Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! اللہ نے جو تم پر احسان کیا ہے ‘ اسے یاد کرو۔ جب ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کرے تو اس ( اللہ) نے ان کے ہاتھ روک دئیے ‘ اور اللہ (ہی) سے ڈرتے رہو۔ اور مومنوں کو (صرف) اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ ھَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھُمْ فَکَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ ج وَاتَّقُوا اللہ َ ط وَ عَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ (المائدہ : 11) ” اے ایمان والو ! اللہ نے جو تم پر احسان کیا ہے ‘ اسے یاد کرو۔ جب ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کرے تو اس ( اللہ) نے ان کے ہاتھ روک دئیے ‘ اور اللہ (ہی) سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو (صرف) اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے “۔ توکل علی اللہ رکھنے والوں سے اللہ کا وعدہ دیکھئے ! یہاں اللہ نے بار بار جس نعمت کا ذکر کیا ہے ‘ وہ ہے تکمیلِ دین کی نعمت۔ اسی تکمیل دین کے حوالے سے امت محمدیہ ﷺ پر بہت سارے انعامات کی بشارت۔ اس حوالے سے ایک وعدہ بھی کیا گیا۔ اب اس وعدے کی مثال دی جا رہی ہے۔ وعدہ یہ کیا تھا کہ لوگو ! ہم نے تم پر دین کو مکمل کردیا ہے اور تمہیں اتنی طاقت دے دی ہے کہ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلاَ تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ (المائدۃ : 3) (آج دنیا اس بات سے مایوس ہوگئی ہے کہ وہ زبردستی تمہیں اپنے دین اور طریقے پر لاسکتے ہیں) اب تمہارا دین ایک بالادست دین ہے۔ اب تمہارا ایک ایک بول دنیا میں غالب آئے گا۔ تم علم اور سیاست کے زور سے ایک بالادست قوت بن چکے ہو۔ البتہ ! صرف ایک احتیاط کرنا کہ ان باطل قوتوں میں سے کسی سے نہ ڈرنا ‘ جب بھی ڈرنا مجھ سے ڈرنا۔ اگر تم مجھ سے ڈرو گے ‘ یہ تمہارے خلاف (بھلے ہزار سازشیں کریں) ناکام رہیں گی۔ اب دیکھیں ! یہ باتیں کتنی واضح ہیں کہ اگر تم مجھ سے ڈرو گے تو یہ لوگ تمہارے خلاف کچھ بھی کرنا چاہیں ‘ کچھ نہیں کرسکیں گے۔ سازشیں ہوں گی ‘ لیکن میں تمہیں بچائوں گا۔ اب اس کی مثال دی جا رہی ہے۔ فرمایا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! یاد کرو جب ایک قوم نے ارادہ کیا کہ وہ پھیلا دے تم تک اپنے ہاتھ۔ مطلب یہ کہ اس قوم کے کچھ لوگوں نے تم پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا ‘ مگر تمہیں اس کی کچھ خبر نہیں تھی۔ اللہ نے کہا تھا کہ ” مجھ سے ڈرنا “ اب اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ تمہیں بچاتا۔ لہٰذا اس نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا۔ تمہارا وعدہ کیا ہے ؟ کہ تم میرے ہو کر جیو گے اور میرا وعدہ کیا ہے ؟ کسی کو تم پر غالب نہیں آنے دوں گا۔ اس آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام ( رض) نے کئی واقعات بیان کیے ہیں کہ ایک جنگ میں صحابہ کرام ( رض) میدان میں پھیل گئے۔ آپ ﷺ نے بھی ایک درخت پر تلوار لٹکا دی اور چادر ڈال کر نیچے آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔ کہیں سے دوسرے قبیلے کا کوئی فرد حضور ﷺ کو ڈھونڈتا ہوا نکل آیا۔ اس نے تلوار اتاری اور نیام سے نکال کر کہنے لگا : من یمنعک یا محمد ؟ (اے محمد ﷺ ! تجھے اب کون بچائے گا ؟ ) اب اندازہ کریں کہ تلوار اس کے ہاتھ میں ہے اور اس بدو کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ حضور ﷺ بڑے آرام سے فرماتے ہیں : میرا اللہ مجھے بچائے گا۔ اس کے ہاتھ میں تھرتھری آئی۔ اس نے تلوار نیام میں ڈال دی اور پاس بیٹھ کر معافیاں مانگنے لگا۔ اسی طرح ایک مرتبہ بنو نضیر نے حضور اکرم ﷺ کو ایک معاہدے کے لیے بلایا۔ جس دیوار کے نیچے بٹھایا ‘ اس پر لوگوں کو چڑھا دیا کہ اوپر سے پتھر گرا کر حضور اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مار ڈالیں۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے اطلاع دی جس پر حضور اکرم ﷺ اٹھ کر چلے آئے۔ جس سیاق وسباق میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں ‘ اس زمانے کی بات ہے جب حضور اکرم ﷺ عمرہ کرنے کی نیت سے گئے تھے۔ اس وقت بھی راستے میں خالد بن ولید نے دو سو آدمیوں کو لے کر اچانک نماز کی حالت میں حضور ﷺ پر حملہ کیا۔ نجانے کیا ہوا ؟ وہ آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کچھ نہیں بگاڑ سکے بلکہ سارے کے سارے گرفتار ہوگئے۔ یہ مختلف واقعات اس طرف اشارے ہیں کہ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہیں بچائوں گا ‘ یہ میری ذمہ داری ہے ‘ لیکن تمہیں میرے ہو کر رہنا ہے۔ بس آئندہ بھی اللہ سے ہی ڈرتے رہنا اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے اس وعدے کی بس دو ہی شرائط ہیں ‘ ایک اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا اور دوسرا اللہ پر توکل کرنا۔ یاد رکھیں توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تیاری نہ کرنا۔ بلکہ ؎ توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر توکل یہ نہیں کہ آپ پچاس سال سوئے رہیں اور جب حالات بگڑنے لگیں تو کبھی اس سے مدد مانگیں ‘ کبھی اس سے مدد مانگیں۔ یاد رکھیں ! جو حکمران بھی کسی اسلامی حکومت کو چلاتا ہو اور وہ علمی اور عملی لحاظ سے ملک کی حفاظت کے لیے جو کچھ کرسکتا تھا ‘ اس کا سامان نہیں کرتا ‘ یقین جانئے ! وہ تارک صلوٰۃ سے بڑا مجرم ہے کیونکہ نماز نہ پڑھنا کسی ایک آدمی کا جرم ہے اور ملک کو دفاعی نقطہ ٔ نظر سے کمزور رکھنا ‘ یہ اس کے مقابلے میں بہت بڑا جرم ہے کیونکہ اس کا بھی حکم قرآن میں اللہ نے دیا ہے۔ فرمایا : وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ (الانفال : 60) ( یہ امر ہے کہ تیاری کرو ‘ اتنی تیاری کہ تمہارا دشمن تم سے کانپنے اور ڈرنے لگے) فرمایا کہ تیاری کے بعد توکل کرو ‘ یعنی اسباب کی فراہمی میں کمی نہ رہے لیکن بھروسہ اسباب پر نہیں بلکہ مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ پر ہو اور زندگی کے تمام اعمال اور تمام شعبے اسی کے تقویٰ کے آئینہ دار ہوں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ پروردگار کی طرف سے تائید و نصرت کا نزول نہ ہو۔ ٹھیک کہا ظفر علی خاں نے ؎ یثرب سے اب بھی گونجتی ہے یہ صدا سنو ! وہ جو خدا کے ہوگئے، ان کا خدا ہوا
Top