں کو مکلف کرتا ہے کہ وہ ایسے ملک کی مدد کریں۔ قریش مکہ نے جب آنحضرت ﷺ سے قحط کے دنوں میں مدد طلب کی تو آپ ﷺ نے متعدد اونٹ کھجور کے لدوا کر مکہ روانہ فرمائے۔ جس علاقے سے اہل مکہ کو غلہ ملتا تھا جب اس کا سردار مسلمان ہوگیا تو اس نے غلہ بند کردیا۔ آنحضرت ﷺ نے اسے غلہ کی ممانعت ختم کردینے کا حکم دیا۔ البتہ ! اس میں صرف ایک شرط ہے کہ یہ تعلق اس کافر ملک کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے جس کی مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ ہو رہی ہو یعنی اگر دونوں ملک ایک دوسرے سے برسرپیکار نہیں ہیں تو پھر ان کے ساتھ خیر خواہی کا تعلق رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ سورة ممتحنہ میں پروردگار نے واضح طور پر اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ارشاد فرمایا : لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ ط (اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے نہیں دین کے معاملے میں، اور انھوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ ان کے ساتھ احسان اور انصاف کا سلوک کرو) ( الممتحنۃ : 8) اسی حکم کی وجہ سے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی غیر مسلم رعایا کے ساتھ احسان کا سلوک کیا اور غیر مسلم ممالک کے ساتھ بھی ہمیشہ ہمدردی کا رویہ اختیار کیا۔ 3 مدارات : اس کے معنی ہیں ظاہری خوش خلقی اور دوستانہ برتائو۔ اس کی بھی غیر مسلموں کے ساتھ اجازت ہے اور اگر دو مقاصد میں سے کوئی مقصد پیش نظر ہو پھر تو اسے واجب ٹھہرایا۔ ایک تو یہ کہ غیر مسلموں کے جس گروہ یا جس ملک سے امید کی جاسکتی ہو کہ وہ اسلام کے بارے میں ہمدردانہ رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ انھیں اسلام کی تبلیغ و دعوت پر کوئی اعتراض نہیں اور وہاں کے لوگوں میں قبولیتِ اسلام کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں تو ایسے ملک اور ایسے لوگوں سے اچھے تعلقات رکھنا اور خوش خلقی کا اظہار کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کا مہمان ہو۔ ایسی صورت میں مسلمان میزبان کے لیے غیر مسلم مہمان کا اکرام کرنا، اس کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنا اور اس کی ہر ضرورت کا خیال کرنا ضروری ہے۔ 4 معاملات : میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ تمام ممالک کو اپنے اقتصادی حالات کی بہتری اور ملکی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تمام ممالک سے تجارتی تعلقات رکھنے پڑتے ہیں۔ صنعت و حرفت کا تبادلہ کرنا پڑتا ہے، بعض دفعہ ایک دوسرے کے ملکوں میں اجرت اور ملازمت کے معاہدے بھی طے پاتے ہیں۔ ایسے معاملات غیر مسلموں کے ساتھ رکھنے کی مسلمانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ وہ شوق سے ان کے ساتھ تجارت کریں اور ملک کو جس قسم کے تعلقات کی ضرورت ہو اسے بروئے کار لائیں۔ اس تمام تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ جس تعلق سے مسلمانوں کو روکتا ہے وہ صرف موالاۃ کا تعلق ہے۔ اس لیے کہ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ کوئی بھی کافر اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے بارے میں غیر جانبدار نہیں ہوتا اور اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کو اپنے دین پر ترجیح دینے لگے۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کا چونکہ دل و دماغ کا رشتہ اپنے دین سے ہے تو وہ اس رشتے کو مسلمانوں کے ساتھ کبھی نہیں جوڑ سکتا۔ وہ مفادات کے حصول کی کوشش تو کرے گا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تدبیر بھی کرے گا، لیکن اسلام اور مسلمانوں سے قلبی روابط قائم کرلے، یہ ممکن نہیں۔ تو مسلمان جن کا حقیقی تعلق صرف اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین سے ہے ان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ ایمان باللہ کے ساتھ ساتھ کافر کو بھی اپنے دل میں جگہ دے دیں۔ اس لیے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا : لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّاللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَلَوْ کَانُوْا اٰبَـآئَ ہُمْ اَوْاَبْنَـآئَ ہُمْ اَوْاِخْوَانَہُمْ اَوْعَشِیْرَتَہُمْ ۔ (تم کوئی ایسی قوم نہیں پاسکتے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہو پھر وہ ان لوگوں کے ساتھ دوستی رکھے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہوں خواہ اپنے باپ دادا ہی ہوں یا اپنی اولاد یا اپنے بھائی یا اپنے خاندان والے) کفر اور اسلام باہمی متضاد ہیں کفر اور اسلام دو متضاد حقیقتیں ہیں۔ جس طرح اندھیرا اور اجالا اکٹھے نہیں ہوسکتے اسی طرح کفر اور اسلام کی مصلحتیں یکجا نہیں ہوسکتیں۔ جس دل میں اسلام کی روشنی ہے وہاں کفر کا اندھیرا نہیں آسکتا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ایک ہی دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت بھی ہو اور ساتھ ہی کفر سے پینگیں بھی بڑھائی جا رہی ہوں۔ مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْـبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ (اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے پیٹ میں دو دل پیدا نہیں فرمائے) اگر دو دل ہوتے تو متضاد تعلقات بھی الگ الگ دونوں دلوں میں رہ سکتے تھے۔ دل چونکہ ایک ہے اس لیے وہ ایک ہی محبت سے آباد رہ سکتا ہے۔ اس میں دو محبتیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے محبت کا رشتہ اگر اللہ اور اس کے رسول سے قائم ہے تو پھر یہ رشتہ کسی اور کے ساتھ قائم نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک باقی تعلقات کی قسموں کا تعلق ہے وہ حربی کافروں کے سوا تمام دوسرے لوگوں سے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ حربی کافروں سے مراد وہ کافر ملک ہیں جن کے ساتھ مسلمان حالت جنگ میں ہوں۔ البتہ ! آج کی دنیا میں حالت جنگ کی دو قسمیں ہیں ایک تو حالت جنگ وہ ہے جب باقاعدہ جنگ جاری ہو اور دوسری حالت جنگ وہ ہے جبکہ جانبین ایک دوسرے کی نفرتوں میں جل رہے ہوں۔ دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں کرتے رہتے ہوں۔ بعض دفعہ سرحدوں پر فوجیں بھی لا کھڑی کرتے ہوں۔ ایک دوسرے کے ملکوں میں جاسوس بھیج کر حساس معلومات بھی حاصل کرتے ہوں اور موقع ملنے پر وارداتیں بھی کراتے ہوں۔ لیکن حکومت کی سطح پر بظاہر مذاکرات بھی ہو رہے ہوں۔ ایسے ملک کے ساتھ بھی مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا تعلق قائم نہیں کیا جاسکتا۔ غیر حربی کافروں سے تعلقات کی شرط غیر حربی کافر ممالک سے ہر طرح کے تعلقات رکھے جاسکتے ہیں لیکن اس میں ایک شرط ہے کہ اس میں مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو اور مسلمانوں سے مراد صرف اپنے ملک کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمان مراد ہیں۔ اگر وہ ملک لالچ دے کر یا دھمکی دے کر کسی دوسرے مسلمان ملک کے خلاف تعلق قائم کرنا چاہے تو ایسا تعلق سراسر حرام ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ کسی جگہ بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے تو وہ پوری امت اور ملت کا نقصان ہے۔ جس کے لیے پوری امت قیامت کے دن جواب دہ ہوگی اور اگر وہ مسلمان ملک جس کے خلاف اتحاد کیا جا رہا ہے پڑوسی ہو تو اس کے حقوق دو گونہ ہوجاتے ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور دوسرا پڑوسی ہونے کی حیثیت سے۔ اس کے خلاف نہ صرف کہ کسی کافر حکومت کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کی حفاظت بھی واجب ہوجاتی ہے۔ دوسرے مسلمان پڑوسی ممالک اس کی ہر طرح مدد کرنے کے دینی طور پر پابند ہیں اور اگر وہ اپنی کمزوریوں کے باعث مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو یہ تو کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ دشمن ملک کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنیں۔ اس معاملے میں اسلامی احکام بہت واضح اور بہت حساس ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے سب سے مقدس اور اہم ترین رشتہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ جن کی حرمت کا تحفظ ہر مسلمان کا ایمان ہے۔ لیکن اگر کبھی کوئی مسلمان کافروں کے قابو آجائے اور وہ اسے بندوق کی نوک پر مجبور کریں کہ تم اپنے اللہ یا رسول کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہو تو ایسی صورت میں اس مجبور مسلمان کے لیے عزیمت کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ جان دے دے لیکن کلمہ کفر زبان پر نہ آنے دے۔ لیکن اگر وہ یہ عزیمت نہیں دکھا سکتا تو اسے اس بات کی رخصت دی گئی ہے کہ وہ زبان سے کلمہ کفر کہہ سکتا ہے بشرطیکہ اس کا دل پوری طرح ایمان کی قوت سے بھرپور ہو۔ صرف جان بچانے کے لیے اسے اس طرح کا کلمہ کفر کہنے کی اجازت ہے۔ لیکن اگر کسی مسلمان سے بندوق کی نوک پر یہ کہا جائے کہ تم فلاں شخص کو گولی مار دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ہم تمہیں گولی مار دیں گے اس شخص کے لیے کسی طرح بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے مسلمان بھائی کو مجبوراً بھی گولی مارے۔ اگر اس کی جان بھی چلی جائے تو اسے پرواہ نہیں کرنی چاہیے، اسے اللہ تعالیٰ درجہ شہادت عطا فرمائیں گے۔ لیکن وہ محض اپنی جان کی حفاظت کے لیے دوسرے مسلمان کو ہرگز نشانہ نہیں بنا سکتا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ : ” اگر ایک طرف مسلمان کا خون بہہ رہا ہو اور دوسری طرف کعبہ گر رہا ہو تو میں پہلے مسلمان کو بچانے کی کوشش کروں گا “ مزید فرمایا کہ : اگر ساری دنیا بھی مل کر کسی مسلمان کے قتل ناحق کا ارتکاب کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس خون ناحق کے قصاص میں پوری دنیا کو بھی جہنم میں ڈالنے سے دریغ نہیں کروں گا۔ ان باتوں سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ مسلمانوں کو غیر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو پالیسی دی گئی ہے وہ کس قدر واضح ہے۔ لیکن امت مسلمہ کے لیے یہ کس قدر عظیم حادثہ ہے کہ آج خود مسلمان ممالک مسلمانوں کے خلاف اس غیر مسلم قوت کے اتحادی بنے ہوئے ہیں جس کے دشمن اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اپنے وسائل مسلمانوں کو تہِ تیغ کرنے میں دشمنوں کے حوالے کیے جا رہے ہیں اور اسے نیکی سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ لیکن شائد جو حکمران اس جرم کے براہ راست مرتکب ہو رہے ہیں انھیں طویل انتظار نہ کرنا پڑے کیونکہ قرآن کریم نے اس آیت ِکریمہ میں واضح طور پر ان کے انجام کی خبر دے دی ہے۔ دنیا میں ممکن ہے کہ پروردگار انھیں ڈھیل دیتا رہے، لیکن آخرت میں ان کا انجام وہی ہوگا جو کافروں کا ہوگا کیونکہ اس آیت میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَـتَّخِذُوا الْـیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ اَوْلِیَـآئَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَـآئُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلّٰہُمْ مِنْـکُمْ فَاِنَّـہٗ مِنْہُمْ ۔ (اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو کیونکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں (مسلمانوں سے ان کی کوئی دوستی نہیں) تو جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا ) اس میں واضح طور پر فرما دیا گیا کہ مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کے ساتھ دوستی کرنے والے اسی انجام سے دوچار ہوں گے جو انجام کافروں کا ہوگا اور ساتھ ہی ایک بہت بڑی حقیقت بھی منکشف فرمائی گئی کہ جتنی کافر قومیں ہیں وہ بظاہر بیشک ایک دوسرے کے خلاف ہوں، لیکن جب بھی ان میں سے کسی قوم کا مسلمانوں سے تصادم ہوگا تو تمام کافر قومیں اس کافر قوم کا مسلمانوں کے خلاف ساتھ دیں گی کیونکہ اسلام اور مسلمان کی دشمنی ان کے رگ و ریشے میں سمائی ہوئی ہے۔ وہ کسی طرح بھی اس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ وہ محض اپنے مفادات کے لیے مسلمان ملکوں کو اپنے معاہدات میں بھی شریک کریں گے، لیکن کوئی نازک وقت آئے گا تو ان کی ہمدردیاں مسلمانوں کے خلاف، مسلمانوں کے دشمنوں کے حق میں ہوں گی۔ یہ وہ تاریخی حقیقت ہے جس سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے پردہ اٹھایا گیا اور آج تک ہر دور میں وقت نے اس حقیقت کو ثابت ہوتے دیکھا۔ لیکن انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے ذمہ دار نہ جانے اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے۔ ہماری اور ہمارے دشمنوں کی کیفیت کچھ اس طرح کی ہے ؎ بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے ہیں اِلَّآ اَنْ تَـتَّـقُوْا مِنْہُمْ تُقٰـۃً کا مفہوم اِلَّآ اَنْ تَـتَّقُـوْا مِنْہُمْ تُـقٰـۃًآیتِ کریمہ کے اس جملے کے انطباق میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ آیت کریمہ میں یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کو دوست نہ بنائیں، یہ جملہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کافروں میں گھر جائے اور اسے اس بات کا یقینی اندیشہ ہو کہ اگر میں نے ایمان کا اظہار کیا یا ان کے سامنے اسلامی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کی تو یہ لوگ مجھے جان سے مار دیں گے تو اس کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ ان کے ساتھ اس طرح رہے کہ وہ اسے اپنی صف کا آدمی سمجھیں۔ اس کا ظاہری رویہ ان کے ساتھ بہتر اخلاق پر مبنی ہو۔ اس کے طور اطوار سے کسی طرح بھی اجنبیت کا احساس نہ ہونے پائے۔ اگر وہ اسلام کے بارے میں کوئی ناگوار بات بھی کہیں تو یہ خاموش رہے۔ لیکن اگر وہ اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا چاہیں اور اس سے کوئی ایسا کام لینا چاہیں جس سے مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو اسے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں۔ البتہ ! عام معاملات میں وہ ان کے ساتھ رہنے سہنے میں آزاد ہے۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہہ دینے کی بھی اجازت ہے بشرطیکہ دل ایمان پر مطمئن ہو، لیکن مکرر یہ بات عرض کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے مفادات کے خلاف یا مسلمانوں کی اجتماعی مصلحتوں کو نقصان پہنچا کر کسی کام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ اس کے لیے اگر جان بھی دینی پڑے تو دینا ہوگی کیونکہ مسلمانوں کی اجتماعی مصلحتیں، مسلمانوں کی جان اور اسلام کی عزت و آبرو اس کی جان سے زیادہ قیمتی ہیں۔ تو اس جملے میں اسی بات کی اجازت دی گئی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ جملہ آیت کے اصل حکم سے مستثنیٰ نہیں بلکہ اپنے ساتھ والے جملے سے مستثنیٰ ہے۔ یہ جو فرمایا گیا کہ مسلمان کافروں کے ساتھ دوستی کا رشتہ نہ رکھیں اور جو شخص مسلمانوں کے خلاف کافروں سے دوستی کا رشتہ رکھے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ اس نفی سے استثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ سے تعلق رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں سے اپنا دامن بچا کر رکھا جائے جو اللہ، اس کے دین اور اس کے وفادار بندوں کے دشمن ہیں یعنی اللہ سے تعلق ان لوگوں کا ہوگا جو تا حدِّ آخر کافروں سے مخالفِ اسلام موالاۃ سے بچیں گے اور یہ بچنا محض زبان کا جمع خرچ نہیں ہوگا بلکہ اس طرح بچیں جس طرح بچنے کا حق ہے۔ اسی سورت میں ایک دوسری جگہ فرمایا گیا : یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تَقَاتِہٖ (اے مومنو ! اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے) اسی طرح یہاں بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ کافروں سے موالاۃ کا تعلق قائم کرنے میں اس طرح بچیں جس طرح بچنے کا حق ہے۔ یہاں بھی تُـقٰـۃً مفعول مطلق واقع ہوا ہے جس سے فعل کی تاکید مقصود ہے۔ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ (اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے) اس میں کمزور مسلمانوں یا منافقین کو تنبیہ ہے کہ تم غیر مسلم قوتوں سے اس لیے ترک تعلق کرنے سے ڈرتے ہو کہ کہیں تم کسی مشکل میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ مومن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا اصل تعلق اللہ سے ہونا چاہیے۔ تم اسی سے ڈرو اور اسی سے امیدیں رکھو لیکن تم انسانی قوتوں سے اللہ سے بڑھ کے ڈرتے ہو اور اصل قوت و طاقت کا سرچشمہ انھیں سمجھتے ہو۔ تو ایسے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے، تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ کس قدر قوتوں اور قدرتوں کا مالک ہے۔ اس نے تمہیں مہلت عمل دے رکھی ہے اور اپنی رحمت کی وجہ سے تمہاری بد اعمالیوں کے باوجود تمہیں ڈھیل دے رہا ہے، تو تمہیں اس کی شان کریمی سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ وہ جس طرح رحیم و کریم ہے اسی طرح عادل بھی ہے۔ جب اس کی صفت عدل کا ظہور ہوگا تو پھر تمہیں پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ اس وقت مہلت عمل ختم ہوچکی ہوگی۔ تم پلٹنا چاہو گے لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ اس لیے اب تمہیں موقع ہے کہ اللہ کی ذات کا ڈر اپنے اندر پیدا کرو اور باقی ہر طرح کے خوف سے اپنے اپ کو نجات دے دو اور یہ بھی یاد رکھو کہ یہاں ہمیشہ کسی کو زندہ نہیں رہنا۔ ایک نہ ایک دن اس زندگی کا خاتمہ ہونا ہے۔ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ ( اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے) اگر اس نے یہاں گرفت نہ فرمائی تو قیامت کے دن تو ہر صورت میں اس کے عدل کا ظہور ہوگا۔ ہر ایک کے ایمان و عمل کی جانچ ہوگی، اعمال تولے جائیں گے۔ اس دن تم اگر ایمان سے محروم رہے تو یہود سے تمہارے تعلقات تمہیں سزا سے بچا نہیں سکیں گے۔ اس دن تو اسے پناہ ملے گی جس پر اللہ رحم فرمائے گا۔ اس دن اندازہ ہوگا کہ اللہ کی ذات کتنی عظیم ہے اور تم نے اس کے مقابلے میں دوسری قوتوں کو بڑا سمجھ کر کیسی حماقت کی تھی اور آج کوئی قوت اس کے غضب سے تمہیں بچا نہیں سکے گی۔
Top