Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
نہ بنائیں مومن کافروں کو دوست مسلمانوں کو چھوڑ کر، اور جو شخص یہ کام کرے گا تو اللہ سے دوستی کرنے کے کسی شمار میں نہیں۔ مگر اس حالت میں کہ دشمنوں سے کچھ بچاؤ کرنا ہو، اور اللہ تم کو اپنے سے ڈراتا ہے۔ اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اہل ایمان کو حکم کہ کافروں سے دوستی نہ کریں اس آیت شریفہ میں اہل ایمان کو اس بات سے منع فرمایا کہ مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنائیں اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جو کوئی شخص ایسا کرے گا یعنی مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنائے گا اللہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ معالم التنزیل صفحہ 291: ج 1 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ مذکورہ بالا آیت عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی، یہ لوگ ظاہر میں مومن ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور دل سے کافر تھے۔ یہودیوں سے اور مشرکوں سے دوستی رکھتے تھے اور ان کو مسلمانوں کی خبریں پہنچاتے تھے اور یہ امید باندھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں یہودی اور مشرکین غلبہ پالیں گے اور فتح یاب ہوجائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مومنین کو منع فرما دیا کہ ان لوگوں کی طرح عمل نہ کریں اور کافروں کی دوستی سے پرہیز کریں اپنی دوستی صرف مسلمانوں سے رکھیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ چند یہودی بعض انصار سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا اندرونی مقصد یہ تھا کہ ان کو دین اسلام سے پھیر دیں بعض صحابہ ؓ نے ان انصاریوں کو ان یہودیوں کی دوستی سے منع کیا ان لوگوں نے نہ مانا اور ان کے ساتھ گھلنا ملنا جاری رکھا۔ اللہ جل شانہ نے آیت بالا نازل فرمائی اور دشمنان دین کی دوستی سے منع فرما دیا۔ موالات کفار (کافروں کی دوستی) کی ممانعت اس آیت کے علاوہ دیگر آیات میں بھی وارد ہوئی ہے۔ سورة ممتحنہ میں فرمایا : ( یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَکُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰہِ رَبِّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ اِِلَیْہِمْ بالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَا اَخْفَیْتُمْ وَمَا اَعْلَنتُمْ وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآء السَّبِیْلِ اِِنْ یَّثْقَفُوکُمْ یَکُوْنُوْا لَکُمْ اَعْدَآءً وَّیَبْسُطُوْٓا اِِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بالسُّوْٓءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ ) ” اے ایمان والو ! مت بناؤ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست تم ان کی طرف دوستی کے پیغامات بھیجتے ہو حالانکہ انہوں نے اس کے ساتھ کفر کیا جو تمہارے پاس حق آیا وہ نکالتے ہیں رسول کو اور تم کو اس وجہ سے کہ تم ایمان لائے اللہ کے ساتھ جو تمہارا رب ہے اگر تم نکلے ہو میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا کی تلاش میں، تم چپکے سے ان کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم نے پوشیدہ کیا اور جو کچھ ظاہر کیا اور تم میں سے جو شخص ایسا کام کرے گا تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ اگر وہ تم کو پالیں تو تمہارے دشمن ہوں گے اور تمہاری طرف اپنے ہاتھوں اور زبانوں کو بڑھا دیں گے برائی کے ساتھ، اور ان کی آرزو ہے کہ کاش تم لوگ کافر ہوجاؤ۔ کافروں سے محبت کرنے کے نتائج : ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ کافروں سے موالات اور ان سے دوستی رکھنا قطعاً اور سخت ممنوع ہے آجکل مسلمانوں کو اس ممانعت کی طرف بالکل توجہ نہیں ہے کافروں سے دوستی ہے اور اپنوں سے بیزاری ہے۔ دنیا کا مفاد پیش نظر ہے اپنے مفاد کو باقی رکھنے کے لیے کافروں سے دوستی کرتے ہیں اور مسلمانوں کی دوستی کا خیال تک نہیں آتا۔ مسلمان غیر قوموں کے مخبر بھی بن جاتے ہیں مسلمانوں کے ملکوں کی خبریں ان کے دشمنوں کو پہنچاتے ہیں۔ آپس میں بگاڑ ہے اور کافروں سے جوڑ ہے، اس افسوس ناک صورت حال نے مسلمانوں کے ملکوں کو کافروں کی حکومتوں کا دم چھلہ بنا رکھا ہے۔ کوئی ملک کافروں کی کسی حکومت کا سہارا لے کر جی رہا ہے اور کوئی ان کی کسی دوسری حکومت کا خاص الخاص بنا ہوا ہے، مسلمان مقالے لکھتے ہیں، ڈاکٹریٹ کرتے ہیں، دشمن ان سے ایسے مضامین لکھاتے ہیں جو مسلمانوں کے اندرونی حالات اور معاملات اور ان کے ارادوں اور اداروں کی خبروں پر مشتمل ہوں، یہ لوگ کافروں کے دوست ہیں اسلام اور مسلمان کی دوستی ان کے پیش نظر نہیں، مسلمانوں کے بعض ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور جفا کا معاملہ ہوتا ہے ان کو اجنبی کہہ کر ممالک سے خارج کردیا جاتا ہے اور کافروں کو المواطن کہہ کر گلے لگایا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں کافروں کی موالات اور دوستی سے جو منع فرمایا یہ بہت اہم بات ہے لوگ اس کو روا داری کے خلاف سمجھتے ہیں، روا داری اور چیز ہے اور موالات یعنی دل سے دوستی کرنا اور چیز ہے۔ دل سے جب دوستی ہوتی ہے تو مسلمانوں کی خبریں بھی دشمنوں کو پہنچائی جاتی ہیں اور مسلمان حکومتوں کے اندر کے پروگرام بھی دشمن کو بتا دیئے جاتے ہیں، ایمان کا تقاضا ہے کہ قلبی محبت صرف مسلمانوں سے ہو کافروں سے نہ ہو، کہتے ہیں فلاں صاحب نمازی ہیں، نمازی تو ہیں لیکن اندر سے دشمنوں کے ہاتھ بکے ہوئے ہیں ان کو اسلام کا یہ حکم ماننا گوارا نہیں وہ کافروں سے موالات اور محبت نہ کریں۔ مسلمانوں میں طرح طرح کی عصبیتیں ہیں آپس میں موالات نہیں رہی کہیں صوبائی عصبیت ہے کہیں لسانی عصبیت، اور کہیں عرب و عجم کی عصبیت ہے۔ ایمانی رشتوں کو چھوڑ کر غیر ایمانی تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں۔ اس میں کافروں سے بھی موالات کرنی پڑتی ہے اور یہ عصبیتیں کافروں ہی نے سمجھائی ہیں۔ بعض ملکوں میں تو کافروں سے دوستی کا یہ حال ہے کہ لوگ دشمنوں کے مندر تک بنوا دیتے ہیں اور ان کی دوستی میں نمازیں تک چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے مذہبی تہواروں میں شرکت بھی کرتے ہیں اور ہدیے بھی دیتے ہیں۔ اس صورت حال نے مسلمانوں کی اپنی ذاتی کوئی حیثیت دنیا میں باقی نہیں رکھی، کافروں سے یہ امید کرنا کہ وہ ہمیں فائدہ پہنچا دیں گے غلط خیال ہے جو بظاہر ان سے فائدہ پہنچتا ہے اس کی آڑ میں نقصان ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ سورة آل عمران کی آیت (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا) میں صاف بتادیا کہ کافروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ اور یہ بھی واضح طور پر بتادیا گیا کہ وہ لوگ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں پھوٹ پڑی رہے ان کے ممالک ہماری طرف جھکے رہیں اس طرح ہمارے محتاج بھی رہیں اور ہمارے خلاف کچھ کر بھی نہ سکیں اور ہمیں ان کے اندرونی راز بھی معلوم ہوتے رہیں۔ آیت میں جو لفظ (مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) فرمایا اس میں اس پر خاص تنبیہ ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی نہ کریں۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ مسلمانوں کو نہ چھوڑے ان سے بھی دوستی رکھے اور کافروں سے بھی۔ کیونکہ مقصود کافروں کی دوستی سے منع کرنا ہے اور حقیقت میں بات یہ ہے کہ کافروں سے قلبی دوستی جبھی ہوسکتی ہے جبکہ مسلمانوں کی دوستی کو نظر انداز کردیا جائے۔ خواہ مستقل طور پر مسلمانوں سے بےتعلقی اختیار کی جائے خواہ عارضی طور پر ہر حال میں کافروں سے قلبی محبت ہوگی تو وہ ضرور مسلمانوں سے کسی نہ کسی درجہ میں تعلق کم کرنے یا تعلق توڑنے پر مجبور کرے گی۔ کافروں سے موالات کرنے والوں کے لیے و عید شدید : آیت شریفہ میں کافروں کی موالات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا اور ان سے دوستی کرنے والوں کے حق میں ارشاد فرمایا کہ (وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ ) کہ جو شخص ایسا کرے گا تو اللہ کی دوستی یا اللہ کے دین کا اس سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ قال صاحب الروح ص 121: ج 2 و الکلام علی حذف مضاف ای من ولایتہ او من دینہ والظرف الاول حال من (شیء) والثانی خبر لیس۔ و تنوین (شیء) للتحقیر ای لیس فی شیء یصح ان یطلق علیہ اسم الولایۃ او الدین۔ موالات کی ایک صورت مستثنیٰ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً ) یعنی اسی صورت میں ظاہری دوستی کی اجازت ہے جبکہ ان سے کسی قسم کا ضرر پہنچنے کا واقعی اندیشہ ہو، کوئی مسلمان کافروں میں پھنس جائے۔ مقتول ہونے کا یا کسی عضو کے تلف ہونے کا واقعی اندیشہ ہو اور کافر زبردستی کریں کہ تو ہمارے دین کے مطابق نہ بولا تو تجھے مار ڈالیں گے تو صرف ظاہری طور پر زبان سے (نہ کہ دل سے) کوئی کلمہ ایسا کہہ دے جس سے جان بچ جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ پھر فرمایا (وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ ) اور اللہ تم کو اپنے سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ لہٰذا ہر عمل میں اس کو سامنے رکھیں اللہ کی بار گاہ میں پیش ہونا ہے یہ ہمیشہ پیش نظر رہے اگر اس پر عمل کریں گے تو گناہوں سے بچ سکیں گے گناہوں میں موالات کفار بھی شامل ہے۔ مواسات اور مدارات کس حد تک جائز ہے : واضح رہے کہ آیات قرآنیہ میں کافروں سے قلبی دوستی کی ممانعت فرمائی ہے مواسات اور مدارات کی ممانعت نہیں ہے خوش خلقی سے پیش آنا مہمانی کے طور پر کچھ کھلانا پلانا۔ دفتروں میں ان کے ساتھ ملازمتیں کرنا، تجارتی معاملات کرنا اس کی ممانعت نہیں ہے۔ البتہ جو کفار دارالحرب کے ہوں اور مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں ان سے کسی قسم کا تعاون نہ کیا جائے اور معاملات میں بھی شرعی اصول کے موافق جائز ناجائز کا خیال رکھا جائے۔ حربی کافروں کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنا ممنوع ہے کافروں کو ملازم رکھنا اور ان کے اداروں میں ملازم ہونا یہ بھی جائز ہے۔ البتہ دلی دوستی اور محبت کسی کافر کے ساتھ کسی حال میں بھی جائز نہیں۔ قرآن کریم نے کافروں سے جو قلبی دوستی رکھنے سے منع فرمایا ہے یہ کوئی اشکال کی بات نہیں ہے۔ خود کافر بھی اسی پر عامل ہیں وہ بھی مسلمانوں سے قلبی دوستی نہیں رکھتے جب تک کفر اور کافر سے قلبی نفرت نہ ہوگی اسلامی احکام پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکتا۔ کافروں نے ممالک میں یک جہتی کے نام سے تحریک چلا رکھی ہے۔ اس طرح سے مسلمانوں کو ان کے دین میں کچا کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی جماعت میں مدغم کرنے کی کوشش میں ہیں اور ان کی کوشش انہیں مسلمانوں میں کامیاب ہوتی ہے جنہیں کفر اور کافر سے نفرت نہیں ہے بعض مسلمان کافروں سے جھینپتے ہیں کہ قرآن میں کافروں سے موالات کرنے کو منع فرمایا ہے اس میں جھینپنے کی کوئی بات نہیں کافر اس پر اعتراض کریں تو ان سے کہیں کہ تم خود بتاؤ کیا تم ہمیں دل سے چاہتے ہو اور ہمارے دین کو اچھا سمجھتے ہو ؟ کیا ہمارا وجود تمہیں گوارا ہے ؟ وہ اگر صحیح جواب دیں گے تو یہی کہیں گے کہ ہم تمہیں دل سے نہیں چاہتے لہٰذا ان سے کہیں کہ جو تمہارا حال ہے وہی ہمارا طریقہ ہے۔ روافض کا تقیہ اور اس کی تردید : روافض کے دین میں تقیہ کی بہت اہمیت ہے یہ ان کے دین کا بہت بڑا رکن ہے لا ایمان لمن لا تقیۃ لہ ان کا مشہور عقیدہ ہے اور اس پر ان کا عمل بھی ہے انہوں نے اپنے تقیہ کے لیے آیت کے الفاظ (اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً ) سے استدلال کیا ہے اول یہ سمجھ لیں کہ روافض کو تقیہ کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ بات یہ ہے کہ یہودیوں نے جب روافض کو سیدنا محمد رسول اللہ خاتم النّبیین ﷺ کے دین کے علاوہ دوسرا دین بنا کردیا تو اس میں یہ بھی تھا کہ حضرت ابوبکر وعمر اور حضرت عثمان ؓ نے خلافت غصب کرلی تھی اور حضرت علی ؓ خلیفہ بلا فصل تھے، اس پر مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر وہ خلیفہ بلا فصل تھے تو انہوں نے حق کا اعلان کیوں نہیں کیا اور 26 سال تک ان حضرات کے مشوروں میں کیوں شریک رہے ؟ اور جہادوں میں ان کے ساتھ کیوں شرکت کی اور ان کے پیچھے جمعہ اور عیدین کیوں پڑھتے رہے۔ اور روزانہ جماعتوں میں کیوں حاضر رہے ؟ اس پر روافض کو ان کے استادوں یعنی یہودیوں نے یہ نکتہ سجھا دیا کہ حضرت علی ؓ نے تقیہ کرلیا تھا، یہ تقیہ کا ایسا ہتھیار دشمنوں نے ان کے ہاتھ میں دیا کہ اس کو انہوں نے دین کا بہت بڑا ستون بنا لیا۔ ہر بات میں تقیہ کے ذریعہ گرفت میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔ اور اپنے عقیدہ کے خلاف قصداً وارادۃً بہت سی باتیں کہہ جاتے ہیں اور اس کو بہت بڑی نیکی سمجھتے ہیں۔ کہاں حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا جری اور بہادر ببانگ دہل حق کا اعلان کرنے والے اور کہاں روافض کا تقیہ جو عقیدہ کے خلاف کہہ دینے اور مخاطب کو دھوکہ دینے پر مبنی ہے، حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو خلفاء ثلاثہ سے دبنے کی کوئی ضرورت نہ تھی وہ حق گو، حق بین، حق شناس صحابی (t) تھے۔ باطل سے دبنا اور حق کے خلاف زبان نہ کھولنا اہل حق کا شیوہ نہیں۔ بزعم روافض حضرت علی ؓ خلیفہ بلا فصل بھی تھے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر ؓ سے دب بھی گئے خاتم النّبیین ﷺ کا خلیفہ مخلوق سے دب جائے یہ بات اہل ایمان کی سمجھ میں آنے والی نہیں۔ اب دوسرا رخ لیجیے وہ یہ کہ حضرت حسین ؓ جب روافض کی دعوت پر کوفہ پہنچے اور وہاں دیکھا کہ ان کے جھوٹے حامی ان سے الگ ہوگئے اور ان کے ساتھ اپنے ہی خاص لوگ مختصر سی تعداد میں رہ گئے تو انہوں نے اظہار کے لیے جان دینا اور اپنے اہل بیت کو قتل کروانا مناسب جانا، اگر تقیہ کوئی دین کا کام تھا تو ان کو بطور تقیہ یزید اور ابن زیاد کی بات مان لینا چاہیے تھا، معلوم ہوا کہ روافض کا تقیہ ان کے آئمہ سے بھی ثابت نہیں ہے یہ ایک تراشیدہ عقیدہ ہے اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں قرآن سے اس کا کوئی ثبوت نہیں اور جن کو شیعہ اپنا امام مانتے ہیں ان سے بھی ثابت نہیں اور جو روایات روافض نے تقیہ کے بارے میں اماموں کی طرف منسوب کی ہیں وہ سب جعلی ہیں، شیعہ مؤلفین نے تراشی ہیں، حضرت علی مرتضیٰ ؓ اور دیگر آئمہ نے (بقول روافض) تقیہ خوف کی وجہ سے کیا ہو یا بلا خوف، یہ خلیفہ برحق کی شان کے خلاف ہے۔ اندر کچھ ہو اور باہر کچھ یہ امام کی شان کے خلاف ہے۔ روافض کے نزدیک خلیفہ اول کا جو حال ہے وہی بعد کے اماموں کا بھی حال ہے ان کے نزدیک وہ سب تقیہ کرنے والے تھے (العیاذ باللہ) روافض کا جو تقیہ ہے اس کا قرآن کریم سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ (اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً ) میں یہ بتایا ہے کہ کوئی مسلمان کافروں میں پھنس جائے، مثلاً محبوس ہو یا محبوسوں کی طرح سے ہو (جیسے اندھے اپاہج، لنگڑے لولے اور بیمار) اور کافر کفر کلمہ کہلوانے پر کسی ایسی تکلیف دینے کی دھمکی دیں جو ناقابل برداشت ہو اور وہ جو دھمکی دے رہے ہیں اس پر وہ قادر بھی ہوں تو زبان سے کلمہ کفر کے کہنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ سورة نحل کی آیت (اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَءِنٌّ بالْاِیْمَانِ ) میں اجازت دی ہے۔ لیکن فضیلت اسی میں ہے کہ جان دیدے اور تکلیف اٹھا لے اور کفر کا کلمہ زبان پر نہ لائے اور روافض کو قرآن مجید سے استدلال کرنے کا حق کیا ہے وہ تو اسے محرف مانتے ہیں اور صحیفہ عثمانی مانتے ہیں، جو قرآن ہمارے پاس ہے جس کو ہم اللہ کی کتاب مانتے ہیں اور جس کے بارے میں محفوظ غیر محرف ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اس سے منکرین قرآن کو استدلال کرنے کا کیا حق ہے۔ ممکن ہے کوئی رافضی یوں کہے کہ ہم تمہیں الزام دینے کے لیے تمہارے قرآن سے استدلال کرتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ اپنی جہالت سے اپنے خود تراشیدہ عقیدہ کے لیے آیت کا مطلب جو تم نے تجویز کیا ہے ہم پر حجت نہیں، پھر تمہیں تو پھر بھی تقیہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے اس کی دلیل کے لیے کم از کم حضرت علی ؓ کا ایک ارشاد ہی ثابت کردیجیے جو صحیح سند سے ہو۔ روافض کا بنایا ہوا نہ ہو۔
Top