Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
مومنین ‘ اہل ایمان کو چھوڑ کر ‘ کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں ۔ جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بظاہر ایسا طرزعمل اختیار کرجاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اس کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔
اس سے پہلے ‘ اہل کتاب کے موقف پر استنکار اور تنبیہ کی گئی تھی ‘ یہ آخری تبصرہ بھی اس کی مزید تائید ہے ۔ پہلے اہل کتاب کے اس رویے کی مذمت کی گئی تھی ۔ کہ انہیں جب اس بات کی طرف بلایا جاتا ہے کہ آؤ اپنے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق کریں تو وہ اس بات سے بھی اعراض کرتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں سمجھایا گیا تھا کہ کتاب اللہ اسی نظام زندگی پر مشتمل ہے ۔ جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے اتارا اور یہ پوری کائنات بھی منہاج الٰہی کے مطابق رواں دواں ہے ۔ جس میں خود انسان بھی شامل ہے ۔ یہ اس بات کی تمہید تھی جو آگے آرہی ہے کہ مومنین کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ‘ اس لئے کہ کافروں کی اس کائنات میں کوئی قوت نہیں ہے۔ نہ ان کا یہاں اختیار چلتا ہے ‘ یہاں تو تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ ہی اہل ایمان کا ولی و مددگار ہے۔ سابقہ آیت میں قرآن کریم نے اہل ایمان کے اس شعور کو بیدار کیا تھا کہ تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں ‘ ہر قسم کی قوتوں کا مالک وہ ہے ۔ تمام تدابیر وہ اختیار کرتا ہے اور رزق صرف اس کے ہاتھ میں ‘ تو اب یہاں سمجھایا جاتا ہے کہ اہل ایمان پھر کس غرض کے لئے کافروں کے ساتھ دوستیاں قائم کرتے ہیں ۔ قلب مومن میں یہ دومتضاد امور کس طرح جمع ہوسکتے ہیں ۔ ایک طرف اللہ پر ایمان اور اللہ سے محبت دوسری جانب اللہ کے دشمنوں سے محبت جن کا حال یہ ہے کہ جب انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں تو وہ اس سے اعراض کرتے ہیں ۔ اس لئے یہاں یہ شدید دہمکی دی گئی ہے کہ اگر مومن ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جو کتاب اللہ اور شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تو ان کا ایمان خطرے میں ہے ۔ کفار کے دوستی مختلف شکلوں میں ممکن ہے ۔ دل سے محبت کرے ‘ ان کی مدد کرے یا ان سے مدد مانگے یہ سب موالات الکفار ہے ۔ لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ ” مومنین ‘ اہل ایمان کو چھوڑ کر ‘ کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں ۔ جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ “ بالکل یونہی ‘ وہ اللہ کے نزدیک کچھ نہیں ہے ۔ اس کا اللہ کے ساتھ نہ تعلق ہے اور نہ نسبت ہے۔ نہ وہ اللہ کے دین پر ہے اور نہ عقیدے پر ‘ نہ اس کا اللہ سے ربط ہے اور نہ دوستی ۔ یہ شخص اللہ سے دور ہے ۔ وہ ہر چیز سے غیر متعلق ہوگیا ہے ‘ جس کے ذریعہ کوئی بھی تعلق قائم ہوا کرتا ہے۔ ہاں یہاں بعض غیر معمولی حالات میں استثناء رکھی جاتی ہے ۔ بعض ممالک ایسے ہوسکتے ہیں جہاں بامر مجبوری ایسے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں ۔ لیکن ان حالات اور علاقوں میں بھی صرف زبانی تقیہ جائز ہے ۔ یہ جائز نہیں ہے کہ انسان دل سے اہل کفر کے ساتھ محبت کرے یا گہرے تعلقات قائم کرے ۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں تقیہ کا تعلق عمل سے نہیں ہوتا ‘ تقیہ صرف زبان سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس لئے جس تقیہ کا اجازت دی گئی اس میں یہ نہیں ہوتا کہ اہل ایمان اور کفار کے درمیان تعلقات قائم ہوں۔ اور اس سیاق میں کافر کا لفظ اس شخص کے لئے استعمال ہوا ہے جو شخص کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنے سے روگردانی کرتا ہے ۔ یعنی پوری زندگی میں ‘ یہاں تو یہ بات ضمناً کی گئی مگر دوسری جگہ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ ایسے لوگوں کے لئے الکافرون کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ نیز تقیہ میں یہ بات بھی شامل نہیں ہے کہ ایک مسلمان کسی بھی صورت میں اہل کفر کے ساتھ عملی تعاون کرے ۔ اللہ کے ساتھ اس قسم کا کوئی دھوکہ نہیں کیا جاسکتا۔ ولایت اور محبت چونکہ دلوں کا کام ہے ۔ انسانی ضمیر اور شعور کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے اور جذبہ اللہ خوفی اور تقویٰ اس جرم سے باز رکھ سکتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایک عجیب انداز میں اپنے غضب اور اپنے قہرانہ انتقام سے ڈرایا ہے ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ” اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے۔ “ اور اسی کی طرف تو تمہیں آنا ہے۔ اور یہ تخویف اور ڈراوا مزید آگے بڑھ کر دلوں کو چھوتا ہے ‘ ان کی توجہ اس طرف مبذول کرتا ہے دیکھو تم اللہ کی نظروں میں ہو۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
Top