Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! خدا نے جو تم پر احسان کیا ہے اس کو یاد کرو جب ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ روک دیئے اور خدا سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسا رکھنا چاہئے۔
(آیت 6 کی بقیہ تفسیر) 46۔ چھیالیسویں بات یہ کہ آیت میں ان لوگوں کے استدلال کے لئے بھی احتمال موجود ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قول باری (فلم تجدجا ماء فتیموا) میں پانی کے ہر جز کی عدم موجودگی کا ذکر ہے اس لئے کہ ماء کے لفظ کو نکرہ کی صورت میں لایا گیا ہے۔ اس بنا پر جب پانی کا ہر جز غیر موجود ہوگا تو پھر تیمم کا جواز ہوگا اگر اسے تھوڑا سا بھی پانی مل جائے تو صرف تیمم پر اقتصاء کرنا جائز نہیں ہوگا بلکہ اعضاء بھی دھوئے گا اور باقی ماندہ اعضاء کا تیمم بھی کرے گا۔ 47۔ سینتالیسویں بات یہ کہ پانی کی تلاش اور طلب کے سقوط پر بھی آیت دلالت کرتی ہے اور اس سے طلب کو واجب قرار دینے والوں کے قول کا بطلان ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وجود اور عدم دونوں طلب کے مقتضی نہیں ہوتے۔ اس لئے طلب کے موجب آیت میں ایسے مفہوم کا اضافہ کر رہے ہیں جو آیت کے مفہوم کا جز نہیں۔ 48۔ اڑتالیسویں بات یہ کہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو وضو میں مصروفیت کی بناء پر نماز کا وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو اس کے لئے تیمم جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لئے پانی موجود ہے اور اللہ تعالیٰ کا اسے حکم ہے کہ پانی موجود ہونے پر وضو کرے چناچہ ارشاد ہے (فاغسلوا) اس میں وقت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ 49۔ انچاسویں بات یہ کہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص محبوس ہو اور اسے پانی نہ ملے اور نہ ہی پاک مٹی تو وہ نماز نہیں پڑھے گا اس لئے کہ اللہ نے اسے آیت میں پانی اور پاک مٹی میں سے ایک چیز استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ 50۔ پچاسویں بات یہ کہ آیت میں محبوس کے لئے تیمم کے جواز کا احتمال ہے جب اسے پاک مٹی مل جائے۔ 51۔ اکاون ویں بات یہ کہ نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے تیمم کرلینا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کو کسی وقت کے اندر منحصر نہیں کیا بلکہ اپنے قول (فلوتجدوا ماء) کے ذریعے تیمم کے حکم کو پانی کی عدم موجودگی کے ساتھ معلق کردیا ہے۔ 52۔ باون ویں بات یہ کہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ایک تیمم کے ساتھ کئی فرض نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں جب تک حدث لاحق نہ ہوجائے یا پانی نہ مل جائے۔ چناچہ ارشاد ہے (اذا تم تم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) پھر اسی سیاق خطاب میں یہ فرمایا (فتیموا) اس میں تیمم کے ساتھ اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا جس طرح وضو کے ساتھ جب آیت ہر نماز کے لئے وضو کی تکرار کی مقتضی نہیں ہے تو وہ ہر نماز کے لئے تیمم کی تکرار کی بھی مقتضی نہیں ہے۔ 53۔ ترپن ویں بات یہ کہ جب تیمم کرنے والے کے لئے نماز کے دوران پانی کا وجود ہوجائے تو اس پر وضو لازم ہوگا اس لئے کہ ارشاد باری ہے (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا) مذکورہ بالا امر پر آیت کی دلالت کی ہم نے پچھلے صفحات میں وضاحت کردی۔ 54۔ چون ویں بات یہ کہ تیمم میں چہرے اور دونوں بازوئوں کا مسح کیا جائے گا اور مسح کے ساتھ ان اعضاء کا احاطہ کیا جائے گا۔ 55۔ پچپن ویں بات یہ کہ مسح کہنیوں تک کیا جائے گا اس لئے کہ قول باری (وایدیکم الی الموافق) دونوں کہنیوں کا مقتضی ہے اور ان سے اوپر کا حصہ دلیل کی بنا پر مسح اور غسل کے حکم سے خارج ہوا ہے۔ 56۔ چھپن ویں بات یہ کہ تیمم ہر اس چیز کے ساتھ جائز ہے جو زمین کی جنس میں سے ہو اس لئے کہ قول باری ہے (فتیموا صعیدا طیب) اور صعید زمین کو کہتے ہیں۔ 57۔ ستاون ویں بات یہ کہ ناپاک مٹی سے تیمم باطل ہوتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (طیبا) اور ناپاک چیز طیب نہیں ہوتی) 58۔ اٹھاون ویں بات یہ کہ تیمم میں نیت کرنا فرض ہے، اس کی دو وجوہ ہیں اول یہ کہ تیمم کے معنی قصد کے ہیں اور دوم یہ قول باری ہے (فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ) ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ اس قول باری کی اس امر پر دلالت ہو رہی ہے کہ تیمم کی ابتدا زمین سے ہوگی یہاں تک کہ کسی انقطاع کے بغیر چہرے تک پہنچ جائے گا اس لئے کہ تیمم کرنے والے کا کسی اور عمل میں لگ جانا نیت کو منقطع کر دے گا اور نئے سرے سے تیمم کرنے کا موجب ہوگا۔ 59۔ انسٹھویں بات یہ کہ آیت میں اس کا احتمال ہے کہ مٹی کا کچھ حصہ اس کے چہرے اور بازوئوں کو لگ جائے اس لئے کہ قول باری (منہ) میں حرف من تبعیض کے لئے ہے۔ 60۔ ساٹھویں بات یہ کہ جو لوگ برف اور خشک گھاس پر تیمم کے جواز کے قائل ہیں آیت ان کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ یہ دونوں چیزیں صعید یعنی مٹی کی جنس میں سے نہیں ہیں۔ 61۔ اکسٹھویں بات یہ کہ قول باری (اوجاء احد منکم من الغائط) سبیین یعنی فرج و تضیب اور مقعد سے نکلنے والی چیز پر طہارت کے ایجاب پر دلالت کرتا ہے۔ نیز یہ کہ اسحاضے کا خواہ سلسل البول اور ندی وغیرہ وضو کے موجب ہیں اس لئے کہ غائط پست زمین کو کہتے ہیں جہاں لوگ قضائے حاجت کے لئے جاتے ہیں۔ 62۔ باسٹھویں بات یہ کہ قول باری (فاغسلوا وجوھکم) ہر قسم کے مانع کے ساتھ وضو کے جواز پر دلالت کرتا ہے، سوائے ان مائعات کے جن کی کسی دلیل نے تخصیص کردی ہو، اس لئے نبیذ تمر کے ساتھ وضو کے جواز پر اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے حسن بن صالح نے سر کے اور اس جیسی چیز کے ساتھ وضو کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ اس قول باری سے اس پانی کے ساتھ تیمم کے جواز پر بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جسکے ساتھ کوئی پاک چیز مل گئی ہو لیکن وہ پانی پر غالب نہ آ گئی ہو مثلاً عرق گلاب، دودھ، سرکہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں۔ 63۔ تریسٹھویں بات یہ کہ قول باری (فلم تجدوا ماء فتیموا) نبیذ کے ساتھ وضو کے جواز پر دلالت کرتا ہے کیونکہ نبیذ بھی پانی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس وقت تیمم کرنے کی اجازت دی ہے جب پانی کا کوئی جز موجود نہ ہو اس لئے لفظ ماء کو اسم نکرہ کی صورت میں بیان کیا ہے۔ اس قول سے وہ لوگ بھی استدلال کرسکتے ہیں جو اس پانی کے ساتھ وضو کے جواز کے قائل ہیں جس کی نسبت کسی اور چیز کی طرف کردی گئی ہو مثلاً شوربہ، … کا سرکہ وغیرہ کیونکہ ان چیزوں میں بہرحال پانی ہوتا ہے۔ 64۔ چونسٹھویں بات یہ کہ جو لوگ مستحاضہ کو ایک وضو کے ساتھ دو فرض نمازیں پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے آیت ان کے حق میں اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگلی فرض نماز کے لئے اسے دوبارہ وضو کرنا ہوگا اس لئے کہ قول باری ہے (اذا تم تم الی الصلوٰۃ) اور اس کی تفسیر میں یہ معنی مروی ہیں ” اذا تم تم وانتم محدثون “ (جب تم حدث کی حالت میں نماز کے لئے اٹھو ( مسحاضہ حدث کی حالت میں ہوتی ہے اس لئے کہ وضو کے بعد اسے استحاضے کے خون کی صورت میں حدث لاحق ہوجاتا ہے۔ 65۔ پینسھٹویں بات یہ کہ آیت ایک تیمم کے ساتھ دو فرض نمازوں کی ادائیگی کے جواز کے امتناع پر دلالت کرتی ہے جس طرح مستحاضہ کے متعلق اس کی دلالت ہے اس لئے کہ تیمم حدث کو رفع نہیں کرتا اس لئے جب تیمم کرنے والا نماز کے ارادے سے اٹھے گا تو وہ حدث کی حالت میں ہوگا۔ 66۔ چھیاسٹھویں بات یہ کہ پانی کی عدم موجودگی میں اول وقت میں تیمم کے جواز پر آیت دلالت کرتی ہے اس لئے کہ قول باری ہے (اقم الصلوٰۃ لذنوک الشمس۔ سورج ڈھلنے یا چھپنے پر نماز قائم کرو) نیز ارشاد ہوا (اذا تم تم الی الصلوٰۃ) تا قول باری (فلم تجدوا ماء فتیمموا) اللہ تعالیٰ نے سورج کے ڈھلنے یا چھپنے پر نماز پڑھنے کا حکم دیا اور پانی کی موجودگی میں وضو اور عدم موجودگی میں تیمم کو نماز پر مقدم کرنے کا امر فرمایا۔ یہ بات اول وقت اور وقت سے قبل تیمم کے جواز کی مقتضیٰ ہے جس طرح یہ وقت سے پہلے اور اول وقت میں وضو کے جواز کی مقتضیٰ ہے۔ 67۔ سٹرسٹھویں بات یہ کہ آیت حضر کی حالت میں محبوس کے لئے تیمم کے جواز اور اس کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے جواز دونوں کے امتناع پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ قول باری ہے (وان کنتم مرضی او علی سفراوجاء احد منکم من الغائط) تا قول باری (فتیمموا صعیدا) اللہ تعالیٰ نے تیمم کی اباحت میں دو باتوں کی شرط عائد کردی ایک بیماری اور دوسری مسافرت جبکہ پانی میسر نہ ہو۔ اس لئے اگر انسان مسافر نہیں ہوگا بلکہ مقیم ہوگا مگر حبس اور قید کی وجہ سے اسے پانی دستیاب نہ ہو رہا ہو تو تیمم کے ساتھ اس کی نماز جائز نہیں ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسا شخص پانی کا واجد اور حاصل کرنے والا نہیں کہلا سکتا اگرچہ وہ مقیم ہی کیوں نہ ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مذکورہ شخص کی کیفیت بالکل یہی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے جواز تیمم کے لئے دو باتوں کی شرط عائد کی ہے۔ ایک سفر جس کے اندر اکثر احوال میں پانی دستیاب نہیں ہوتا اور دوسری پانی کی عدم موجودگی مسافر کے لئے تیمم کی اباحث اور اس کے ساتھ نماز کی ادائیگی کا جواز صرف پانی کی موجودگی متعذر ہونے کی بنا پر کیا گیا ہے اس لئے کہ سفر کی حالت اس کے اس عذر کی موجب ہوتی ہے۔ حضر کی حالت اس کی موجب نہیں ہوتی اس لئے کہ اکثر احوال میں حضر کے اندر پانی موجود ہوتا ہے اب محبوس کو…… اگر پانی میسر نہیں تو اس میں کسی آدمی کے فعل یعنی اس کے رکاوٹ بننے کو دخل ہوتا ہے۔ اس میں عادت کو کوئی دخل نہیں ہوتا جبکہ عادت یعنی اکثر احوال میں حضر کے اندر پانی کی عدم موجودگی نہیں ہوتی۔ 68۔ اڑسٹھویں بات یہ کہ قول باری (ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج) ہر اس چیز کی نفی پر دلالت کرتا ہے جو حرج اور تنگی کی موجب بنتی ہو۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف استدلال کیا جاسکتا ہے جو اختلافی مسئلوں میں تنگی پیدا کرنے کے مسلک کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ آیت تیمم کے جواز پر دلالت کتری ہے جب تیمم کرنے والے کے پاس صرف اس قدر پانی ہو جو اس کے پینے کے کام آسکتا ہو اور اس کے ساتھ وضو کرلینے کی صورت میں اسے پیاس کا سامنا کرنے کا اندیشہ ہو جس کی بنا پر اس نے اسے پینے میں استعمال کرنے کے لئے رکھ لیا ہو۔ اس لئے کہ اس کے اس طرز عمل سے حرج اور تنگی کی نفی ہوتی ہے اس لئے اس صورت میں تیمم کرنا جائز ہے۔ اسی طرح آیت ترتیب کے ایجاب، پے در پے وضو کے افعال کی ادائیگی نیز نیت اور اسی طرح کے دوسرے امور کے ایجاب کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔ 69۔ انتہرویں بات یہ کہ قول باری (ولکن یرید لیطھرکم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ اصل مقصد تو طہارت کا حصول ہے خواہ جس طریقے سے بھی حاصل ہوجائے یعنی ترتیب ہو یا نہ ہو، افعال وضو پے در پے ادا کئے گئے ہوں یا نہ کئے گئے ہوں، نیت کا وجوب ہوا ہو یا نہ ہوا ہو وغیرہ وغیرہ۔ 70۔ سترویں بات یہ کہ قول باری (فاطھروا) اس پر دلالت کرتا ہے طہارت کے حصول کے لئے اپنی کا اندازہ مقرر کرنے کی بات ساقط الاعتبار ہے اس لئے اصل مقصد تو تطہیر یعنی طہارت حاصل کرنا ہے نیز آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک صاع پانی سے جو غسل فرمایا تھا اس کا اعتبار ضروری نہیں ہے۔ 71۔ اکہترویں بات یہ کہ قول باری (فامسحوا بروسکم) میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ اس سے پانی کے ساتھ مسح کرنا مراد ہے اس لئے مسح فی نفسہ پانی کا مقتضی نہیں ہوتا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا دیا (فلم تجدواماء) تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہاں پانی کے ساتھ مسح کرنا مراد ہے۔ الغرض اس ایک آیت کی مختلف معانی اور احکام پر دلالتوں کی یہ صورتیں ہیں۔ ان میں سے کچھ تو منصوص ہیں اور کچھ احتمالات کے درجے میں ہیں۔ ان سب کا تعلق طہارت کے مسئلے کے ساتھ ہے جسے نماز پر مقدم کیا جاتا ہے اور جو نماز کی ایسی شرط ہے جس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔ ہم یہاں اس امر کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آیت زیر بحث میں بہت سے ایسے دلائل اور احتمالات باقی رہ گئے ہیں جو ہمارے علم کی رسائی سے باہر ہیں۔ جب کبھی کوئی صاحب توفیق اور باہمت عالم ان کی تلاش و جستجو کے درپے ہوگا اور گہری نظر سے ان کا مطالعہ کرے گا۔ یہ دلائل اور احتمالات اس کے ادراک میں جلوہ گر ہوجائیں گے۔ واللہ الموفق۔ ۔۔۔ آیت 6 کی تفسیر ختم ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ تفسیر آیت 7: گواہی اور انصاف قائم کرنا قول باری ہے (یایھا الذین امنوا کونوا قوامین لللہ شھداء بالقسط اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو) اس کے معنی ہیں ان تمام معاملات میں جن پر قائم رہنا تم پر لازم ہے یعنی امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور منکرات سے اجتناب وغیرہ تم اللہ کی خاطر حق اور راستی پر قائم رہنے والے بن جائو، اسی کا نام اللہ کی خاطر حق پر قائم رہنا ہے۔ قول باری (شھداء للہ بالقسط) میں قسط کے معنی عدل کے ہیں۔ شہادت کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لوگوں کے حقوق کے سلسلے میں دی جانے والی گواہیاں ہیں۔ حسن سے یہ مروی ہے یہ قول باری اس آیت کی طرح ہے (کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ ولو علی انفسکم انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری ذات پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو) ۔ ایک قول ہے کہ اس سے وہ گواہی مراد ہے جو لوگوں کے خلاف ان کے معاصی پر دی جاتی ہے جس طرح یہ قول باری ہے (لتکونوا شھداء علی الناس تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جائو) اس میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم ان اہل عدالت میں سے بن جائو جن کے متعلق اللہ کا حکم ہے کہ وہ قیامت کے دن لوگوں پر گواہ بنیں گے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ گواہی ہے جو اللہ کے اوامر کے بارے میں دی جاتی ہے کہ یہ برحق ہیں۔ درج بالا تمام معانی کا یہاں مراد ہونا درست ہے اس لئے کہ لفظ کے اندر ان سب کا احتمال موجود ہے۔ قول باری ہے (ولا یجرمنکم شغان قوم علی ان لا تعدلوا کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو) ایک روایت ہے کہ آیت کا نزول یہودیوں کے بارے میں ہوا تھا جب آپ ایک دیت کے سلسلے میں ان لوگوں کے پاس تشریف لے گئے اور پھر ان لوگوں نے آپ کی جان لینے کی ٹھان لی تھی۔ حسن کا قول ہے کہ آیت کا نزول قریش کے بارے میں ہوا تھا جب ان لوگوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام سے روک دیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر اسی سورت میں اپنے اس قول کے اندر کیا ہے (ولا یجرمنکم شنان قوم ان صدو کم عن المسجد الحرام ان تعتدوا۔ ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگ جائو) حسن نے اسے پہلی آیت کے معنوں پر محمول کردیا۔ بہتر بات یہی ہے کہ آیت کا نزول قریش کے سوا دوسروں کے بارے میں مان لیا جائے تاکہ تکرار لازم نہ آئے۔ آیت زیر بحث کے ضمن میں حق پرست اور باطل پرست دونوں کے ساتھ عدل کرنے کا حکم موجود ہے اور یہ ہدایت ہے کافروں کا کفر اور ان کا ظلم و ستم ان کے ساتھ عدل کرنے کی راہ میں حائل نہ ہوجائے۔ نیز یہ کہ ان کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں تہ تیغ کرنے میں اس حد سے تجاوز نہ کیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں اور اس کا دائرہ صرف ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے، انہیں گرفتار کرنے اور غلام بنانے تک محدود رکھا جائے، ان کا مثلہ نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں اذیتیں دی جائیں۔ نہ ہی انہیں صدموں سے دوچار کرنے اور دکھی بنانے کے ارادے سے ان کی اولاد اور عورتوں کو قتل کیا جائے۔ حضور ﷺ نے جب حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کو اہل خیبر کے پھلوں کی پیداوار کا اندازہ لگانے کے لئے ان کی طرف بھیجا تھا اور انہوں نے زیورات وغیرہ جمع کر کے حضرت عبد اللہ ؓ کو اس نیت سے دینے کا ارادہ کیا تھا کہ وہ پیداوار کا تخمینہ لگانے میں کچھ تخفیف کردیں تو آپ نے ان لوگوں سے یہی کہا تھا۔ ” یہ حرام ہے “ تم اپنے اس سازو سامان کی وجہ سے میرے لئے بندروں اور سوروں سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہو، لیکن تمہاری یہ حرکت میرے لئے تمہارے ساتھ انصاف سے پیش آنے کی راہ میں حائل نہیں ہوگی، یہ سن کر ان یہودیوں نے کہا تھا : ” زمین و آسمان کا قیام اسی انصاف کی بدولت ہے “۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ھو اقرب للتقوی۔ انصاف تقویٰ سے زیادہ قریب ہے) جبکہ یہ معلوم ہے کہ انصاف خود تقویٰ ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک چیز کو خود اس کی ذات سے قریب قرار دیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کے معنی ہیں، انصاف اس بات سے زیادہ قریب ہے کہ تم تمام سیئات سے اجتناب کر کے متقی بن جائو۔ اس طرح مذکورہ عدل تمام امور میں انصاف کرنے اور تمام معاصی سے اجتناب کرنے کا داعی بن جائے گا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ عدل جہنم کی آگ سے بچنے کا اقرب ذریعہ ہے۔ قول باری (ھو اقرب للتقوی) میں ضمیر ھو اس مصدر کی طرف راجع ہے جس پر فعل (اعدلوا) دلالت کرتا ہے، گویا یوں فرمایا ” عدل تقویٰ سے زیادہ قریب ہے “ جس طرح کوئی شخص یہ کہے۔ ” من کذب کان شترا لہ “ (جو شخص جھوٹ بولے گا تو یہ اس کے لئے برا ہوگا) یعنی جھوٹ بولنا اس کے لئے برا ہوگا۔
Top