Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ
:نہ بنائیں
الْمُؤْمِنُوْنَ
: مومن (جمع)
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
اَوْلِيَآءَ
: دوست (جمع)
مِنْ دُوْنِ
: علاوہ (چھوڑ کر)
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
وَمَنْ
: اور جو
يَّفْعَلْ
: کرے
ذٰلِكَ
: ایسا
فَلَيْسَ
: تو نہیں
مِنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
فِيْ شَيْءٍ
: کوئی تعلق
اِلَّآ
: سوائے
اَنْ
: کہ
تَتَّقُوْا
: بچاؤ کرو
مِنْھُمْ
: ان سے
تُقٰىةً
: بچاؤ
وَيُحَذِّرُكُمُ
: اور ڈراتا ہے تمہیں
اللّٰهُ
: اللہ
نَفْسَهٗ
: اپنی ذات
وَاِلَى
: اور طرف
اللّٰهِ
: اللہ
الْمَصِيْرُ
: لوٹ جانا
نہ بنائیں مومن کافروں کو دوست مسلمانوں کو چھوڑ کر، اور جو شخص یہ کام کرے گا تو اللہ سے دوستی کرنے کے کسی شمار میں نہیں۔ مگر اس حالت میں کہ دشمنوں سے کچھ بچاؤ کرنا ہو، اور اللہ تم کو اپنے سے ڈراتا ہے۔ اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اہل ایمان کو حکم کہ کافروں سے دوستی نہ کریں اس آیت شریفہ میں اہل ایمان کو اس بات سے منع فرمایا کہ مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنائیں اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جو کوئی شخص ایسا کرے گا یعنی مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنائے گا اللہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ معالم التنزیل صفحہ 291: ج 1 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ مذکورہ بالا آیت عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی، یہ لوگ ظاہر میں مومن ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور دل سے کافر تھے۔ یہودیوں سے اور مشرکوں سے دوستی رکھتے تھے اور ان کو مسلمانوں کی خبریں پہنچاتے تھے اور یہ امید باندھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں یہودی اور مشرکین غلبہ پالیں گے اور فتح یاب ہوجائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مومنین کو منع فرما دیا کہ ان لوگوں کی طرح عمل نہ کریں اور کافروں کی دوستی سے پرہیز کریں اپنی دوستی صرف مسلمانوں سے رکھیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ چند یہودی بعض انصار سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا اندرونی مقصد یہ تھا کہ ان کو دین اسلام سے پھیر دیں بعض صحابہ ؓ نے ان انصاریوں کو ان یہودیوں کی دوستی سے منع کیا ان لوگوں نے نہ مانا اور ان کے ساتھ گھلنا ملنا جاری رکھا۔ اللہ جل شانہ نے آیت بالا نازل فرمائی اور دشمنان دین کی دوستی سے منع فرما دیا۔ موالات کفار (کافروں کی دوستی) کی ممانعت اس آیت کے علاوہ دیگر آیات میں بھی وارد ہوئی ہے۔ سورة ممتحنہ میں فرمایا : ( یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَکُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰہِ رَبِّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ اِِلَیْہِمْ بالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَا اَخْفَیْتُمْ وَمَا اَعْلَنتُمْ وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآء السَّبِیْلِ اِِنْ یَّثْقَفُوکُمْ یَکُوْنُوْا لَکُمْ اَعْدَآءً وَّیَبْسُطُوْٓا اِِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بالسُّوْٓءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ ) ” اے ایمان والو ! مت بناؤ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست تم ان کی طرف دوستی کے پیغامات بھیجتے ہو حالانکہ انہوں نے اس کے ساتھ کفر کیا جو تمہارے پاس حق آیا وہ نکالتے ہیں رسول کو اور تم کو اس وجہ سے کہ تم ایمان لائے اللہ کے ساتھ جو تمہارا رب ہے اگر تم نکلے ہو میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا کی تلاش میں، تم چپکے سے ان کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم نے پوشیدہ کیا اور جو کچھ ظاہر کیا اور تم میں سے جو شخص ایسا کام کرے گا تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ اگر وہ تم کو پالیں تو تمہارے دشمن ہوں گے اور تمہاری طرف اپنے ہاتھوں اور زبانوں کو بڑھا دیں گے برائی کے ساتھ، اور ان کی آرزو ہے کہ کاش تم لوگ کافر ہوجاؤ۔ کافروں سے محبت کرنے کے نتائج : ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ کافروں سے موالات اور ان سے دوستی رکھنا قطعاً اور سخت ممنوع ہے آجکل مسلمانوں کو اس ممانعت کی طرف بالکل توجہ نہیں ہے کافروں سے دوستی ہے اور اپنوں سے بیزاری ہے۔ دنیا کا مفاد پیش نظر ہے اپنے مفاد کو باقی رکھنے کے لیے کافروں سے دوستی کرتے ہیں اور مسلمانوں کی دوستی کا خیال تک نہیں آتا۔ مسلمان غیر قوموں کے مخبر بھی بن جاتے ہیں مسلمانوں کے ملکوں کی خبریں ان کے دشمنوں کو پہنچاتے ہیں۔ آپس میں بگاڑ ہے اور کافروں سے جوڑ ہے، اس افسوس ناک صورت حال نے مسلمانوں کے ملکوں کو کافروں کی حکومتوں کا دم چھلہ بنا رکھا ہے۔ کوئی ملک کافروں کی کسی حکومت کا سہارا لے کر جی رہا ہے اور کوئی ان کی کسی دوسری حکومت کا خاص الخاص بنا ہوا ہے، مسلمان مقالے لکھتے ہیں، ڈاکٹریٹ کرتے ہیں، دشمن ان سے ایسے مضامین لکھاتے ہیں جو مسلمانوں کے اندرونی حالات اور معاملات اور ان کے ارادوں اور اداروں کی خبروں پر مشتمل ہوں، یہ لوگ کافروں کے دوست ہیں اسلام اور مسلمان کی دوستی ان کے پیش نظر نہیں، مسلمانوں کے بعض ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور جفا کا معاملہ ہوتا ہے ان کو اجنبی کہہ کر ممالک سے خارج کردیا جاتا ہے اور کافروں کو المواطن کہہ کر گلے لگایا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں کافروں کی موالات اور دوستی سے جو منع فرمایا یہ بہت اہم بات ہے لوگ اس کو روا داری کے خلاف سمجھتے ہیں، روا داری اور چیز ہے اور موالات یعنی دل سے دوستی کرنا اور چیز ہے۔ دل سے جب دوستی ہوتی ہے تو مسلمانوں کی خبریں بھی دشمنوں کو پہنچائی جاتی ہیں اور مسلمان حکومتوں کے اندر کے پروگرام بھی دشمن کو بتا دیئے جاتے ہیں، ایمان کا تقاضا ہے کہ قلبی محبت صرف مسلمانوں سے ہو کافروں سے نہ ہو، کہتے ہیں فلاں صاحب نمازی ہیں، نمازی تو ہیں لیکن اندر سے دشمنوں کے ہاتھ بکے ہوئے ہیں ان کو اسلام کا یہ حکم ماننا گوارا نہیں وہ کافروں سے موالات اور محبت نہ کریں۔ مسلمانوں میں طرح طرح کی عصبیتیں ہیں آپس میں موالات نہیں رہی کہیں صوبائی عصبیت ہے کہیں لسانی عصبیت، اور کہیں عرب و عجم کی عصبیت ہے۔ ایمانی رشتوں کو چھوڑ کر غیر ایمانی تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں۔ اس میں کافروں سے بھی موالات کرنی پڑتی ہے اور یہ عصبیتیں کافروں ہی نے سمجھائی ہیں۔ بعض ملکوں میں تو کافروں سے دوستی کا یہ حال ہے کہ لوگ دشمنوں کے مندر تک بنوا دیتے ہیں اور ان کی دوستی میں نمازیں تک چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے مذہبی تہواروں میں شرکت بھی کرتے ہیں اور ہدیے بھی دیتے ہیں۔ اس صورت حال نے مسلمانوں کی اپنی ذاتی کوئی حیثیت دنیا میں باقی نہیں رکھی، کافروں سے یہ امید کرنا کہ وہ ہمیں فائدہ پہنچا دیں گے غلط خیال ہے جو بظاہر ان سے فائدہ پہنچتا ہے اس کی آڑ میں نقصان ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ سورة آل عمران کی آیت (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا) میں صاف بتادیا کہ کافروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ اور یہ بھی واضح طور پر بتادیا گیا کہ وہ لوگ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں پھوٹ پڑی رہے ان کے ممالک ہماری طرف جھکے رہیں اس طرح ہمارے محتاج بھی رہیں اور ہمارے خلاف کچھ کر بھی نہ سکیں اور ہمیں ان کے اندرونی راز بھی معلوم ہوتے رہیں۔ آیت میں جو لفظ (مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) فرمایا اس میں اس پر خاص تنبیہ ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی نہ کریں۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ مسلمانوں کو نہ چھوڑے ان سے بھی دوستی رکھے اور کافروں سے بھی۔ کیونکہ مقصود کافروں کی دوستی سے منع کرنا ہے اور حقیقت میں بات یہ ہے کہ کافروں سے قلبی دوستی جبھی ہوسکتی ہے جبکہ مسلمانوں کی دوستی کو نظر انداز کردیا جائے۔ خواہ مستقل طور پر مسلمانوں سے بےتعلقی اختیار کی جائے خواہ عارضی طور پر ہر حال میں کافروں سے قلبی محبت ہوگی تو وہ ضرور مسلمانوں سے کسی نہ کسی درجہ میں تعلق کم کرنے یا تعلق توڑنے پر مجبور کرے گی۔ کافروں سے موالات کرنے والوں کے لیے و عید شدید : آیت شریفہ میں کافروں کی موالات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا اور ان سے دوستی کرنے والوں کے حق میں ارشاد فرمایا کہ (وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ ) کہ جو شخص ایسا کرے گا تو اللہ کی دوستی یا اللہ کے دین کا اس سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ قال صاحب الروح ص 121: ج 2 و الکلام علی حذف مضاف ای من ولایتہ او من دینہ والظرف الاول حال من (شیء) والثانی خبر لیس۔ و تنوین (شیء) للتحقیر ای لیس فی شیء یصح ان یطلق علیہ اسم الولایۃ او الدین۔ موالات کی ایک صورت مستثنیٰ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً ) یعنی اسی صورت میں ظاہری دوستی کی اجازت ہے جبکہ ان سے کسی قسم کا ضرر پہنچنے کا واقعی اندیشہ ہو، کوئی مسلمان کافروں میں پھنس جائے۔ مقتول ہونے کا یا کسی عضو کے تلف ہونے کا واقعی اندیشہ ہو اور کافر زبردستی کریں کہ تو ہمارے دین کے مطابق نہ بولا تو تجھے مار ڈالیں گے تو صرف ظاہری طور پر زبان سے (نہ کہ دل سے) کوئی کلمہ ایسا کہہ دے جس سے جان بچ جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ پھر فرمایا (وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ ) اور اللہ تم کو اپنے سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ لہٰذا ہر عمل میں اس کو سامنے رکھیں اللہ کی بار گاہ میں پیش ہونا ہے یہ ہمیشہ پیش نظر رہے اگر اس پر عمل کریں گے تو گناہوں سے بچ سکیں گے گناہوں میں موالات کفار بھی شامل ہے۔ مواسات اور مدارات کس حد تک جائز ہے : واضح رہے کہ آیات قرآنیہ میں کافروں سے قلبی دوستی کی ممانعت فرمائی ہے مواسات اور مدارات کی ممانعت نہیں ہے خوش خلقی سے پیش آنا مہمانی کے طور پر کچھ کھلانا پلانا۔ دفتروں میں ان کے ساتھ ملازمتیں کرنا، تجارتی معاملات کرنا اس کی ممانعت نہیں ہے۔ البتہ جو کفار دارالحرب کے ہوں اور مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں ان سے کسی قسم کا تعاون نہ کیا جائے اور معاملات میں بھی شرعی اصول کے موافق جائز ناجائز کا خیال رکھا جائے۔ حربی کافروں کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنا ممنوع ہے کافروں کو ملازم رکھنا اور ان کے اداروں میں ملازم ہونا یہ بھی جائز ہے۔ البتہ دلی دوستی اور محبت کسی کافر کے ساتھ کسی حال میں بھی جائز نہیں۔ قرآن کریم نے کافروں سے جو قلبی دوستی رکھنے سے منع فرمایا ہے یہ کوئی اشکال کی بات نہیں ہے۔ خود کافر بھی اسی پر عامل ہیں وہ بھی مسلمانوں سے قلبی دوستی نہیں رکھتے جب تک کفر اور کافر سے قلبی نفرت نہ ہوگی اسلامی احکام پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکتا۔ کافروں نے ممالک میں یک جہتی کے نام سے تحریک چلا رکھی ہے۔ اس طرح سے مسلمانوں کو ان کے دین میں کچا کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی جماعت میں مدغم کرنے کی کوشش میں ہیں اور ان کی کوشش انہیں مسلمانوں میں کامیاب ہوتی ہے جنہیں کفر اور کافر سے نفرت نہیں ہے بعض مسلمان کافروں سے جھینپتے ہیں کہ قرآن میں کافروں سے موالات کرنے کو منع فرمایا ہے اس میں جھینپنے کی کوئی بات نہیں کافر اس پر اعتراض کریں تو ان سے کہیں کہ تم خود بتاؤ کیا تم ہمیں دل سے چاہتے ہو اور ہمارے دین کو اچھا سمجھتے ہو ؟ کیا ہمارا وجود تمہیں گوارا ہے ؟ وہ اگر صحیح جواب دیں گے تو یہی کہیں گے کہ ہم تمہیں دل سے نہیں چاہتے لہٰذا ان سے کہیں کہ جو تمہارا حال ہے وہی ہمارا طریقہ ہے۔ روافض کا تقیہ اور اس کی تردید : روافض کے دین میں تقیہ کی بہت اہمیت ہے یہ ان کے دین کا بہت بڑا رکن ہے لا ایمان لمن لا تقیۃ لہ ان کا مشہور عقیدہ ہے اور اس پر ان کا عمل بھی ہے انہوں نے اپنے تقیہ کے لیے آیت کے الفاظ (اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً ) سے استدلال کیا ہے اول یہ سمجھ لیں کہ روافض کو تقیہ کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ بات یہ ہے کہ یہودیوں نے جب روافض کو سیدنا محمد رسول اللہ خاتم النّبیین ﷺ کے دین کے علاوہ دوسرا دین بنا کردیا تو اس میں یہ بھی تھا کہ حضرت ابوبکر وعمر اور حضرت عثمان ؓ نے خلافت غصب کرلی تھی اور حضرت علی ؓ خلیفہ بلا فصل تھے، اس پر مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر وہ خلیفہ بلا فصل تھے تو انہوں نے حق کا اعلان کیوں نہیں کیا اور 26 سال تک ان حضرات کے مشوروں میں کیوں شریک رہے ؟ اور جہادوں میں ان کے ساتھ کیوں شرکت کی اور ان کے پیچھے جمعہ اور عیدین کیوں پڑھتے رہے۔ اور روزانہ جماعتوں میں کیوں حاضر رہے ؟ اس پر روافض کو ان کے استادوں یعنی یہودیوں نے یہ نکتہ سجھا دیا کہ حضرت علی ؓ نے تقیہ کرلیا تھا، یہ تقیہ کا ایسا ہتھیار دشمنوں نے ان کے ہاتھ میں دیا کہ اس کو انہوں نے دین کا بہت بڑا ستون بنا لیا۔ ہر بات میں تقیہ کے ذریعہ گرفت میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔ اور اپنے عقیدہ کے خلاف قصداً وارادۃً بہت سی باتیں کہہ جاتے ہیں اور اس کو بہت بڑی نیکی سمجھتے ہیں۔ کہاں حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا جری اور بہادر ببانگ دہل حق کا اعلان کرنے والے اور کہاں روافض کا تقیہ جو عقیدہ کے خلاف کہہ دینے اور مخاطب کو دھوکہ دینے پر مبنی ہے، حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو خلفاء ثلاثہ سے دبنے کی کوئی ضرورت نہ تھی وہ حق گو، حق بین، حق شناس صحابی (t) تھے۔ باطل سے دبنا اور حق کے خلاف زبان نہ کھولنا اہل حق کا شیوہ نہیں۔ بزعم روافض حضرت علی ؓ خلیفہ بلا فصل بھی تھے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر ؓ سے دب بھی گئے خاتم النّبیین ﷺ کا خلیفہ مخلوق سے دب جائے یہ بات اہل ایمان کی سمجھ میں آنے والی نہیں۔ اب دوسرا رخ لیجیے وہ یہ کہ حضرت حسین ؓ جب روافض کی دعوت پر کوفہ پہنچے اور وہاں دیکھا کہ ان کے جھوٹے حامی ان سے الگ ہوگئے اور ان کے ساتھ اپنے ہی خاص لوگ مختصر سی تعداد میں رہ گئے تو انہوں نے اظہار کے لیے جان دینا اور اپنے اہل بیت کو قتل کروانا مناسب جانا، اگر تقیہ کوئی دین کا کام تھا تو ان کو بطور تقیہ یزید اور ابن زیاد کی بات مان لینا چاہیے تھا، معلوم ہوا کہ روافض کا تقیہ ان کے آئمہ سے بھی ثابت نہیں ہے یہ ایک تراشیدہ عقیدہ ہے اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں قرآن سے اس کا کوئی ثبوت نہیں اور جن کو شیعہ اپنا امام مانتے ہیں ان سے بھی ثابت نہیں اور جو روایات روافض نے تقیہ کے بارے میں اماموں کی طرف منسوب کی ہیں وہ سب جعلی ہیں، شیعہ مؤلفین نے تراشی ہیں، حضرت علی مرتضیٰ ؓ اور دیگر آئمہ نے (بقول روافض) تقیہ خوف کی وجہ سے کیا ہو یا بلا خوف، یہ خلیفہ برحق کی شان کے خلاف ہے۔ اندر کچھ ہو اور باہر کچھ یہ امام کی شان کے خلاف ہے۔ روافض کے نزدیک خلیفہ اول کا جو حال ہے وہی بعد کے اماموں کا بھی حال ہے ان کے نزدیک وہ سب تقیہ کرنے والے تھے (العیاذ باللہ) روافض کا جو تقیہ ہے اس کا قرآن کریم سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ (اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً ) میں یہ بتایا ہے کہ کوئی مسلمان کافروں میں پھنس جائے، مثلاً محبوس ہو یا محبوسوں کی طرح سے ہو (جیسے اندھے اپاہج، لنگڑے لولے اور بیمار) اور کافر کفر کلمہ کہلوانے پر کسی ایسی تکلیف دینے کی دھمکی دیں جو ناقابل برداشت ہو اور وہ جو دھمکی دے رہے ہیں اس پر وہ قادر بھی ہوں تو زبان سے کلمہ کفر کے کہنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ سورة نحل کی آیت (اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَءِنٌّ بالْاِیْمَانِ ) میں اجازت دی ہے۔ لیکن فضیلت اسی میں ہے کہ جان دیدے اور تکلیف اٹھا لے اور کفر کا کلمہ زبان پر نہ لائے اور روافض کو قرآن مجید سے استدلال کرنے کا حق کیا ہے وہ تو اسے محرف مانتے ہیں اور صحیفہ عثمانی مانتے ہیں، جو قرآن ہمارے پاس ہے جس کو ہم اللہ کی کتاب مانتے ہیں اور جس کے بارے میں محفوظ غیر محرف ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اس سے منکرین قرآن کو استدلال کرنے کا کیا حق ہے۔ ممکن ہے کوئی رافضی یوں کہے کہ ہم تمہیں الزام دینے کے لیے تمہارے قرآن سے استدلال کرتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ اپنی جہالت سے اپنے خود تراشیدہ عقیدہ کے لیے آیت کا مطلب جو تم نے تجویز کیا ہے ہم پر حجت نہیں، پھر تمہیں تو پھر بھی تقیہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے اس کی دلیل کے لیے کم از کم حضرت علی ؓ کا ایک ارشاد ہی ثابت کردیجیے جو صحیح سند سے ہو۔ روافض کا بنایا ہوا نہ ہو۔
Top