Taiseer-ul-Quran - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! اللہ کا وہ احسان بھی یاد کرو جو اس نے تم پر کیا جب (مخالف) قوم نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تھا تو اللہ نے ان کے ہاتھوں کو تم پر اٹھنے سے روک دیا۔32 اور اللہ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے
32 پہلا احسان تو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ انہیں اسلام کی توفیق بخشی اور اسلام کی بدولت ان کی قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ ہوا، لڑائیاں ختم ہوئیں اور آپس میں تم بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے لگے دوسرا بڑا احسان یہ تھا کہ حدیبیہ کے مقام پر کافر یہ چاہتے تھے کہ تم پر حملہ آور ہو کر تمہیں صفحہ ہستی سے ناپید کردیں۔ لیکن اللہ نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ وہ اپنا ارادہ پورا نہ کرسکے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ 1۔ حدیبیہ کے دن جنگ روکنا اللہ کا احسان تھا۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ اہل مکہ کے اسی (80) آدمی مسلح ہو کر تنعیم پہاڑ کی جانب سے رسول اللہ ﷺ پر حملہ آور ہوئے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ آپ اور آپ کے اصحاب غافل ہوں تو حملہ کردیں۔ آپ نے انہیں پکڑ کر قید کرلیا پھر انہیں چھوڑ دیا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب ھوالذی کف ایدیکم عنھم) 2۔ سیدنا سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ میرے چچا عامر نے قبیلہ عبلات کے ایک مکرز نامی شخص کو، جو ایک جھول پڑے ہوئے گھوڑے پر سوار اور ستر مشرکوں کا ساتھی تھا گھیر کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ آپ نے ان مشرکوں کی طرف دیکھا پھر فرمایا انہیں چھوڑ دو (عہد نامہ حدیبیہ کی بدعہدی کے) گناہ کی ابتدا بھی انہوں نے کی اور تکرار بھی انہی سے ہوئی۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب غزوہ ذی قرد) اگرچہ مندرجہ بالا احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ یا اسی کے گرد و پیش حالات کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ تاہم دور نبوی میں کئی بار ایسے مواقع پیش آتے رہے کہ کبھی کفار مکہ نے جنگ کے ذریعہ اور کبھی یہودیوں نے سازشوں کے ذریعہ اسلام کو ختم کردینے کی کوششیں کیں۔ پھر کبھی تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مسلمانوں کو دشمنوں کی سازشوں سے مطلع فرما دیا۔ اور کبھی حالات ایسے پیدا کردیئے کہ کافروں کو حملہ آور ہونے کی جرأت ہی نہ ہوسکی۔
Top