Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو، اللہ کی نعمت کو (جو) تم پر ہے یاد کرو جب ایک قوم نے ٹھان لی تھی کہ تم پر اپنے ہاتھ دراز کریں،52 ۔ لیکن اللہ نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیئے،53 ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو،54 ۔ اور ایمان والوں کو چاہیے کہ بھروسہ اللہ ہی پر رکھیں،55 ۔
52 ۔ (اور اس تنبیہ کے ساتھ کہ تمہارا خاتمہ ہی کردیں۔ اور ظاہر میں قرائن بھی ان کے اسی ارادہ کی تائید میں تھے) (آیت) ” یبسطوا الیکم ایدیھم “۔ بسط ید کے ایک معنی عربی محاورہ میں حملہ کرنے، پکڑنے، مارنے کے ہیں، اور وہی یہاں مراد ہیں۔ یستعمل تارۃ للصولۃ والضرب (راغب) یقال بسط الیہ یدہ اذا بطش بہ (کبیر) اردو میں بھی ” درازدستی “ ایسے ہی موقعوں کے لیے ہے۔ (آیت) ” اذ ھم قوم “۔ یہ کون لوگ تھے ؟ مخالفین ومعاندین سے مراد ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ سوال یہ رہ جاتا ہے کہ یہاں متعین طور پر کن کی جانب اشارہ ؟ اشارہ اگر اسلام کی ابتدائی تاریخ کی طرف سمجھا جائے، تو اس وقت تو سب سے بڑے دشمن مشرکین قریش تھے۔ اور ارباب تفسیر کا ایک گروہ اسی جانب گیا ہے۔ وھم المشرکون (کبیر) روی ابو صالح عن ابن عباس انھا نزلت من اجل کفار قریش (بحر) اور اگر مراد بابعد کے زمانہ سے لی جائے، تو اس وقت سب سے پر قوت مخالفین یہود عرب تھے، اور ایک گروہ سے یہی تفسیر منقول ہے موقع نزول کی روایتیں متعدد ہیں، لیکن ان تعارض وتناقض کچھ بھی نہیں، اور قوم کے لفظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی جماعت ہی مراد ہو۔ کوئی مخصوص لیڈریاسرغنہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ لایخفی ان سبب النزول یجوز تعددہ وان القوم قد یطلق علی الواحد (روح) 53 ۔ (بلکہ آخر میں تمام قرآئن ظاہری کے خلاف تمہی کو کامیاب اور غالب کردیا) کف ید۔ بسط ید کی ضد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ دشمنوں نے تم پر حملہ کرکے تمہارا قلع قمع کردینا چاہا تھا، لیکن اللہ نے ان کے حملوں کا ناکام رکھا، اور ان کے منصوبے خاک میں ملادیئے، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس میں رد ہے ان افراد پسند جاہلوں کا جو اللہ کی دینوی نعمتوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ 54 ۔ (جیسا کہ اب تک ڈرتے رہے ہو) غلبہ و کامیابی کی مسرت کو یاد دلا کر معا بعد معا تقوی الہی کے استحضار سے صاف اشارہ اس امر کی طرف پایا جاتا ہے کہ غلبہ و کامیابی میں بڑا دخل تقوی الہی کو ہے، قناعت، بےطمعی، بےنفسی، ہمدردی، صداقت شعاری، ایثار، حفظ حدود غرض سیرت وکردار کی ساری انفرادی واجتماعی خوبیاں اس ایک جامع لفظ ” تقوی “۔ کے اندر آگئیں۔ 55 ۔ (نہ کہ اپنے دست وبازو، اپنی ہمت وتدبیر پر) کامیابی و کامرانی کے بعدبڑا خطرہ یہی رہتا ہے کہ گھمنڈ اپنی قوت بازو اور اپنی عقل وفرزانگی پر ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید انسان کو پست ہمتی اور تعطل کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا، اسے سرگرم عمل برابر رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کا بھی روادار نہیں کہ انسان خود پرستی کی لعنت میں مبتلا ہوجائے۔ وہ تعلیم باربار اسی کی دیتا ہے۔ کہ نظراسباب سے بڑھ کر مسبب الاسباب پر رکھنا چاہیے۔ اسی نے پہلے بھی بگڑے کام بنائے تھے، اور اسی کی ذات کا سہارا آخرت تک قائم ہے۔
Top