Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
اَوْفُوْا
: پورا کرو
بِالْعُقُوْدِ
: عہد۔ قول
اُحِلَّتْ لَكُمْ
: حلال کیے گئے تمہارے لیے
بَهِيْمَةُ
: چوپائے
الْاَنْعَامِ
: مویشی
اِلَّا
: سوائے
مَا
: جو
يُتْلٰى عَلَيْكُمْ
: پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں
غَيْرَ
: مگر
مُحِلِّي الصَّيْدِ
: حلال جانے ہوئے شکار
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
حُرُمٌ
: احرام میں ہو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يَحْكُمُ
: حکم کرتا ہے
مَا يُرِيْدُ
: جو چاہے
اے ایمان والو ! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لئے چار پائے جانور ( جو چرنے والے ہیں) حلال کردیے گئے بجز انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
پابندی عہد و معاہدہ ارشاد باری ہے یایھا الذین امنوا اوفوابالعقود۔ اے ایمان لانے والو بندشوں کی پوری پابندی کرو) حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد، مظرف، ربیع، ضحاک، سدی، ابن جریج اور ثوری کا قول ہے کہ اس مقام پر عقود سے عہود مراد ہے۔ معمہ نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد زمانہ جاہلیت میں کئے گئے معاہدے وغیرہ ہیں۔ حضرت جبیر بن مطعم ؓ نے حضور ﷺ سے آپ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے۔ لاحلف فی الاسلام داما حلف الجاھلیۃ فلم یزدہ الاسلام الاشدۃ۔ اسلام میں کوئی حلف ن ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں کئے گئے حلف کو اسلام نے اور مضبوط کردیا ہے) ۔ ابن عیینہ نے عاصم الاحوال سے نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت انس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضور ﷺ نے ہمارے گھر کے احاطے میں بیٹھ کر مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کا معاہدہ کرایا تھا، ابن عیینہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرات انصار و مہاجرین کے درمیان صرف بھائی چارے کا رشتہ قائم کردیا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصییھم ، وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو ) مفسرین کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ لوگ اسلام کے ابتدائی زمانے میں نسب کی بجائے حلف اور معاہدے کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث قرار پاتے تھے۔ درج بالا آیت کا یہی مفہوم ہے یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کو حلیف کے مقابلے میں اولیٰ قرار دیا اور فرمایا واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمھاجرین۔ اور کتاب اللہ میں رشتہ دار ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے) ۔ اس طرح ایک دوسرے کی مدد اور وراثت پر مبنی حلف یعنی دوستی کا معاہدہ زمانہ اسلام میں بھی باقی اور ثابت رہا۔ رہ گیا آپ کا یہ ارشاد کہ لاحلف فی الاسلام) تو اس میں یہ گنجائش ہے کہ آپ کے نزدیک شاید وہ معاہدہ مراد ہو جو زمانہ جاہلیت میں ہونے والے معاہدوں کی طرز کا ہو کیونکہ اس زمانے میں یہ معاہدے بہت سی ایسی باتوں پر مشتمل ہوتے تھے جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ نیز یہ کہ آپ نے شاید حلف کی بنا پر توارث کا حکم منسوخ ہوجانے کے بعدیہ فرمایا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں ہونے والے معاہدوں کی کئی صورتیں تھیں۔ ایک صورت یہ تھی کہ معاہدے کی بنیاد ایک دوسرے کی مدد ہو مثلا معاہدہ کرتے وقت ایک شخص دوسرے سے کہتا ” میرا خون تیرا خون ہے، مجھے گرانا تجھے گرانا ہے، تو میرا وارث ہوگا اور میں تیرا وارث ہوں گا “۔ اس طرح دو شخص اس بنیاد پر معاہدہ کرلیتے کہ ہر ایک دوسرے کی مدد کریگا۔ اس کا دفاع کرے گا اور حق و باطل ہر امر میں اس کی حمایت کرے گا۔ ایسی شرطیں اسلام میں جائز نہیں ہیں کیونکہ امر باطل میں بھی ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کا سرے سے جواز ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس امر کا اپنی جائیداد رشتہ داروں سے سمیٹ کر اور انہیں اس سے محروم رکھ کر وارثت کے طور پر حلیف کی جھولی میں ڈال دے۔ زمانہ جاہلیت میں ہونے والے معاہدوں کی ایک یہ صورت تھی جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ کبھی یہ لوگ ایک دوسرے کی حمایت اور ایک دوسرے کے دفاع کی بنیاد پر بھی معاہدے کرتے تھے۔ یہ لوگ اس قسم کے معاہدے کرنے پر مجبور تھے کیونکہ ان لوگوں کی زندگیوں میں اجتماعیت کا رنگ نہیں تھا نہ کوئی ہیئت حاکمہ تھی جو مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلاتی اور طاقتور کو کمزور کی ایذارسانی سے باز رکھتی، اس لئے ضرورت کے تحت وہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور ا مداد کے معاہدے کرلیتے اور اس طرح ایک دوسرے کے شر سے محفوظ رہتے اور ایک دوسرے کی پناہ میں زندگی بسر کرتے۔ زمانہ جاہلیت کے معاہدوں میں یہی مقاصد کارفرما ہوتے۔ اسی بنا پر لوگوں کو جوار یعنی پڑوس کی ضرورت بھی پیش آتی تھی۔ اس کی صورت یہ ہوتی کہ کوئی شخص یا گروہ یا کوئی قافلہ کسی قبیلے کے پڑوس میں آجاتا اور ان کی اجازت اور امان سے وہاں ڈیرے ڈال دیتا۔ اس صورت میں پھر اسے اس قبیلے کی طرف سے کسی قسم کی تکلیف یا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ختم ہوجاتا۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس بات کا امکان ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے ارشاد لاحلف فی الاسلام سے اسی قسم کے معاہدے مراد لئے ہوں۔ اسلام کے ابتدائی زمانے میں بھی اس قسم کے معاہدوں کی ضرورت پیش آجاتی تھی کیونکہ مسلمانوں کے دشمنوں یعنی مشرکین مکہ یہود مدینہ اور منافقین کی تعداد بہت زیادہ تھی پھر جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت اور غلبہ عطا کردیا۔ اہل اسلام کی کثرت ہوگئی انہیں دشمنوں پر غلبہ نصیب ہوا اور وہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے قابل ہوگئے تو حضور ﷺ نے انہیں خبر دی کہ اب اس کے باہمی معاہدوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ کیونکہ تمام مسلمان اب یکجا ہوگئے تھے اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی حیثیت اب ایک فرد واحد کی بن گئی تھی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کی حمایت واجب کردی تھی۔ چناچہ ارشاد باری ہے والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر۔ مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے حمایتی اور سرپرست ہیں وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں) ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے المومنون یدعلی من سواھم ۔ تمام اہل ایمان دوسروں کے مقابلے میں ایک ہاتھ یعنی ایک فرد واحد کی طرح ہیں) نیز آپ کا ارشاد ہے ثلاث لایغل علیھن قلب مومن اخلاص العمل للہ والنصیحۃ لولاۃ الامرونوم جماعۃ المسلمین فان دعوتھم تحیط من ورائھم ۔ تین باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق مومن کے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص عمل، حکمرانوں کے لئے خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت سے وابستگی، مسلمانوں کی دعائیں ان کے پیچھے سے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہوتی ہیں) ۔ اس طرح حلف کی بنا پر ایک دوسرے کی مدد کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اس کے ساتھ جوار کا مسئلہ بھی اختتام کو پہنچ گیا۔ اسی بنا پر حضور ﷺ نے حضرت عدی بن حاتم سے فرمایا تھا لعلک ان تعیش حتی تری المراۃ تخرج من القادسیۃ الی الیمن بغیرجواد۔ شاید تمہاری عمر اتنی دراز ہوجائے کہ تم ایک عورت کو تنہا قادسیہ سے یمن تک جوار کے بغیرسفر کرتے ہوئے دیکھ سکو) اسی بنا پر آپ نے فرمایا تھا لاحلف فی ا لاسلام رہ گیا آپ کا یہ ارشاد (وماکان من حلف فی الجاھلیۃ فلم یزدہ الاسلام الاشدۃ) تو اس سے آپ کی مراد عہد کا پورا کرنا ہے۔ اس بات کو عقل انسانی بھی جائز قرار دیتی ہے اور اس کے نزدیک یہ ایک مستحسن امر ہے مثلاً وہ معاہدہ جو زبیر بن عبدالمطلب نے کیا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” ایک معاہدہ جو ابن جدعان کے گھر کے احاطے میں طے پایا تھا اور جس میں میں بھی موجود تھا مجھے یہ پسند نہیں کہ اس معاہدے سے غداری کے صلے میں مجھے سرخ اونٹ مل جائیں بنو ہاشم بنو زہرہ اور بنو تیم نے آپس میں یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ مظلوم کا اس وقت تک ساتھ دیتے رہیں گے جب تک گرمی کی وجہ سے اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوتا رہے گا۔ یعنی جب تک اس کی داد رسی نہیں ہوجائے گی اگر مجھے زمانہ اسلام میں اس قسم کے معاہدے کی دعوت دی جاتی تو میں اسے قبول کرلیتا “۔ یہ معاہدہ حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا ایک قول یہ ہے کہ حضور ﷺ نے جس معاہدے کا ذکر فرمایا ہے وہ مظلوم کی حمایت اور زندگی کے گزاران کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ایک دوسرے کی خبر گیری کے متعلق تھا۔ حضور ﷺ نے یہ بتایا کہ آپ نبوت سے قبل اس معاہدے کے وقت موجود تھے اور اگر آپ کو زمانہ اسلام میں اس جیسے معاہدے کی دعوت دی جاتی تو آپ ضرور اسے قبول کرلیتے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس کا حکم دیا ہے اور عقل انسانی کے نزدیک بھی یہ ایک مستحسن فعل ہے بلکہ شریعت کے درود سے قبل عقل انسانی کے نزدیک ایسا اقدام واجب تھا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اس ارشاد لاحلف فی الاسلام سے آپ کی مرادیہ ہے کہ اسلام میں ایسا معاہدہ نہیں ہوسکتا جسے شریعت مباح سمجھتی نہ ہو اور نہ ہی عقل انسانی اس کی اجازت دیتی ہو۔ حضور ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ” میں مطیبین کے معاہددے میں موجود تھا اس وقت میں نو عمر تھا اور مجھے یہ پسند نہیں کہ اگر میں اس معاہدے کو توڑ دوں تو مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ مل جائیں۔ حلف المطیبین اس معاہدے کا نام ہے جو قریش کے درمیان ہوا تھا اور اس میں یہ طے پایا تھا کہ جو لوگ حرم کے اندر قتال کر کے اس کی بےحرمتی کے مرتکب ہوں گے ان کے خلاف مشترکہ طور پر اقدام کیا جائے گا۔ اس لئے آپ کے ارشاد وماکان فی الجاھلیتۃ فلم یزدہ الاسلام الاشدۃ) سے مراد حلف المطیبین اور حلف الفضول جیسے معاہدے ہیں۔ نیز اس سے ہر ایسا معاہدہ اور باہمی عقد مراد ہے جسے پورا کرنا لازم ہوتا ہے۔ اس سے وہ وعدہ مراد نہیں ہے جس کی بنیاد معصیت پر ہو اور شریعت میں جس کے جواز کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ لغت میں عقد کے معنی باندھنے اور بندھن کے ہیں جب آپ رسی باندھ دیں اور اس میں گرہ ڈال دیں تو آپ کہیں گے ” عقدت الجل “ (میں نے رسی باندھ دی) مستقبل کی قسم کو بھی عقد کا نام دیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے لایواخذکم اللہ باللغوا فی ایمانکم ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان، تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا مگر جو قسمتیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر وہ تم سے ضرور مواخذہ کرے گا) معاہدے اور حلف کو بھی عقد کہاجاتا ہے۔ ارشاد باری ہے والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم، جن لوگوں سے تمہارے عہد و پیمان ہیں انہیں ان کا حصہ دو ) ابوعبیدہ نے قول باری اوفوابالعقود۔ کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد معاہدے اور قسمیں ہیں۔ حضرت جابر ؓ سے اوفوابالعقود۔ کے سلسلے میں مروی ہے کہ یہ نکاح بیع حلف اور عہد کے عقود ہیں۔ زید بن اسلم نے اس میں اپنی طرف سے عقد شراکت اور عقد یمین کا بھی اضافہ کیا ہے۔ وکیع نے موسیٰ بن عبیدہ سے اور انہوں نے اپنے بھائی عبداللہ بن عبیدہ سے روایت کی ہے کہ عقو کی چھ قسمیں ہیں۔ عقود کی چھ اقسام عقدیمین یعنی مستقبل کی قسم عقد نکاح عقد عہد عقد بیع عقد شراء اور عقد حلف یعنی معاہدہ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عقد اس اقدام کو کہتے ہیں جس کے تحت عقد کرنے والا کسی ایسے کام کی گرہ ڈال دیتا ہے جسے وہ خود سرانجام دینا چاہتا ہے یا کسی اور کے ذمے اس طرح لگا دیتا ہے کہ اس پر اس کام کو انجام دینا لازم ہوجاتا ہے کیونکہ لغت میں عقد کے معنی باندھنے کے ہیں۔ پھر اس معنی کو قسم اور بیع و شراء کیعقود وغیرہ کی طرف منتقل کردیا گیا۔ اس لئے اس لفظ سے اس بات کو پورا کرنے کا لزوم اور اس کا ایجاب مراد ہوتا ہے جس کا عاقد نے ذکر کیا ہے یہ مفہوم عقد کی ان صورتوں کو شامل ہوتا ہے جن کے وقوع پذیر ہونے کا آنے والا وقت یعنی مستقبل میں انتظار کیا جاتا ہے اور انہیں نگاہ میں رکھا جاتا ہے۔ اس لئے بیع نکاح اجارہ اور معاوضوں پر مبنی تمام عقود کو عقود کا نام دیا جاتا ہے اس لئے کہ اس قسم کا عقد کرنے والے طرفین میں سے ہر ایک اسے پورا کرنے اور سرانجام دینے کا ذمہ اٹھاتا ہے ۔ مستقبل کی قسم کو اس لئے عقد کہاجاتا ہے کہ قسم کھانے والا جس کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھاتا ہے اسے پورا کرنے کی ذمہ داری بھی لیتا ہے۔ شراکت اور مضاربت کو عقد کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ ہم نے جس طرح ذکر کیا ہے اس میں بھی اس شرط کو پورا کرنے کا اقتضاء ہوتا ہے جو آپس میں منافع تقسیم کرنے اور اپنے شریک کے لئے کام کرنے کے سلسلے میں فریقین میں سے ہر ایک کی طرف سے دوسرے کے لئے مقرر کی جاتی ہے اور ہر ایک اسے پورا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے ۔ عہد اور امان کی بھی یہی صورت ہے اس لئے کہ عہد کرنے والا اور امان دینے والا اسے پورا کرنا اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ شرط جسے کوئی انسان مستقبل میں کوئی کام کرنے کے سلسلے میں اپنے اوپر کرلیتا ہے عقد کے نام سے موسوم ہوتی ہے۔ یہی کیفیت نذر کی صورتوں کی بھی ہے اسی طرح کوئی شخص اپنے اوپر کسی عبادت کی ادائیگی لازم کرلے یا اسی قسم کی کوئی اور صورت ہو تو یہ بھی عقد کہلائے گی لیکن اگر عقد کی کوئی ایسی صورت ہو جس کا مستقبل کے مفہوم سے کوئی تعلق نہ ہو یعنی اس کے وقوع کا انتظار نہ ہو بلکہ اس کا تعلق کسی ایسے امر سے ہو جو گزر چکا ہو اور وقوع پذیر ہوچکا ہو تو اسے عقد نہیں کہیں گے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اسے عقد کا نام نہیں دیا جائے گا لیکن اگر وہ اس سے یہ کہے کہ ” جب تو گھر میں داخل ہوگی تو تجھے طلاق ہوجائے گی “۔ تو اس کا یہ قول عقد یمین ہوگا۔ اگر کوئی یہ کہے ” بخدا، میں گھر میں داخل ہوا تھا “۔ تو اس صورت میں یہ عاقد نہیں کہلائے گا لیکن اگر وہ یہ کہتا ” میں کل صبح گھر میں ضرور داخل ہوں گا “۔ تو اس صورت میں عاقد بن جاتا ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ماضی میں کسی چیز کا ایجاب درست نہیں ہوتا مستقبل میں درست ہوجاتا ہے اگر وہ یہ کہتا ” مجھ پر گھر میں گزشتہ کل داخل ہونا لازم ہے “۔ تو یہ ایک لغو اور بےمعنی کلام ہوتا اور اس کا وقوع پذیر ہونا محال ہوتا لیکن اگر وہ یہ کہتا ” مجھ پر آنے والے کل میں گھر میں داخل ہونا لازم ہے “ تو یہ ایجاب ہوتا اور اس پر عملدرآمد ہوجاتا۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ عقد کسی کام کی اس صورت کا نام ہے جس کے ساتھ مستقبل میں کوئی حکم لازم ہوتا ہو۔ مستقبل کی قسم کو اس لئے عقد کا نام دیا جاتاے کہ قسم کھانے والا اپنے اوپر قسم پر عمل پیرا ہونے کی بات لازم کرلیتا ہے یہ مفہوم ماضی کی صورت میں معدوم ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے ” بخدا میں زید سے ضرور کلام کروں گا “۔ تو یہ کہہ کر وہ زید سے کلام کو اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے اسی طرح اگر وہ یہ کہتا ہے ” بخدا، میں زید سے کلام نہیں کروں گا “۔ تو اپنے اس قول کے ذریعے وہ کلام کرنے کی نفی کو اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے اور قسم کے اندر جس کا م کی نفی یا اثبات کا ذکر کرتا ہے اپنے اوپر اسے موکد کردیتا ہے۔ اس تاکید کی بنا پر جو لفظ کے اندر موجود ہوتی ہے اس کے اس قول کو عقد کا نام دیا جاتا ہے اسے اس رسی کی گرہ کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے جو اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ اس گرہ کے ذریعے بندھن کو مضبوط کردیتا ہے۔ اسی بنا پر نذر کو عقد اور قسم کا نام دیا گیا ہے کیونکہ نذر ماننے والا اس نذرکو اپنے اوپر لازم کردیتا ہے اور ایک کام کے کرنے یا نہ کرنے کی بات کی اپنے اوپر موکد کرلیتا ہے۔ لیکن جب خبر یعنی کہے ہوئے جملے کے مفہوم کو ماضی کی طرف موڑ دیا جائے گا تو اس صورت میں نہ یہ عقد کہلائے گا نہ اس میں ایجاب پایا جائے گا اور نہ ہی اس میں نذر کا مفہوم موجود ہوگا۔ یہ بات ہمارے بیان کردہ اس مفہوم کو واضح کردیتی ہے کہ عقد وہی ہوتا ہے جو تاکید کی صورت میں ہو اور اپنے اوپر لازم کرلینے کے طور پر ہو۔ عقد کا تعلق مستقبل کے معنی اور مفہوم سے ہوتا ہے ماضی سے نہیں ہوتا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عقد یعنی باندھنے کی ضد حل یعنی کھولنا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جو بات وقوع پذیر ہوچکی ہے اسے اسے کی متعلقہ کیفیت سے کھول کر علیحدہ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسا کرنا ازقبیل محال ہے۔ اس لئے جب حل کھولنا ماضی میں وقوع پذیر چیز کی ضد نہیں ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ عقد نہیں ہے کیونکہ اگر یہ عقد ہوتا تو اس کی ضد حل کا بھی وجود ہوتا جس کے ساتھ اسے موصوف کیا جاسکتا جس طرح مستقبل سے تعلق رکھنے والے عقد کی صورت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شوہر کا یہ قول ” اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے “ اور جب کل ہوگا تو تجھے طلاق ہے “۔ عقد ہے لیکن اسے انتقاض اور فسخ لاحق نہیں ہوتا یہ عقد تو ہے لیکن اس کے نقیض یعنی حل کا وجود نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس عقد کے حل کا وجود اس طرح ممکن ہے کہ شرط کے وجود سے پہلے ہی اس عورت کی موت واقع ہوجائے اس عقد کو اس کی ضد حل کے ساتھ موصوف کیا جاسکتا ہے۔ اسی بنا پر امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے ” اس کوزے میں موجود پانی اگر میں نہ پیوں تو میرا غلام آزاد ہے تو کوزے میں پانی موجود نہ ہونے کی صورت میں اس کی قسم کا انعقاد نہیں ہوگا۔ یہ عقد بھی نہیں ہوگا کیونکہ اس کے نقیض یعنی حل کا وجود نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں آسمان میں نہ چڑھوں تو میرا غلام آزاد ہے تو قسم کے انعقاد کے ساتھ ہی وہ حانث ہوجائے گا کیونکہ اس عقد کا نقیض یعنی حل موجود ہے اگرچہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ اپنی قسم کبھی پوری نہیں کرسکے گا کیونکہ اس نے اپنی قسم کی گرہ ایسی بات پر باندھی ہے جو اگرچہ معقول ہے لیکن وہم حد تک ہے۔ اس لئے کہ آسمان پر چڑھنا معقول اور متوہم ہے اور اس کا ترک بھی معقول اور ممکن ہے لیکن ایسے پانی کا پینا جو سرے سے موجود ہی نہ ہو اس کا تو ہم بھی محال ہے اس لئے یہ عقد نہیں ہے۔ قول باری یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود۔ ان عہود کو پورا کرنے اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لزوم پر مشتمل ہے جو ہم حربیوں، ذمیوں اور خوارج وغیر ہ کے ساتھ کرتے ہیں۔ اسی طرح اس میں نذر اور قسم کو پورا کرنے کا لزوم بھی موجود ہے۔ یہ اس قول باری کی نظیر ہے اللہ کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو) نیز وافوابعھدی اوف بعھدکم، میرے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو میں تمہارے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کروں گا) اللہ کے ساتھ کیا گیا عہد اس کے اوامرونواہی ہیں۔ قول باری اوفوابالعقود کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اللہ کے ان عقود کو پورا کرو جو اس نے حرام و حلال کے سلسلے میں کئے ہیں حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد عقود دین ہیں۔ یہ قول باری بیع و شراء کے عقود نیز اجارہ اور نکاح کے عقود اور اس دائرے میں آنے والے تمام چیزوں کے عقود کو پورا کرنے کا مقتضی ہے۔ اس لئے جب کبھی کسی عقد کے جواز یا عدم جواز کسی نذر کی صحت اور اس کے لزوم کے بارے میں اختلاف رائے ہوجائے تو اس صورت میں اس قول باری سے استدلال درست ہوگا کیونکہ اس کا عموم ان تمام کے جواز کا مقتضی ہے اس ضمن میں کفالت اجارہ اور بیع و شراء کی تمام صورتیں آتی ہیں۔ اس قول باری سے کفالہ بالنفس اور کفالہ بالمال کے جواز کے سلسلے میں استدلال بھی جائز ہے نیز کفالت کی ان صورتوں کو مستقبل کی شرطوں کے ساتھ مشروط کرنے کے جواز پر بھی اس قول باری سے استدلال درست ہے کیونکہ آیت میں ان میں سے کسی صورت کے اندر فرق نہیں کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد المسلمون عند شروطھم۔ مسلمان اپنی شرطوں کی پاسداری کرتے ہیں) اس قول باری اوفوابالعقود۔ کے ہم معنی ہیں اس میں ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں عموم ہے جو کوئی انسان اپنے اوپر عائد کرلے جب تک ان میں سے کسی شرط کی تخصیص کے لئے کوئی دلالت قائم نہ ہوجائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب کوئی شخص اپنے اوپر کسی غیر کے لئے کوئی قسم یا نذر یاشرط لازم کرلے تو کیا اس کے لئے اسے پورا کرنا واجب ہوگا اور اس کا یہ عقد اس کی اپنی ذات پر متصور ہوگا اور اس بنا پر اس نے جو شرط رکھی ہے اور جو چیز واجب کی ہے وہ اس پر لازم ہوجائے گی ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نذر کی تین صورتیں ہیں۔ نذر قربت یعنی ایسی نذر جس کا تعلق نیکی کے کسی عمل سے جو تقرب الٰہی کا ذریعہ بنتا ہو۔ نذر مانتے ہی یہ عمل اس پر واجب ہوجائے گا اگرچہ اصل کے اعتبار سے یہ عمل غیر واجب ہی کیوں نہ ہو کیونکہ قول باری ہے۔ (اوفوا بالعقود) نیز فرمایا (اوفوابعھد اللہ اذا عاھدتم) ۔ نیز ارشاد ہے (یوفون بالنذر) وہ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں) نیز فرمایا یایھا الذین امنوا بم تقرلون مالا تفعلون کبرمقتاً عنداللہ ان تقولوامالا تقلعون۔ اے ایمان لانے والو ! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں اللہ کو یہ بہت ناپسند ہے کہ ایسی بات کہو جو نہ کرو) ۔ یہ بھی ارشاد ہے ومنھم من عاھد اللہ لین اتانا من فضلہ لنصدفن ولنکونن من الصلحین قلما اتاھم من فضلہ بخلوا بہ وتولوا وھم معزضون۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ یہ یہ عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں وہ اپنے فضل میں سے عطا کرے گا تو اس میں سے ہم خوب تصدق کریں گے اور خوب نیک کام کریں گے۔ پھر جب اللہ نے ان کو اپنے فضل میں سے دے دیا تو اس میں بخل کرنے اور روگردانی کرنے لگے اور وہ منہ پھیرے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نذر کو بعینہ پورا نہ کرنے پر ان کی مذمت کی۔ دوسری طرف حضور ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو اپنی نذر پوری کرنے کا حکم دیا تھا جس کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت عمر ؓ نے زمانہ جاہلیت میں ایک دن کے اعتکاف کی نذر مانی تھی نیز آپ کا یہ ارشاد بھی ہے من نذرنذراً سماہ فعلیہ ان یفی بہ ومن نذر نذراً ولم یسمہ فعلیہ کفارۃ یمن، جس شخص نے کوئی نذر مانی اور اسے متعین کردیا اس پر اسے پورا کرنا لازم ہے اور جس شخص نے تعین کے بغیر مطلقاً نذر مانی اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا) یہ اس نذر کا حکم ہے جو تقرب الٰہی کا ذریعہ بننے والے کسی نیک عمل سے تعلق رکھتی ہو ایسی نذر کی صورت میں اسے بعینہ پورا کرنا لازم ہوگا۔ اس کی ایک اور قسم بھی ہے اس کا تعلق ایسے مباح کام سے ہے جس میں تقرب الٰہی کا پہلو موجود نہ ہو اگر کوئی شخص یہ نذر مانے گا تو اس پر اسے پورا کرنا لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ واجب ہوگی۔ اگر اس نذر میں وہ قسم کی نیت کریگا تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا جبکہ وہ اسے پورا نہ کرے۔ مثلا کوئی کہے اللہ کے لئے مجھ پر زید کے ساتھ گفتگو کرنا یا اس گھر میں داخل ہونا یا بازار تک چل کر جانا لازم ہے “۔ یہ امور مباح کا درجہ رکھتے ہیں اور نذر کی بنا پر لازم نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ ہر ایسا عمل جو اصل کے اعتبار سے قربت یعنی تقرب الٰہی کا ذریعہ بننے والی نیکی نہ ہو وہ ایجاب کی بنا پر قربت نہیں بنتا جس طرح وہ عمل جو اصل کے اعتبار سے واجب نہیں ہوتا نذر کی بنا پر واجب نہیں بنتا اگر اس نذر سے متعلقہ شخص کا ارادہ قسم کا ہو تو یہ نذر قسم بن جائے گی اور حانث ہونے کی صورت میں اس پر کفارہ واجب ہوگا۔ اس کی تیسری نذر معصیت کہلاتی ہے مثلا کوئی یہ کہے ” اللہ کے لئے مجھ پر فلاں شخص کا قتل یا شراب خوری یا فلاں شخص کا مال غصب کرنا لازم ہے “۔ یہ امور الہ کی معصیت میں داخل ہیں اس لئے نذر کی بنا پر ان کے لئے قدم بڑھانا جائز نہیں ہوگا یہ امور اس کی نذر کے باوجود ممنوع رہیں گے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایسے مباح امور جو تقرب الٰہی کا ذریعہ نہیں بنتے ہیں نذر کی بنا پر واجب نہیں ہوتے جس طرح ممنوع فعل نذر کی بنا پر مباح نہیں بن جاتا اور نہ ہی واجب ہوجاتا ہے اگر اس نے نذر میں قسم کا ارادہ کرلیا ہو اور پھر حانث ہوگیا ہو تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے لانذر فی معصیۃ اللہ وکفارتہ کفارۃ یمین، اللہ کی معصیت کی کوئی نذر نہیں اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہے) ۔ نذر کی تین اقسام ہیں نذر کی یہ تین قسمیں ہیں۔ قسموں کا انعقاد بھی تین صورتوں یعنی قربت، مباح اور معصیت میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص تقرب الٰہی کا ذریعہ بننے والے کسی نیک کام کی قسم کھا بیٹھے تو اس قسم کی بنا پر وہ کام واجب نہیں ہوتا ہے البتہ اسے اس قسم کو پورا کرنے کے لئے کہا جائے گا لیکن اگر اس نے قسم پوری کرنے کی بجائے توڑ دی تو اس پر کفارہ لازم ہوگا۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت ابن عمر ؓ سے فرمایا ” مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم نے سارا زمانہ روزے رکھنے کی قسم کھائی ہے “۔ حضرت ابن عمر ؓ نے اثبات میں جواب دیا جس پر آپ ﷺ نے یہ فرمایا ” ایسا نہ کرو بلکہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو “۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ دنوں کے روزوں کی طاقت ہے “۔ حضور ﷺ نے انہیں پھر سمجھایا بالاخر اس پر رضامند کرلیا کہ ایک دن روزہ رکھیں اور ایک دن چھوڑیں۔ اس روایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ان کی قسم کی بنا پر ان پر صوم الدھر، (ہمیشہ روزہ رکھنا) لازم نہیں ہوا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قسم کی بنا پر وہ کام لازم نہیں ہوتا جس کی قسم کھائی گئی ہو۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر ایک شخص یہ کہے کہ ” بخدا میں کل ضرور روزہ رکھوں گا “۔ اور پھر وہ روزہ نہ رکھے تو اس پر اس کی قضا لازم نہیں ہوگی۔ پختہ قسم کا کفارہ لازم ہوجائے گا۔ قسم کی دسویر قسم یہ ہے کہ کسی مباح کام کی قسم کھا بیٹھے جس طرح پہلی صورت میں قسم کی وجہ سے اس پر اس کام کا کرنا لازم نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح دوسری صورت میں اس پر اس کا لزوم نہیں ہوگا۔ وہ اگر چاہے تو وہ کام کرے گا اگر چاہے تو چھوڑ دے گا۔ البتہ حانث ہونے کی صورت میں اس پر کفارہ لازم ہوگا۔ تیسری قسم کی معصیت کے ارتکاب کی قسم کھانا ہے قسم کی بنا پر نہ صرف یہ کہ اس کے لئے یہ کام کرنا جائز نہیں ہوگا بلکہ قسم توڑ کر کفارہ ادا کرنا واجب ہوگا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے من حلف علی یمین فدای غیرھا خیرا منھا فلیات الذی ھو خیرولیکفر عن یمینہ۔ جو شخص کسی کام کی قسم کھا بیٹھے اور پھر دوسرا کام اسے بہتر نظر آئے تو اسے چاہیے کہ وہ دوسرا کام کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے) ۔ نیز آپ نے فرمایا ” جب میں کسی کام کے کرنے کی قسم کھا لیتا ہوں اور پھر دوسرا کام مجھے اس سے بہتر نظر آتا ہے تو میں وہ دوسرا کام کرلیتا ہوں اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔ ارشاد باری ہے ولایاتل اولوا الفضل منکم والسعۃ ان یوتوا اولی القربی والیتامی و المساکین والمھاجرین فی سبیل الہ والیعفوا والیصفحوا الاتعبون ان یغفر اللہ لکم۔ اور جو لوگ تم میں سے بزرگی اور وسعت والے ہیں وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں چاہیے کہ معاف کرتے رہیں اور درگزر سے کام لیتے رہیں کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف کرتا رہے) مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے رشتہ دار مسطح بن اثاثہ کی مالی امداد بند کردینے کی قسم کھالی تھی کیونکہ افک کے واقعہ میں مسطح کی کی طرف سے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق کچھ برے کلمات کہے گئے تھے اور اس معاملے میں انہوں نے کچھ سرگرمی بھی دکھائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر ؓ کو اس قسم سے لوٹ جانے اور مسطح کی دوبارہ مالی امداد کرنے کا حکم دیا۔ کون سے جانور حلال ہیں قول باری ہے لحلت لکم بھیمۃ الانعام۔ تمہارے لئے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے ہیں) انعام کے بارے میں ایک روایت ہے کہ اس سے اونٹ، گائے بیل اور بھیڑ بکریاں مراد ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ انعام کے لفظ کا اطلاق اونٹوں پر ہوتا ہے خواہ صرف اونٹ ہی کیوں نہ ہوں، گائے، بیل اور بھیڑ بکریوں پر اس لفظ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب یہ اونٹوں کے ساتھ ہوں لیکن اگر صرف گائے بیل اور بھیڑ بکریاں ہوں تو ان پر اس لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ حسن سے پہلا قول منقول ہے ایک قول یہ ہے کہ انعام کے لفظ کا ان تین اصناف پر اطلاق ہوتا ہے اور ہرنیوں نیز نیل گایوں پر بھی ہوتا ہے اس میں کھر مارنے والے جانور داخل نہیں ہوتے کیونکہ انعام کا لفظ نعومۃ الوط یعنی قدموں کی نرمی سے ماخوذ ہے۔ ترتیب تلاوت میں انعام سے صید یعنی شکار کو مستثنی کرنا اس قول پر دلالت کرتا ہے ارشاد باری ہے غیر محلی الصبید وانتم حرم، لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کریں) قول باری والانعام خلقھا لکم فیھادف وضافع للناس ومنھاتاکلون۔ اور موشی بھی اسی نے بنائے۔ ان میں تمہارے لئے گرم لباس بھی ہے اور دوسرے فائدے بھی ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو) بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ کھر مارنے والے جانور انعام میں داخل نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت میں انعام کا ذکر کر کے ان پر اس قول باری والخیل والبغال والحمیرلترکبوھا وزیۃ۔ اور اس نے پیدا کئے گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور زینت کے لئے بھی) کو عطف کیا اور ان جانوروں کا نئے سرے سے ذکر کیا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ جانور انعام یعنی مویشیوں میں داخل نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ گائے کے پیٹ میں موجود جنین بھی مویشیوں میں داخل ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی یہ بات درست ہے کیونکہ گائے انعام میں داخل ہے اللہ تعالیٰ نے بھیمۃ الانعام فرمایا اگرچہ تمام مویشی چوپائے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قول بمنزلہ اس قول کے ہے ” احل لکم البھیمۃ التیھی الانعام “ (تمہارے لئے چوبائے حلال کردیئے گئے جو مویشی ہیں) بہیمہ کو انعام کی طرف مضاف کردیا گیا اگرچہ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہیں ” نفس الانسان “ (نفس انسان) ۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ اباحت عقود کو پورا کرنے کی شرط کے ساتھ جس کا آیت میں ذکر ہے مشروط کردی گئی ہے حالانکہ بات ایسی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عقود کو پوراکرنا اباحت کی شرط نہیں قرار دی اور نہ ہی اس کا ذکر مجازات یعنی بدلے کے طور پر کیا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے لفظ ایمان کے ساتھ ہم سے خطاب فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے یایھا الذین امنوا اوفوابالعقود۔ یہ خطاب اباحت کو صرف اہل ایمان تک محدود کرنے کا موجب نہیں ہے بلکہ یہ اباحت جملہ مکلفین کو عام ہے خواہ وہ کافر ہوں یا اہل ایمان جس طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے یایھا الذین امنوا اذاً انکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسئوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا۔ اے ایمان لانے والو ! تم جب مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو تو تمہارے لئے ان کے بارے میں کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرنے لگو) یہ حکم اہل ایمان اور اہل کفر سب کے لئے عام ہے اگرچہ لفظ کا ورود اہل ایمان سے خطاب کے ساتھ خاص ہے۔ اسی طرح ہر وہ چیز جسے اللہ نے مسلمانوں کے لئے مباح کردیا ہے وہ تمام مکلفین کے لئے مباح ہے جس طرح ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے لازم اور فرض کردی ہے اس کی فرضیت جملہ مکلفین کے لئے ہوتی ہے الایہ کہ ان میں سے بعض کی تخصیص کی کوئی دلیل موجودہو۔ اس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ اہل کفر ترک شریعت پر اسی طرح سزا کے مستحق ہیں جس طرح ترک ایمان پر۔ اگر کوئی کہے کہ چوپایوں کی ذبح اس وقت تک ممنوع رہی جب تک اس کے متعلق سمعی دلیل وارد نہیں ہوگئی اب جو شخص حضور ﷺ کی نبوت کا اعتقاد نہ رکھتا ہو اور شریعت کے ذریعے ذبح کی اباحت کا قائل نہ ہو۔ اس پر اصل کے اعتبار سے ذبح کی ممانعت کا حکم باقی رہے گا اس قول کے قائل کا کہنا ہے کہ کافروں پر خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا کوئی اور چوپایوں کی ذبح کی ممانعت ہے اگر وہ چوپائے کو ذبح کریں گے تو عاصی قرار پائیں گے اگرچہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لئے مباح ہے اس قائل کا یہ بھی دعوی ہے کہ ملحد کو جانور ذبح کرنے کے بعدکھانے کی اجازت ہے لیکن اسے جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ کہا جائے گا کہ تمام اہل علم کے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ اہل کتاب اگر اپنے مذاہب کی بنا پر ذبح کا فعل سرانجام دینے پر عاصی قرار پاتے تو پھر ان کے ذبیحہ کا درست اور حلال نہ ہونا واجب ہوتا جس طرح مجوسی کا ذبیحہ حلال نہیں ہوتا۔ اسے اس کے اعتقاد کی بناپر جانور ذبح کرنے سے روک دیا گیا ہے اس لئے اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال نہیں ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی شخص جانور ذبح کر کے عصیان کا مرتکب نہیں ہوتا، جانور کی ذبح اس کے لئے بھی اسی طرح مباح ہے جس طرح ہمارے لئے اس قائل کا یہ کہنا ہے کہ ” جو شخص حضور ﷺ کی نبوت کا اعتقاد نہ رکھتا ہو اور شریعت کے ذریعے ذبح کی اباحت کا قائل نہ ہو اس پر اصل کے اعتبار سے ذبح کی ممانعت کا حکم باقی رہے گا۔ درست نہیں ہے کیونکہ یہود اور نصاریٰ پر چوپایوں کے ذبح کی اباحت کے سلسلے میں انبیاء سابقین کی کتابوں کے ذریعے سمعی حجت اور دلیل قائم ہوچکی تھی۔ نیز قائل کی درج بالا بات اس کی ذبح کی صحت کو مانع نہیں ہے اس لئے کہ اگر کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھے تو ہمارے نزدیک وہ گہنگار ہوگا اور جو لوگ ذبیحہ پر بسم اللہ نہ پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں ان کے لئے ایسے ذبیحہ کا کھانا درست ہوگا۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذبح کرنے والے کا گہنگار ہونا اس کے ذبح کے عمل کی صحت کے لئے مانع نہیں ہے۔ قول باری ہے الامایتلی علیکم۔ سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے) حضرت ابن عباس ؓ حسن مجاہد قتادہ اور سدی سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد وہ قول ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ تم پر مردار خون اور وہ تمام چیزیں حرام ہیں جن کی حرمت کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ’ سوائے اس صورت کے جو تمہیں بتائی جا رہی ہے وہ یہ کہ تم احرام کی حالت میں شکار کا گوشت نہ کھائو “۔ اس تفسیر کی رو سے اللہ تعالیٰ نے گویا یوں فرمایا “۔ سوائے اس صورت کے جو تمہیں اسی سلسلہ خطاب میں بتائی جا رہی ہے “۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری الامایتلی علیکم میں اس مفہوم کا احتمال ہے کہ ” سوائے ان کے جن کی تحریم آچکی ہے “ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے اگر یہ مفہوم مراد لیا جائے تو اس صورت میں یہ لفظ مجمل نہیں ہوگا اس لئے کہ جس بات کی تحریم اس سے پہلے آچکی ہے وہ مجمل نہیں بلکہ معلوم ہوگی۔ اس بنا پر قول باری احلتککم بھیمۃ لانعام۔ میں مویشی قسم کے تمام چوپایوں کی اباحت کے لئے عموم ہوگا ماسوائے ان کے جن کی ان آیات نے تخصیص کردی جن کے اندر ان میں سے حرام جانوروں کی تحریم کا ذکر ہے اور اس اباحت کو ممانعت کی آیات پر مرتب قرار دیا جائے گا۔ جو یہ ہیں حرمت علیکم المیتۃ والدم تا آخر آیت۔ قول باری الامایتلی علیکم میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو۔ سوائے ان کے جن کی حرمت بیان کی جائے گی۔ اس صورت میں آیت کا اشارہ اس بات کی طرف ہوگا کہ آئندہ کسی وقت ان میں سے بعض جانور ہم پر حرام کردیئے جائیں گے۔ تاہم یہ بات بھی آیت سے اس کے عموم کو سلب نہیں کرے گی۔ اس قول باری میں ایک اور معنی مراد کا احتمال بھی ہے وہ یہ کہ مویشی قسم کے بعض چوپائے تم پر اس وقت حرام کردیئے گئے ہیں اس حرمت کی تفصیل بعد میں آئے گی۔ یہ بات قول باری احلت لکم بھیمۃ الانعام۔ کے اجمال کی موجب ہے۔ اس لئے کہ اس حکم سے بعض جانور مستثنیٰ کردیئے گئے ہیں اس بنا پر ہمارے نزدیک یہ قول باری مجہول المعنی ہوگا اور اس کے الفاظ اجمالاً ا اباحت اور ممانعت دونوں پر مشتمل ہوں گے اور اس کا حکم بیان اور تفصیل پر موقوف ہوگا۔ جب لفظ میں اجمال اور عموم دونوں کا احتمال ہو جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے تو ایسی صورت میں ہمارے لئے اسے عموم کے معنوں پر محمول کرنا اولیٰ اور مناسب ترین بات ہوگی کیونکہ اس صورت میں اس کے حکم پر عمل کرنا ممکن ہوگا اور اس عموم سے وہ چیزیں اور جانور مستثنیٰ ہوں گے جن کی تحریم کا قرآن میں ذکر آیا ہے یعنی مردار خون اور خنزیر وغیرہ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول بااری الامایتلی علیکم مستقبل میں تلاوت یعنی بیان کا مقتضی ہے نہ کہ ماضی میں۔ اس لئے جن چیزوں کی تحریم اس سے پہلے آچکی ہوگی اس کا بیان اور اس کی تلاوت گویا ہوچکی اس بنا پر آیت میں تلاوت کو اس بیان پر محمول کرنا واجب ہوگا جو بعد میں آنے والی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سے وہ تلاوت اور بیان مراد لینا جائز ہے جو ہوچکا ہو اور بعد میں آنے والا بیان مراد لینا بھی جائز ہے اس لئے قرآن کی تلاوت صرف گزرے ہوئے حال تک محدود نہیں ہے کہ اس میں آنے والا حلال شامل نہ ہو سکے بلکہ ہم پر مستقبل میں اس کی تلاوت اسی طرح ضروری ہے جس طرح ہم نے ماضی میں اس کی تلاوت کی ہے۔ اس لئے قرآن کے اس حصے کی جو اس سے پہلے نازل ہوچکا ہے مستقبل میں بھی تلاوت ممکن ہے اس صورت میں آیت کے اندر مذکورہ استثناء کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے ذریعے مویشی قسم کے ان چوپایوں کے حکم کا باقی رہنا واضح ہوجائے گا جو اس سے پہلے حرام کردیئے گئے تھے نیز یہ کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا۔ لیکن اگر لفظ کو استثناء کے بغیر مطلق رکھا جائے گا جبکہ اس سے پہلے بہت سے چوپایوں کی تحریم کا حکم آچکا ہو تو یہ چیز تحریم کے نسخ کو واجب کر دے گی اور تمام چوپایوں کی اباحت لازم ہوجائے گی۔ قول باری غیر محلی الصید و انتم حرم لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کریں) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے آیت کو ان معنوں پر محمول کیا ہے ” سوائے اس کے جو تمہیں بیان کیا جاتا ہے یعنی احرام کی حالت میں شکار کا گوشت کھانا۔ اس صورت میں والامایتلی علیکم کے ذریعے شکار مستثنیٰ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے احرام باندھنے والوں پر حرام کردیا ہے لیکن اس تاویل سے دوسرے استثناء یعنی غیر محلی الصید وانتم حرم کے حکم کا اسقاط لازم آئے گا اور مفہوم کے اعتبار سے اس کی صورت یہ رہ جائے گی سوائے اس کے جو تمہیں بیان کیا جاتا ہے اور وہ ہے احرام والے پر شکار کی تحریم اور یہ چیز آیت کی تاویل کے سلسلے میں بےسوچے سمجھے ایک بات اختیار کرلینے کے مترادف ہوگی۔ یہ بات اس چیز کی بھی موجب ہوگی کہ چوپایوں کی اباحت سے استثناء صرف شکار تک ہی محدود رہ جائے گا جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ مراد چوپایہ بھی اباحت کے اس حکم سے مستثنیٰ ہے اس لئے یہ تاویل بےمعنی ہوگی۔ پھر اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قول باری غیر محلی الصید و انتم محرم یا تو اس استثناء سے مستثنیٰ ہوجائے جو اس کے متصل ہے اس صورت میں یہ مفہوم ہوگا ” سوائے اس کے جو تمہیں بیان کیا جاتا ہے مگر یہ کہ تم احرام کی حالت میں شکار اپنے لئے حلال سمجھو “ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو اس سے حالت احرام میں شکار کی اباحت لازم ہوجاتی۔ کیونکہ شکار ممنوع جانوروں اور چیزوں سے مستثنیٰ ہوتا اس لئے کہ اس صورت میں قول باری الامایتلی علیکم کا مفہوم یہ ہوتا ” شکار کے سوا ان جانوروں میں سے جن کا بیان ہوچکا اور اس کی تحریم بعد میں بیان کی جائے گی “۔ یا غیر محلی الصید وانتم حرم کے معنی یہ ہوجائیں۔” عقود کی پابندی کرو احرام کی حالت میں شکار کو حلال نہ سمجھتے ہوئے اور تمہارے لئے مویشی قسم کے چوپائے حلال کردیئے سوائے ان کے جو تمہیں بعد میں بیان کئے جائیں گے “۔
Top